میرا نقطہ نظر ہمیشہ یہی رہا ہے کہ کسی شخصیت پر تنقید کا حق اسی کو ہے جو اس کیلئے کلمۂ خیر کہنے کی ہمت بھی رکھتا ہو۔ بڑی سیاسی شخصیات خاص طور پر کڑی تنقید کی زد میں آیا کرتی ہیں۔ وہ چونکہ تیز روشنی میں ہوتی ہیں سو ان کے خدوخال چھپ سکتے ہیں نہ ان کی نقل وحرکت۔ یہ شخصیات گویا ایک سٹیج پر ہر طرف سے روشنی کے دائروں میں ہوا کرتی ہیں۔ جہاں وہ شخصیات جاتی ہیں‘ وہ دائرہ بھی ان کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ جب تک وہ سٹیج پر ہیں‘ یہ دائرے ان کی جان نہیں چھوڑتے‘ بیک سٹیج پر محض تاریکی یا نیم تاریکی ہے۔ یہیں ان دائروں سے مفر ہے اور یہی سیاسی زندگی کا اختتام ہے۔ میں کسی بھی سیاسی رہنما کی ہر حال میں‘ ہر صورت میں مخالفت کا نہ صرف یہ کہ قائل نہیں ہوں بلکہ اسے غلط بھی سمجھتا ہوں۔ کسی پالیسی سے اختلاف اور بات ہے اور اسے دشمنی یا نفرت میں بدل دینا بالکل مختلف۔ کسی بھی سیاستدان کے کسی بھی اچھے قدم کی تحسین ہونی چاہیے اور غلط بات پر تنقید۔ یہی متوازن طریقۂ اظہار ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اکثر ایسا نہیں ہوا کرتا۔ میں ان لوگوں کو جانتا ہوں جو کسی کی مخالفت میں اپنی ہی غیر متوازن سوچ سے پردے اٹھا دیا کرتے ہیں‘ اور یوں ایسی مخالفت کی تلوار سب سے پہلے ان کی اپنی گردن پر پڑتی ہے۔ جواں مرگ شاعر دوست ثنا اللہ ظہیر نے کہا تھا:
میں دے رہا ہوں تمہیں خود سے اختلاف کا حق
یہ اختلاف کا حق ہے‘ مخالفت کا نہیں
میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ جناب مولانا فضل الرحمن کا ناقد رہا ہوں۔ اس تنقید یا اختلاف کا تعلق جمعیت علمائے اسلام کے ماضی بعید سے بھی ہے‘ ماضی قریب سے بھی اور حال سے بھی۔ کے پی میں ایم ایم اے کی کارکردگی سے بھی اور ان کے سیاسی طرزِ عمل سے بھی۔ لیکن اس سب کے باوجود مولانا فضل الرحمن کیلئے کبھی ناروا کلمات ادا نہیں کیے۔ کبھی ان حدود سے تجاوز نہیں کیا جو اختلاف کی حدود ہوا کرتی ہیں۔لیکن مولانا کے بارے ایک سیاسی جماعت کے بارے جو کچھ کہا گیا میں نے اس کی مذمت کی۔ ان کے بارے میں کیا کیا نہیں کہا گیا؟ مکافاتِ عمل دیکھیے کہ اس جماعت کے لوگ اب مولانا کی دہلیز پر جھکنے کیلئے آتے ہیں‘ مولاناکے بارے میں تعریفوں کے پُل باندھتے ہیں اور بار بار بیان دیتے ہیں کہ ہم مولانا کے ساتھ چل رہے ہیں۔سیاست کے سینے میں دل تو ہوتا نہیں لیکن سیاست کی آنکھ میں شرم بھی نہیں ہوتی۔
سچ یہ ہے کہ گزشتہ ایک عشرے میں‘ یعنی 2014ء سے اب تک‘ مولانا فضل الرحمن کا سیاسی قد بہت بلند ہوا ہے‘ اور انہوں نے ملکی سیاست میں اپنی فہم وفراست کا لوہا منوایا ہے۔ ایوانوں میں اتنی کم نشستوں کے ساتھ اتنا بھرپور کردار کسی جماعت کے حصے میں کم ہی آیا ہوگا اور اپنی جماعت کو تمام جماعتوں کا مرکز ومحور بنا دینا بھی مولانا کا بڑا کارنامہ ہے۔ آج کل آئینی ترمیم کا غلغلہ پورے ملک میں ہے اور حکومت کب سے عدلیہ کو قابو کرنے کی کوشش میں ہے۔ چند ووٹوں کی کمی اسے اس کی اجازت نہیں دیتی اور وہ نمبر مولانا کے پاس ہیں۔ مولانا کی دہلیز پر نون لیگ نے پہلے اپنا زور لگایا لیکن نامراد واپس آئی۔ پھر آصف زرداری متحرک ہوئے‘ جن سے مولانا کے دیرینہ تعلقات میں گہرے شگاف پڑے ہوئے ہیں‘ لیکن مولانا نے انہیں واپس نہیں بھیجا بلکہ قائل کیا کہ وہ ان کی ترمیمات کے مطابق نیا مسودہ تیار کریں۔ مولانا فضل الرحمن اس نئے مسودے پر تحریک انصاف کو بھی قائل کر چکے تھے کہ یکایک اس نے تمام کارروائی سے الگ رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ نئے مسودے میں سابقہ تجاویز ختم ہو چکی ہیں۔ مولاناکی منشا کے مطابق آئینی عدالت کے بجائے آئینی بینچ بنایا جائے گا۔ نئے چیف جسٹس کی تقرری کے بارے میں بظاہر تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کا تقرر وزیراعظم کا اختیار ہو گا۔بات صرف چیف جسٹس کی نہیں بلکہ مخصوص نشستوں کی بھی ہے۔ حکومت یہ سارا کھیل ان مخصوص نشستوں کو روکنے کیلئے رچا رہی ہے جو سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو دینی ہیں۔ ان ججز کا نیا وضاحتی حکم بھی سامنے آ چکا۔ سوال یہ ہے کہ آنے والے چیف جسٹس کی موجودگی سے ان آٹھ ججز کا مؤقف کیسے بدل جائے گا؟ عدالت میں سیاست کی شمولیت کوئی نئی بات ہے نہ نظریۂ ضرورت کی تخلیق۔ جسٹس منیر نے جو بیج بویا تھا وہ ہر دور میں پھل دیتا رہا۔ عدالتی اصلاحات کی ضرورت بہرحال ثابت ہو چکی ہے لیکن ان اصلاحات کا مقصد عدالت کی آزادی سلب کرنا ہو تو اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی اور اس وقت حکومت کا مقصد بہرحال یہی نظر آتا ہے۔
گزشتہ روز وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد ترمیم کا مسودہ سینیٹ میں پیش کر دیا گیا جہاں سے اس کی شق وار منظوری لی گئی۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور تحریک انصاف‘ دونوں حالیہ انتخابات کو درست نہیں مانتے‘ لیکن ایوانوں میں موجود بھی ہیں۔ کیا ایوان کی کارروائی میں حصہ لینے کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ ان ایوانوں کی حیثیت تسلیم کر رہے ہیں؟ تحریک انصاف نے تو دونوں ایوانوں میں ووٹنگ کے عمل کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے‘ لیکن جے یو آئی ایوان میں جائے گی۔ دیکھا جائے تو اس پورے معاملے میں نہ (ن) لیگ جیتی ہے‘ نہ پیپلز پارٹی اور نہ تحریک انصاف۔ جیت دراصل جمعیت علمائے اسلام کی ہوئی ہے جس نے اپنی چند نشستوں کی بنیاد پر اپنی شرائط منظور کرائیں اور سیاسی بلیک میلنگ کا الزام بھی اس کے سر نہیں آیا۔ وہ ان چند نشستوں کی بنیاد پر وہ کھیل نہیں کھیلی جو ایم کیو ایم اپنی تاریخ میں کئی بار کھیل چکی ہے اور جس کا مقصد محض وزارتوں اور عہدوں کا حصول ہوا کرتا تھا۔ ابھی کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی کہ مولانا کی حمایت کے بدلے انہیں فلاں عہدے یا فائدے کی پیشکش کی گئی ہو۔
کسی سیاسی جماعت کی طاقت کا اندازہ صرف ایوانوں ہی میں نہیں ہوا کرتا۔ اپنے حامیوں کی بھرپور تعداد اکٹھی کر لینا‘ بڑی ریلیاں‘ بڑے دھرنے‘ بڑے جلسے اس طاقت کا مظاہرہ سمجھے جاتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام ان سب کا بار بار مظاہرہ کر چکی‘ بلکہ ان کی یہ شکایت بالکل بجا ہے کہ ان کے جلسوں کو عام طور پر میڈیا نے نظر انداز کیا ہے۔ ایسی بھرپور شرکت کم جماعتوں کو نصیب ہوئی جو مولانا فضل الرحمن کے جلسوں کی عموماً ہوا کرتی ہے۔ تحریک انصاف اپنے عروج کے زمانوں سے اپنے حریفوں کے ووٹوں میں شگاف ڈال چکی۔ (ن) لیگ کا گڑھ یعنی لاہور اُس سے چھن چکا۔ پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہوچکی۔ یقینا اس مقبولیت کے اثرات جمعیت نے بھی بھگتے لیکن یہ اپنی جگہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے سیلابِ تند وتیز کا مقابلہ‘ بالخصوص خیبر پختونخوا میں‘ انہی کے بس کا تھا۔ کوئی اور ہوتا تو اس کی لہروں میں گم ہو چکا ہوتا۔ میرا خیال ہے کہ تحریک انصاف کا عروج کا زمانہ گزر چکا‘ مرکز اور صوبوں میں اس کی کارکردگی کمزور ہے۔ اس وقت بھی کے پی میں ہیجان اور جارحانہ پن کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسے میں مولانا فضل الرحمن سے سیکھا جا سکتا ہے کہ ہیجان سے دور رہ کر جارحانہ رویہ کیسے اپنایا جا سکتا ہے۔ حالیہ دور میں مولانا نے مقتدرہ کے خلاف جارحانہ رویہ اپنایا ہے لیکن ان کی نپی تلی گفتگو اور الفاظ کے چنائو کی داد دیے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ پاناما لیکس پر ان کا مؤقف ہو‘ طالبان کا معاملہ ہو یا مخصوص سیاسی جماعتوں کے بیرونی ایجنڈے کے بارے میں ان کا نقطہ نظر‘ بہت سی باتیں وقت نے واضح کر دی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ ملکی سیاست میں پہلے درجے کی فہم وفراست کا حامل سیاست دان ایک ہے‘ مولانا فضل الرحمن۔