ملک میں یا تو احتجاج ہو سکتے ہیں یا کاروبار چل سکتے ہیں‘ احتجاج اور معیشت کا اکٹھے چلنا مشکل ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں احتجاج کی بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ان ممالک میں شرح خواندگی کم ہوتی ہے‘ احتجاج کے دوران امن قائم رکھنا اور ملکی املاک کو نقصان نہ پہنچانا ترجیح نہیں ہوتی‘ اصل مقصد حکومت سے مطالبات منوانا اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہوتا ہے اور اس کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جایا جا سکتا ہے۔ آئے روز سیاسی احتجاج‘ دھرنوں اور جلسوں نے معاشی نظام کو مفلوج کر دیا ہے۔ خاص طور پر پنجاب‘ اسلام آباد اور خیبر پختونخوا شدید متاثر نظر آتے ہیں۔ حکومت کا رویہ بھی معتدل نہیں ہے۔ اپوزیشن سے زیادہ حکومت متحرک دکھائی دیتی ہے۔ 24 نومبر کے احتجاج کو روکنے کے لیے کنٹینروں کے پہاڑ کھڑے کر دیے گئے۔ رنگ روڈ‘ موٹر ویز‘ جی ٹی روڈ سمیت کوئی بھی بڑی شاہراہ ایسی نہیں جسے کنٹینرز لگا کر بلاک نہ کیا گیا ہو۔ راستے بند ہونے کی وجہ سے ہزاروں فیکٹریاں بھی بند پڑی ہیں‘ برآمدات کے لیے کنٹینرز موجود نہیں اور توڑ پھوڑ کے ڈر سے اربوں روپوں کی مالیت کے شاپنگ مالز بند ہیں۔ شہر کے اندر کی صورتحال بھی قید خانے جیسی ہے۔ خصوصی طور پر پورے اسلام آباد میں معمولاتِ زندگی چلانا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق ایسے ایڈونچرز کی ایک دن کی قیمت تقریباً 190 ارب روپے ہے۔ یعنی تین دن کی قیمت تقریباً 570 ارب روپے بنتی ہے۔ اس نقصان میں ٹول پلازوں کا نقصان شامل نہیں۔ جس ملک کے عوام کا بال بال قرض میں ڈوبا ہو‘ ملک چلانے کے لیے حکمران دوست ممالک سے بھیک مانگ رہے ہوں اور آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالرز حاصل کرنے کے لیے پورا ملک گروی رکھ دیا گیا ہو‘ وہاں حکومت اور اپوزیشن کو سیاسی مہم جوئی سے گریز کرنا چاہیے اور مسائل حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ معاشی بے چینی پیدا نہ ہو اور سرمایہ کار ملک سے پیسہ نکالنے کے بجائے نئے پروجیکٹس شروع کر سکیں۔ سعودی عرب‘ یو اے ای‘ چین‘ روس‘ ترکیہ‘ ملائیشیا اور یورپ سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں معاشی ترقی کی بڑی وجہ احتجاج اور دھرنوں کی سیاست کا نہ ہونا ہے۔
بے یقینی کی کیفیت اور آئی ایم یف کی وجہ سے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام تقریباً رک چکا ہے۔ پانچ ماہ کے لیے 26 فیصد بجٹ مختص کیا گیا تھا جس میں سے صرف 6.6 فیصد بجٹ خرچ ہو سکا ہے۔ نومبر تک صرف 92 ارب روپے خرچ کیے جا سکے ہیں جبکہ بجٹ 11 ارب روپے رکھا گیا تھا۔ اس کی بڑی وجہ عالمی مالیاتی اداروں سے فنڈنگ کا نہ ملنا ہے۔ پانچ ماہ میں صرف ڈھائی ارب روپے حاصل کیے جا سکے ہیں۔ جب سارے توجہ دھرنوں پر ہو گی تو عوامی منصوبوں کو شروع کرنا مشکل ہے۔ عوامی فلاح اور ترقی کے منصوبے ملکی ترقی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگر حالات اسی طرح بے یقینی کا شکار رہے تو امکان ہے کہ اداروں سے ترقیاتی فنڈز کا حصول تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ ان حالات میں بھی سٹاک ایکسچینج بہتر جا رہی ہے۔ مگر یہ چمتکار کیسے ہو رہا ہے‘ اس پر دنیا کے ماہرین معیشت حیران ہیں بلکہ آئی ایم ایف نے بھی اس پر سوال اٹھایا ہے۔ 100 انڈیکس 99 ہزار سے اوپر جا چکا ہے۔ تازہ ترین اضافہ فوجی فرٹیلائزر کی کھاد کی دو بڑی کمپنیوں کی وجہ سے ہوا۔ شاید سیاسی عدم استحکام کے اثر کو زائل کرنے کے لیے ایسا کیا گیا۔
عوامی ترقیاتی منصوبوں پر کام رکا ہوا ہے لیکن عوام پر ٹیکس کا بوجھ بڑھانے کا منصوبہ کامیابی سے جاری ہے۔ صوبہ پنجاب کے کسانوں پر سُپر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ یہ ٹیکس زرعی انکم ٹیکس بل کی منظوری کے نتیجے میں اگلے مالی سال سے نافذ العمل ہو گا۔ کسان اس ٹیکس پر سراپا احتجاج ہیں۔ کپاس کی فصل کی تباہی کی بڑی وجہ حکومتی عدم دلچسپی ہے۔ موسم تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں لیکن حکومت آج تک پاکستانی ماحول کے مطابق بیج تیار نہیں کر سکی۔ اس وقت مارکیٹ میں تقریباً 600 سے زیادہ بیج کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے اکثر جعلی اور ناقص معیار کا بیج تیار کر رہی ہیں جس کی وجہ سے پیداوار کم ہے اور معیار بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ لیکن حکومت ایکشن نہیں لے رہی۔ اُدھر بھارت میں صرف 50 کمپنیاں کپاس کا بیج تیار کرتی ہیں اور وہ معیاری ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی فی ایکڑ پیداوار پاکستان سے چار گنا زیادہ ہے اور معیار بھی بہتر ہے۔ بھارتی پنجاب میں کسان کو بجلی مفت ملتی ہے مگر پاکستان میں کسان کی آمدن کا بڑا حصہ بجلی کے بلوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ بجلی‘ کھاد اور بیج اس قدر مہنگا کر دیا گیا ہے کہ اس سال مکئی‘ گندم‘ تِل اور چاول کی فصل میں فی ایکڑ بیس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک نقصان ہوا ہے۔ اگرنیا ٹیکس بھی ادا کرنا پڑ گیا تو نقصان میں مزید اضافہ ہو گا۔ حکومت نے کسانوں کے ٹیکس کے لیے جو سلیبز متعارف کرائی ہیں ان کے مطابق ٹیکس ریٹ بہت زیادہ ہے۔ چھ لاکھ روپے آمدن پر ٹیکس نہیں ہو گا۔ 6 سے 12 لاکھ روپے کی آمدن پر 6 لاکھ کا 15 فیصد ٹیکس ہو گا۔ 12سے 16 پر 20 فیصد‘ 16سے 32 لاکھ روپے آمدن پر 30 فیصد اور 32 سے 56 لاکھ آمدن پر 40 فیصد ٹیکس لاگو ہو گا۔ یعنی اگر کوئی کسان سال کے 32 لاکھ روپے کماتا ہے تو 12 لاکھ 80 ہزار روپے سرکار کو ٹیکس دے گا اور بقیہ 19 لاکھ 20 ہزار پورے سال کے لیے بچیں گے جو ماہانہ ایک لاکھ 60 ہزار روپے بنتے ہیں۔ جبکہ کسان اس سے پہلے دو لاکھ 67 ہزار روپے ماہانہ گھر لے جا سکتا تھا۔ اس حساب سے وہ ماہانہ ایک لاکھ سات ہزارروپے حکومت کو ٹیکس دے گا اور حکومت اس کے بدلے کسان کو کچھ بھی نہیں دے گی۔ یہ پوری دنیا میں زراعت پر لگنے والا سب سے بڑا ٹیکس ریٹ ہے۔ بھارت کے قانون‘ انکم ٹیکس آف انڈیا کے سیکشن 1(10) کے مطابق زرعی آمدن پر ٹیکس نہیں ہے۔ منافع پر ٹیکس لگانے کے لیے اس میں سے اخراجات نکالنا ضروری ہیں۔
صرف آمدن پر ٹیکس لگانا مناسب نہیں ہے۔ حکومت نے قانون تو بنا دیا ہے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کسانوں کی آمدن اور اخراجات کا حساب کیسے ہو گا ۔ اس حوالے سے ابھی تک کوئی واضح نظام موجود نہیں کیونکہ کسانوں کا زیادہ تر لین دین کیش پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اتنے پڑھے لکھے بھی نہیں ہوتے کہ حساب کتاب کا فائل ورک ایف بی آر کے مطابق رکھ سکیں۔ زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ فی ایکڑ رقبے کے حساب سے ٹیکس لگایا جائے اور ایک مربع سے زیادہ زمین رکھنے والوں سے ٹیکس وصول کیا جائے۔ 12 ایکڑ کے مالک پر کوئی ٹیکس نہیں ہے‘ اگر یہ حد 24 ایکڑ تک بڑھ جائے تو مڈل کلاس کسان کی زندگی آسان ہو سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زراعت پر ٹیکس لگانا وقت کی ضرورت ہے‘ زراعت اور لائیو سٹاک پر ٹیکس لگانے سے ٹیکس چوری کا ایک بہت بڑا راستہ بند ہو سکتا ہے۔ اس وقت بلیک منی کا بڑا پیسہ زراعت اور لائیو سٹاک کے کاروبار میں ظاہر کرنا معمول کی بات بن چکا ہے۔ ایک لائیو سٹاک کی جعلی کمپنی بنائی جاتی ہے اور کروڑوں روپوں کی جانوروں کی خرید وفروخت ظاہر کر دی جاتی ہے۔ چونکہ جانوروں کی خرید وفروخت کیش میں ہوتی ہے اس لیے کوئی کاغذی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ اس سے کالا دھن رکھنے والے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ٹیکس لگانے سے بلیک منی کا راستہ روکا جا سکتا ہے‘ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ زراعت اور لائیو سٹاک پر ٹیکس کسانوں کی مشاورت سے لگایا جائے۔ بصورت دیگر رشوت کا بازار مزید گرم ہو سکتا ہے اور آئی ایم ایف کا ٹیکس ہدف حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔