آئی ایم ایف‘ معیشت اور کپاس کی درآمد

آئی ایم ایف وفد پاکستان کے پانچ روزہ دورے کے بعد واپس چلا گیا ہے۔ پاکستان کیلئے یہ دورہ کیسا تھا اس بارے میں ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔ سٹاف آئی ایم ایف بورڈ کو رپورٹ مرتب کر کے دے گا اس کے بعد معلوم ہو سکے گا کہ پاکستان نے مزید کون سے اقدامات کرنے ہیں۔ وزیر خزانہ تو بیان دے چکے ہیں کہ منی بجٹ کی ضرورت نہیں ہے‘ آئی ایم ایف نے بھی منی بجٹ سے متعلق بیان نہیں دیا ہے۔ زیادہ امکانات یہی ہیں کہ شاید منی بجٹ کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ شاید سرکار سوچتی ہے کہ اگر منی بجٹ کے بغیر ہی ٹیکسوں کی بھرمار ممکن ہے تو اسے منی بجٹ کا نام دینے کی کیا ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ منی بجٹ کا نام دیے بغیر ٹیکسز کا سونامی لانچ کر دیا جائے۔ غیر محسوس طریقے سے بجلی‘ گیس کی قیمتوں میں اضافہ اورپٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس لگانے کو شاید منی بجٹ نہ کہا جائے لیکن عوام کی جیبوں سے پیسہ نکلوا لیا جائے۔ عوام کواس طرح کے طریقہ واردارت کی عادت ہو چکی ہے۔ وہ شاید خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں کیونکہ عوام کے معاشی مسائل کی آواز اٹھانے کیلئے مضبوط سیاسی رہنمائی درکار ہوتی ہے جو فی الحال انہیں میسر نہیں۔ تمام سیاسی آوازیں اقتدار کے حصول اور بچاؤ کیلئے سرگرم ہیں۔ سیاستدانوں کے بجائے آئی ایم ایف عوام کے دل کی آواز بنا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف نے سرکاری اخراجات کم کرنے کیلئے حکومت پر دباؤ ڈالا ہے۔ سپلیمنٹری گرانٹس کے نام پر عوامی ٹیکس کے پیسوں کا بے دریغ استعمال دیکھنے میں آیا ہے۔ صرف ایک سال میں سپلیمنٹری گرانٹس بجٹ اخراجات کے 49فیصد سے بڑھی ہیں۔ بجٹ تو اسمبلی سے منظور ہوتا ہے لیکن یہ اخراجات صرف چند افراد کے دستخطوں کے مرہونِ منت ہیں۔ یہ فنڈز کہاں اور کیسے خرچ کیے جاتے ہیں اور ان کا فائدہ کیا ہے‘ اس حوالے سے تھرڈ پارٹی رپورٹ موجود نہیں ہے۔ وزیراعظم کو اس کا نوٹس لینا چاہیے تھا یا اپوزیشن کو اس کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے تھا لیکن عوامی ٹیکس کی انہیں قدر نہیں ہے۔ اب آئی ایم ایف نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے کہا کہ سپلیمنٹری گرانٹ کا پچھلے دس سال کا آڈٹ کیا جائے۔ ایسا ہو پاتا ہے یا نہیں اس بارے میں بھی مکمل یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ جن اسمبلی ارکان نے سپلیمنٹری گرانٹس کو اسمبلی سے منظور کرانے کی مخالفت کی ہو ان کی جانب سے ان کے شفاف آڈٹ کی حمایت کرنا مشکل ہے۔
کچھ معاملات میں آئی ایم ایف مطمئن دکھائی دیا ہے۔ مشن چیف کے مطابق پاکستانی حکام کا رویہ مثبت اور حوصلہ افزاہے‘ حکومت ٹیکس نہ دینے والے شعبوں سے ٹیکس آمدن بڑھانے کیلئے پُرعزم ہے۔حکومت کی جانب سے یکم جنوری 2025ء سے صوبوں پر انکم ٹیکس لگانے کی یقین دہائی کرائی گئی ہے اس حوالے سے قانون سازی بھی تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ صوبوں کے بجٹ کو سرپلس کرنے کا مطالبہ بھی پورا کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے خیبرپختونخوا سرفہرست رہا ہے۔خیبرپختونخوا کا ہدف 45 ارب تھا جبکہ وصولی 130ارب روپے ہوئی ہے‘ سندھ کا ہدف 75ارب روپے تھا اور وصولی 130ارب روپے ہوئی‘ بلوچستان کا ہدف 27ارب روپے تھا‘ جبکہ وصولی 85ارب روپے کی گئی۔ پنجاب کی وصولی ہدف سے کم تھی۔ لیکن بعدازاں وہ بھی سرپلس ظاہر کر دی گئی۔ یہ معاملہ حیران کن تھا۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ پنشن کی مد میں 200ارب روپے کے اخراجات ظاہر کیے گئے تھے لیکن ادائیگی نہیں ہوئی تھی۔ لہٰذا 200 ارب روپے اخراجات سے نکالنے سے160ارب روپے کا خسارہ 40ارب روپے کے سرپلس میں تبدیل ہو گیا۔جبکہ اگلے کوارٹر میں یہ رقم ادا تو کرنی ہے۔ یہ رقم اگر خرچ نہ کرنی ہو تو اسے اخراجات سے نکالنا درست ہے۔ جب یہ ہر صورت ادا کرنی ہے تو اسے اخراجات سے کیسے نکالا جا سکتا ہے؟ یہ بھی جانچنے کی ضرورت ہے کہ 200ارب روپے ایک بڑی رقم ہے اور اس رقم کی غلط اکاؤنٹنگ انٹری کیسے ہو گئی؟ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ چند دنوں میں پنجاب کے خسارے کو سر پلس میں تبدیل کرنے کیلئے اسحاق ڈار صاحب کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ ان کا ماضی اس طرح کی ٹرانزیکشنز سے بھرا پڑا ہے۔ یہ وہی طریقہ واردات ہے جو برآمدکنندگان کے 280ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈز کو دبا کر ٹیکس خسارہ 190ارب روپے کم دکھایا گیا ہے‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تقریباً470ارب روپے ٹیکس ہدف سے کم اکٹھا ہوا۔ آئی ایم ایف کیلئے تیسرا اہم معاملہ دوست ممالک سے قرضوں کا حصول اور ری شیڈولنگ سے متعلق تھا۔ حکومت نے یقین دلا یا ہے کہ یہ معاملہ تقریباًحل ہو چکا ہے۔
دوسری جانب نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ آئی ایم ایف نے پی آئی اے نجکاری نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔حکومت پالیسی تبدیل کرنے کا سوچ رہی ہے اور پی آئی اے کسی دوست ملک کو دینے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ پہلے بھی کوششیں کی گئیں تھیں لیکن کامیابی نہیں مل سکی۔ مستقبل قریب میں بھی اس حوالے سے مثبت خبر سامنے آتی دکھائی نہیں دے رہی۔ پی آئی اے کے نیویارک میں روز ویلٹ ہوٹل کا مستقبل بھی خطرے میں دکھائی دینے لگا ہے۔ ٹرمپ حکومت نے امیگرنٹس اور غیر قانونی طور پر امریکہ میں رہنے والے افراد کے حوالے سے سخت قانون سازی کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ پاکستان نے روز ویلٹ ہوٹل غیر قانونی طور پر امریکہ میں مقیم افراد کیلئے 228 ملین ڈالرز کی عوض لیز پر دے رکھا ہے۔ ٹرمپ حکومت آنے کے بعد شاید یہ معاہدہ منسوخ کرنا پڑجائے۔ اگر پاکستانی حکومت چاہے تو بہتر سفارتکاری کے ذریعے یہ معاملہ احسن انداز میں حل کر سکتی ہے۔ لیکن جس طرح پی آئی اے نجکاری کو ناکام بنایا گیا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روز ویلٹ ہوٹل کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔
حکمران معیشت کو بہتر بنانے کے دعوے کر رہے ہیں لیکن شاید اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ کپاس کی پیداوار ملکی ضرورت پوری نہیں کر پارہی اور جو کسان کپاس کاشت کر رہے ہیں ان کی حق تلفی کا سلسلہ جاری ہے۔ ملکی ضرورت پوری کرنے کیلئے کپاس درآمد کرنا پر رہی ہے۔ پاکستان اس وقت امریکی کپاس کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔تقریبا 11لاکھ 92 ہزار بیلز امریکہ سے خریدی گئی ہیں۔ ملکی ضرورت پوری کرنے کیلئے 55 لاکھ بیلز درآمد کرنے کی ضرورت ہے اور پوری دنیا سے ابھی تک 30 سے 35 لاکھ بیلز درآمد کرنے کے معاہدے ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مقامی سفید لنٹ پر 18فیصد سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے جبکہ بیرونِ ملک سے سفید لنٹ درآمد کرنے پر ٹیکس چھوٹ حاصل ہے۔ ایسے فیصلوں کو حادثاتی نہیں کہا جا سکتا‘ اسے سوچی سمجھی منصوبہ بندی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان کپاس کا تقریباً سب سے بڑا برآمدکنندہ تھا لیکن آج حالات 180 ڈگری سے تبدیل ہو گئے ہیں۔ حکمران اقتدار بچانے میں مصروف ہیں اور ملک کی سب سے بڑی کاٹن انڈسٹری تباہی کے دہانے پر آ پہنچی ہے۔ بیوروکریسی نے دھاگے کی درآمدات پر ڈیوٹی ختم کر دی ہے جس کی وجہ سے درآمد سستی ہو گئی ہے اور کپاس کے کاشتکار نقصان برداشت کر رہے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسے فیصلوں کی وجہ سے کپاس کی کاشت کم ہوئی تھی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان دبئی کے راستے بھارتی دھاگہ درآمد کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ ان حالات میں اگر برآمدات بڑھا بھی لی جائیں تو مطلوبہ فوائد حاصل نہیں ہو سکتے کیونکہ جو ڈالرز برآمدات سے کمائے جائیں گے اس سے زیادہ ڈالرز درآمدات کی شکل میں ملک سے باہر چلے جائیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں