رات کے پہلے پہر بوندا باندی ہوئی تو اگلی صبح ارادہ کیا کہ لوک میلے چلتے ہیں کہ فضا میں آلودگی اور گرد‘ جن سے کسی زمانے میں اسلام آباد کی فضا ناآشنا تھی‘ ذرا صاف ہو گئی ہے۔ ہر طرف زرخیز زرعی زمینوں پر طاقتور گھرانے اور سوسائٹیوں کے مال دار 'قانونی‘ طریقوں سے نئے شہر آباد کررہے ہوں تو آلودگی‘ دھواں اور گرد کے ذرات دور دور تک بسنے والوں کے سانسوں تک میں اُتر جاتے ہیں۔ ہماری ترقی کا معیار صرف یہی رہ گیا ہے کہ ہر آنے والا اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی کے علاوہ ہر بڑے شہر کے ساتھ کالونیوں کا جال پھیلا کر نوٹ کھرے کرتا ہے۔ بہت آسانی ہے‘ کیونکہ سب آزادیاں سیاسی گھرانوں کو حاصل ہیں جن کی چابک دستی ہماری کرنسی تبدیل کرکے باہر کے خزانوں میں جمع کرا لیتی ہے۔ لاہور کے لوگ تو اب گھروں سے نکل ہی نہیں سکتے۔ بجائے اس کے کہ آلودگی کے مسائل کو شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ‘ دھواں چھوڑتے کارخانوں اور موٹر سا ئیکلوں‘ رکشوں اور گاڑیوں کے علاوہ ہر جگہ کوڑے کرکٹ میں تلاش کریں‘ الزام مشرق کی طرف سے آتی ہوا پر دھرتے ہیں۔ آج بھی اسلام آباد کا فطری ماحول دیگر شہروں کے مقابلے میں قدرے بہتر ہے مگر ہم نے نصف صدی پہلے کا یہ شہر دیکھا ہوا ہے‘ اور اس کے ارد گرد زرعی زمینوں پر سوسائٹیوں کے اجازت نامے جمہوری حکومتوں کے کارنامے ہیں۔ کئی دنوں سے آسمان کی طرف منہ کرکے دعا مانگ رہا تھا کہ بادل برسیں‘ سانس لینا آسان ہو تو لو ک میلہ میں چند ساعتیں گزاریں۔ ہم بچپن کے زمانے کے دیہاتی میلوں کو آج تک نہیں بھولے۔ یہ ہماری مقامی ثقافت کے رنگ ہیں جو ہر صورت قائم و دائم رہنے چاہئیں‘ اور ان روایات کو قائم رکھنا ہر نئی آنے والی نسل کی ذمہ داری ہے۔
اسلام آباد کا لوک میلہ دیگر ثقافتی میلوں سے منفرد ہے۔ یہاں ہر صوبے اور ملک کے ہر علاقے کا رنگ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ ہماری ثقافت قوسِ قزح کے رنگوں سے بھی زیادہ رنگین ہے کہ ہر صوبے کے اندر آپ کو کئی ثقافتی دھارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سندھ میں تھرپار کر اور جنوبی پنجاب میں چولستان کی روایات دیگر حصوں سے مختلف ہیں۔ اس طرح بلوچستان کی مکرانی پٹی کی اپنی انفرادیت ہے۔ لوک ورثہ ادارے اور لوک میلے کے بانی عکسی مفتی صاحب بھی اپنی ذات میں منفرد اور کمال کے منصوبہ ساز تھے‘ جس کا عکس آپ اس ادارے کی ترویج اور ترقی میں دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے رخصت ہونے کے بعد وہ قیادت تو ادارے کو نہ مل سکی‘ مگر انہوں نے کئی دہائیوں کی مشقت سے اس کی بنیاد اس قدر مضبوط رکھی تھی کہ کئی فنکاروں کے اس کے سربراہ بننے کے بعد بھی ابھی تک کچھ روایات باقی ہیں جس میں سالانہ لوک میلہ بھی شامل ہے۔ پرسوں ذرا موسم کھلا تو ادھر کا رخ کیا۔ ہر لمحے پرانے وقتوں کے اس میلے کی یادوں کے سحر میں گاڑی کی رفتار تیز تر ہو رہی تھی۔ قریب پہنچنے سے پہلے ہی سڑک کے کنارے کاروں کی طویل قطار دیکھی تو سوچا کہ بریک لگاؤں اور وہیں پارک کردوں‘ مگر پتھروں اور گڑھوں کی وجہ سے اس عمل میں جو جدوجہد کرنا پڑی تو اس میلے کا انتظام کرنے والے پرانے لوگ یاد آنے لگے جن سے ابھی تک دوستی ہے‘ اور جو اس موقع پر سڑک کے کنارے ٹریکٹر سے دور تک پارکنگ کے لیے زمین ہموار کر دیتے تھے۔
قطار میں کھڑے ہو کر ٹکٹیں خریدیں اور عوامی ریلے میں میلے کے محدود میدان میں داخل ہو گئے۔ ہر صوبے اور علاقے کا اپنا احاطہ اور ڈیرہ ہمیشہ کی طرح سجا ہوا تھا‘ مگر بڑی تبدیلی تھی۔ کئی برس پہلے دستکار اپنی خود بنائی ہوئی چیزیں لاتے اور فروخت کرتے تھے۔ اب بھی کچھ کو ہلکا پھلکا کام کرتے دیکھا‘ مگر ہر سٹال پر تاجروں کا قبضہ تھا جو اپنے علاقے سے مقامی دستکاریاں لے کر آئے تھے۔ اسے بھی ہم غنیمت خیال کرتے ہیں کہ کم از کم دستکاروں کو‘ جن میں اکثریت غریب گھرانوں کی خواتین کی ہوتی ہے‘ کوئی خریدار ملا ہوا ہے۔ عام طور پر لوگ ہاتھ کی بنائی ہوئی کوئی چیز ہو‘ اس میں خامیاں تلاش کرنے بیٹھ جاتے ہیں‘ جیسے انہیں کسی شاہکار کی تلاش ہو۔ ہم جو بھی ملتا ہے‘ اسے اس نیت سے لے لیتے ہیں کہ بنانے اور فروخت کرنے والوں کا کام چلتا رہے۔ ہمارا متوسط طبقہ جسے عوامی فنکاروں اور دستکاروں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کرنے کی ضرورت ہے‘ وہ اعلیٰ طبقات کی اندھی پیروی میں غیرملکی مال کی طرف زیادہ راغب نظر آتا ہے۔ جہاں کہیں بھی لوگوں کے گھروں میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے‘ یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ بناوٹ اور سجاوٹ کی اشیا کا ہماری ثقافت اور تہذیب سے دورکا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ لوک میلے میں خرید نے کو بہت کچھ تھا‘ اور قیمتیں بھی مناسب تھیں‘ اور ایک دو جگہ تجربے کے طور پر روایتی سودے بازی بھی کرنے کی کوشش کی‘ مگر کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی چھابی کی قیمت صرف دو سو روپے ہو تو آپ سوچیں کہ ایک دن میں کوئی خاتون کتنی چھابیاں بنا سکتی ہو گی‘ اور پھر یہ پتے بھی خاص قسم کے ہوتے ہیں‘ اور ہر جگہ سے ملتے بھی نہیں ہیں۔
ایک تبدیلی یہ دیکھی کہ پہلے تو شکارپور کے اچار کا صرف ایک سٹال ہوا کرتا تھا‘ جہاں سے اس مرتبہ بھی دو چار جار لیے‘ اب ہر علاقے کی ایسی سوغاتیں ہر علاقائی ڈیرے پر موجود پائیں۔ گلگت بلتستان کے ایک سٹال پر خشک میوہ جات کے علاوہ خوبانی‘ ناشپاتی اور چیری کے مربے خوبصورت شفاف رنگوں میں دیکھے تو دل خوش ہوا کہ پھلوں کی قدرکا رجحان بڑھ رہا ہے۔
ہر علاقے کے فنکاروں کو گاتے‘ ناچتے‘ دھنیں بجاتے اور اپنے مخصوص رنگوں اور وضع قطع کے ملبوسات میں دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ تھرپار کر اور چولستان کے فنکار اور وہاں کی ثقافت ویسے تو ہر انسان کو مسحور کر دیتی ہے‘ مگر اس کی گرفت اپنے دل پر بہت زیادہ ہے۔ اسی میلے میں کئی دہائیاں پہلے سائیں فقیرا بھگت سے ملاقات ہوئی تھی اور سامنے کھڑے ہوکر ''لوری دیندیاں لعل کوں‘ جھولے لعل کوں‘‘ سنی تھی جو اَب بھی ذہن میں کبھی کبھار گونجتی ہے۔ اس مرتبہ اس علاقے کا کوئی فنکار نہ دیکھ سکا‘ شاید کہیں موجود ہو لیکن کوئی نظر نہ آیا۔ ایک جگہ تھرپار کر کا فنکار گروہ محفل سجائے ہوئے تھا اور قدم وہیں کچھ دیرکے لیے جم گئے۔ اس دھرتی کے گہرے ثقافتی رنگوں میں کھو سا گیا۔ ایک وقت تھا جب اس میلے میں ہر شام آتے اور کئی گھنٹے وہاں گزار تے تو مختلف لوگوں سے ملاقاتیں ہو جاتیں۔ اس مرتبہ ایک عرصہ بعد جانے کی وجہ سے کچھ اجنبیت کا احساس ہوا اور کم وقت میں بہت کچھ دیکھنے کی جلدی میں فنکاروں اور دستکاروں سے بات نہ ہو سکی۔ اس شہر‘ بلکہ وسیع علاقے کا یہ واحد ثقافتی میلہ ہے۔ وہاں چھوٹے بڑے‘ مرد و خواتین اور غیرملکی آپ کو نظر آئیں گے۔ ارد گرد کے اضلاع کے سکولوں اور کالجوں کے بچوں کی ایک بڑی تعداد بسیں بھر بھر کر ادھر کا رخ کرتی ہے۔ وقت کے ساتھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ جگہ لوک ورثہ میلے کے لیے کم پڑتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ دستکاروں اور لوک فنکاروں سے زیادہ کھانے پینے کے سٹال لگے ہوتے ہیں۔ علاقائی پکوانوں کی حد تک بات ٹھیک ہے مگر ہر جگہ دہی بڑھے‘ بریانی‘ سموسے‘ پکوڑے اور جلیبیاں تلی جارہی ہوں تو فنکاروں کے لیے جگہ کہاں بچے گی۔ قیادت عکسی مفتی کی ہوتی تو ترتیب‘ انتظام اور میلے کا ثقافتی رنگ کچھ اور ہی ہوتا۔