ہمارا حال وہی ہے جو دانش مندی اور غور وفکر کی نعمتوں سے محروم لوگوں کا ہوتا ہے۔ یہ صرف حکمران طبقات کے بارے میں نہیں‘ جنہوں نے ہمارے لیے مسائل کے انبار لگائے ہیں۔ نفسانفسی کے شکار عوام بھی بے حسی‘ غفلت اور سہل پسندی میں مسائل پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ یہ جو کئی سالوں سے پنجاب کے اکثر علاقوں اور سندھ تک زہریلے دھویں کے بادل اس موسم میں چھا جاتے ہیں۔اس کی بنیادی ذمہ داری ہماری حکومتوں کی ہے کہ نہ وہ آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈھنگ کی قانون سازی کر سکیں اور اگر ایسے قوانین موجود ہیں تو ان پر عمل کرانا اس بگڑے ہوئے معاشرے میں اب ممکن نہیں رہا۔ نہ جانے ہم کتنی بار پلاسٹک کے تھیلوں کے بارے میں لکھ چکے ہیں‘ اور کتنی بار ہر نئی آنے والی حکومت نے انہیں ختم کرنے کے بلند بانگ دعوے کیے‘ مگر پرنالہ وہیں کا وہیں رہا۔ ہمارے تصورات کا گلشن ہر نئی حکومت کے آنے سے امیدوں کی خوشبو سے مہک اٹھتا ہے۔ گماں گزرتا ہے کہ اب ماحول کی پاکیزگی اولین ترجیحات میں سے ہوگی۔ لیکن ہفتۂ صفائی منانے کے بعد گندگی کے ڈھیر ہر طرف ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ پلاسٹک بیگوں پر پابندی کا انجام بھی وہی ہوتا ہے جو ہم شہرِ اقتدار کے باسی ہمیشہ سوچتے ہیں کہ کم ازکم اس شہر کی فطری خوبصورتی‘ جو اپنی مثال آپ ہے‘ کو قائم رکھنے میں ہماری حکومتیں اور یہاں تعینات نوکر شاہی کچھ ذمہ داری سے کام کرے گی‘ مگر نصف صدی کے بعد اس کا رنگ اور نقشہ ہمارے دیگر شہروں کی طرح تواتر سے بگڑتا چلا جا رہا ہے۔ یہاں بھی لوگ کوڑا کرکٹ جمع کرنے کے بعد جہاں جگہ ملتی ہے ڈالتے رہتے ہیں حالانکہ روزانہ صفائی کا عملہ ایک ٹرک کے ساتھ کوڑا جمع کرنے کے لیے ہر گھر پر دستک دیتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ہر چھوٹی بڑی مارکیٹ میں برگر فروشوں‘ ریڑھی بانوں‘ ڈھابوں اور فٹ پاتھ پر بنے ریستورانوں کا ہے کہ سارا بچا کھچا کھانا‘ پلاسٹک کی پلیٹیں اور بیگ کسی جگہ پھینک کر شام کی آخری ساعتوں میں آگ لگا کر گھروں کو رخصت ہو جاتے ہیں۔ شہروں کی انتظامیہ کہیں نظر نہیں آتی۔
عام آدمی بنیادی شہری ذمہ داریوں کے شعور سے خالی ہے۔ دیہات ہوں یا شہروں کے پارک‘ لوگ ہر طرف کوڑا کرکٹ پھینکتے رہتے ہیں۔ ہر جگہ مشاہدہ ہے کہ دکان دار روز صبح دروازہ کھولنے سے پہلے اپنے سامنے جھاڑو دے کر کوڑے کو آگ لگا دیتے ہیں۔ اسلام آباد میں یہ مسئلہ اور بھی گمبھیر ہے کہ یہاں درخت نسبتاً زیادہ ہیں۔ یہاں کے متمول اور پڑھے لکھے لوگ بھی گرے ہوئے پتوں کو اکٹھا کرکے آگ لگا دیتے ہیں۔ مغربی ممالک میں لوگ انہیں اکٹھا کرکے پودوں کے لیے کھاد میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ ہمارے دیہات میں پرانے زمانے میں ''ڑُوڑی‘‘ ہر گھر کے لوگ بناتے تھے‘ جس میں گوبر‘ گھر کی صفائی سے اکٹھا ہونے والا خس وخشاک اور جلی ہوئی لکڑیوں کی راکھ ڈالتے رہتے تھے‘ اور اگلی فصل کے موقع پر اسے کھاد کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ہم بھی اپنے جنگل کی حد تک ایسا ہی کرتے ہیں کہ پتوں سے بہتر کوئی اور کھاد نہیں ہوتی۔ آلودگی کے ذرائع ہر گھر اور ہر محلے سے شروع ہوتے ہیں۔ پہلے تو ہمیں ان کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لوگوں کو کچھ عقل آجائے اور پلاسٹک کے بیگ میں کوئی چیز لینے سے انکار کریں اور اپنے ساتھ کپڑے کے تھیلے رکھیں تو آلودگی ختم کرنے سے معاشرتی بنیاد مضبوط ہو جائے گی۔ دیکھا تو یہی ہے کہ جہاں کہیں یہ بنیاد مضبوط ہوئی ہے‘ وہاں حکومتوں پر عوامی دبائو بڑھا ہے تاکہ صنعتوں کو پابند کیا جائے کہ دھویں‘ کیمیائی پانی اور دیگر صنعتی فضلات کا مناسب بندوبست کریں تاکہ ان سے ماحول خراب نہ ہو۔
سب سے بڑا مسئلہ شہروں میں کاروں‘ ٹرکوں‘ بسوں اور موٹر سائیکلوں کا ہے کہ جب یہ چھوٹے بڑے شہر آباد ہوئے تھے‘ اس وقت لوگ پیدل چلتے تھے یا سائیکل اور تانگوں کی سواری تھی۔ آج کی ٹریفک کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں‘ سوائے ہر شہر کے اُس علاقے میں جہاں انگریز حکمران رہائش پذیر تھے۔ لاہور کا انارکلی بازار‘ جو تاریخی حیثیت رکھتا ہے‘ اگر آپ وہاں جائیں تو موٹرسائیکلوں کی بھیڑ میں اپنی جان بچا بھی لیں تو دوسرے سرے تک پہنچنے سے پہلے آپ کے پھیپھڑے زہریلے دھویں سے بھر چکے ہوں گے۔ ہماری عمر کے لوگوں کے لیے اس سے بڑا جوکھم اور کوئی نہیں۔ اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے شوق میں کئی مرتبہ یہ ناگوار تجربہ کرنا پڑا ہے۔ دنیا کا کوئی اور ملک ہوتا تو انارکلی میں آپ صرف پیدل جا سکتے۔ لندن کی آکسفورڈ سٹریٹ میں وہاں کے پاکستانی نژاد میئر صادق خان نے ایسا کر دکھایا ہے۔ یہاں جب رائیونڈ اور نوابشاہ کے شہنشاہ حکومتیں کریں تو صادق خان جیسے میئر‘ افسر اور سیاستدان پیدا نہیں ہو سکتے۔ ایک اور بات اہم ہے کہ دنیا کے سب ملکوں میں مغرب سے لے کر مشرق تک‘ بازاروں کو شام تک کھلا رکھنے کے اوقات ہیں۔ سب دکانیں‘ سوائے کھانے پینے کے‘ چھ‘ سات بجے بند ہو جاتی ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت میں بھی یہی دیکھا ہے۔ ہمارے ہاں دکانداروں‘ ہوٹلوں اور ڈھابوں کے مالکان اور شہریوں پر آلودگی اور گندگی پھیلانے پر نہ کوئی قانون لاگو ہوتا ہے اور نہ جرمانہ۔ ہمارے ہمدرد بین الاقوامی ادارے اور خیر خواہ قومی تنظیمیں اور افراد شور مچاتے ہیں کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ حکومتوں کی کارکردگی ہے۔ اس کے برعکس ہر صبح وشام ان کے دعوے سنیں تو لگتا ہے کہ پاکستان کا کوئی مسئلہ ہے تو وہ ایک 'فتنہ‘ پارٹی ہے۔
آپ کو شاید حیرانی ہو کہ برطانیہ کے پانچ بجلی گھر شہری آبادیوں سے اکٹھے ہونے والے کوڑے کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور مجموعی طور پر 264 میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ نہ صرف اس ملک میں بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی بڑھتاجا رہا ہے۔ اگر اپ اپنا کوڑا کرکٹ نہ جلائیں‘ ویسے ہی پڑا رہنے دیں تو اس سے بھی زہریلی گیسیں پیدا ہوتی ہیں جو فضا کو آلودہ کرتی ہیں۔ آبادی کے بے پناہ پھیلاؤ اور طرزِ زندگی میں تبدیلیوں کے پیش نظر اگر کوئی چیز اب اس ملک میں ڈھیروں ہے تو وہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ہیں۔ اگر کہیں شعور ہوتا تو بجلی گھروں میں اسے ایندھن کے طور پر استعمال میں لاتے۔ ہمارے سیاستدانوں کو درآمد شدہ کوئلہ زیادہ راس آتا ہے‘ اور اپنے ذخیرے نظر نہیں آتے کہ کمائی باہر کی باہر رہے تو ان کے لیے آسانیاں ہیں۔ اور اپنے گند کے ذخیرے جو اب کارآمد ہیں‘ وہ صرف عام لوگوں کے ماحول کو خراب کرنے کے لیے چھوڑے ہوئے ہیں۔ جو انہیں سہولتیں میسر ہیں اور جہاں اور جس انداز میں وہ رہتے ہیں‘ انہیں لاہور اور ملتان کی آلودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور اب تو پاکستان کے ہر دیہات کی یہی کہانی ہے۔ لاہور کی رِنگ روڈ پر آپ نے اگر سفر کیا ہے تو کئی جگہ پر ہر موسم میں کھلے ماحول میں زہریلے دھویں چھوڑتے کارخانوں اور ان کے زہر کو اپنی سانسوں میں محسوس کیے بغیر نہیں گزر سکتے۔ یہ جو فصلوں کی باقیات ہیں انہیں بھی جلانے کے بجائے صنعتوں میں اور بجلی پیدا کرنے کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کی دنیا میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ ہر سانس دھویں سے بھری ہوئی ہے۔ موروثی حکمرانوں کے ہاتھ میں ہم اور ہمارا ملک یرغمال ہے اور اسے جہاز کی مانند گہرے سمندر میں کسی پتوار کے بغیر چھوڑ دیا گیا ہے۔