تیزی سے بدلتے ہوئے وقت کے اثرات طلبہ میں کئی نئے رنگوں‘ ان کے رویوں‘ لہجوں‘ زبان و کلام اور خصوصاً ثقافت اور طرزِ زندگی میں آپ کو نظر آئیں گے۔ آج کا نوجوان طالب علم ایک نہیں‘ لاشعور ی طور پر کم از کم دو دنیاؤں کا شہری بننے کے جنون میں گرفتار ہے۔ ایک تو وہ ماحول ہے جو ہمارے ملک‘ شہروں‘ قصبوں اور دیہات کا ہے جہاں سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں نوجوان کالجوں‘ جامعات میں داخل ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے قومی‘ ثقافتی اور علمی دھارے میں بھی اب کوئی یکسانیت نہیں رہی۔ سرکاری اور دیہی سکولوں اور مدرسوں کا کلچر زیادہ تر روایتی‘ مذہبی اور اقدار کے لحاظ سے قدامت پسندانہ ہے۔ یہاں قدامت پسندی کا جو تصور اپنی زبان اور عام تشریح میں اکثر ذہنوں میں ابھرتا ہے‘ وہ انگریزی کے کنزرویٹو سے بہت مختلف ہے۔ مغرب میں کنزرویٹو ہونے پر لوگ فخر کرتے ہیں‘ یہاں قدامت پسندی کو دنیا سے پیچھے رہنے کے مترادف خیال کیا جاتا ہے‘ بلکہ اس کی روح یہ ہے کہ روایتی اداروں‘ اقدار‘ طرزِ زندگی کو نت نئے تجربات کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ تبدیلی‘ ترقی‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کا حصول درست اور ضروری ہے‘ اور اپنی اقدار کی پاسداری کرنا ان کی مخالفت کے زمرے میں نہیں آتا۔ جب جوانوں کی بات کرنا مقصود ہو تو اپنے معاشرے میں گہری سماجی تقسیم کو آپ سامنے رکھیں۔ ایک تو وہ طلبہ ہیں جو اس پس منظر سے آتے ہیں جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے‘ دوسرے وہ ہیں جو انگریزی میڈیم سکولوں سے پیشہ ورانہ کالجوں اور نجی یونیورسٹیوں میں آرہے ہیں۔ ایسی تقسیم ہم نے اپنے طالب علمی کے زمانے اور گزشتہ صدی کی 80ء کی دہائی میں نہیں دیکھی تھی۔
ضیا الحق صاحب کے دور میں نجی سکولوں‘ کالجوں اور جامعات کے اجازت نامے ملنے لگے تو ہماری اشرافیہ اور متوسط طبقے نے ان کا رُخ کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ناانصافی یہ ہوئی کہ جن سرکاری تعلیمی اداروں‘ جیسے اسلام آباد کے ماڈل سکول اور کالج‘ جہاں ذریعہ تعلیم انگریزی تھا‘ اسے جبری طور پر اردو میں تبدیل کر دیا گیا۔ اگر یہ روایت جہاں قائم تھی‘ قائم ہی رہتی‘ جو دیگر شہروں اور اداروں میں بھی تھی تو کم از کم متوسط طبقہ بھاری اخراجات برداشت کرکے نجی اداروں کا رخ نہ کرتا۔ نجی انگلش میڈیم برانڈز اب تو دیہات تک پھیل چکے ہیں۔ بات یہ نہیں کہ لوگوں کو انگریزی کا کوئی کمپلیکس ہے‘ عام آدمی بھی اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دینے کی خواہش میں اپنا پیٹ کاٹ کر بہتر سے بہتر تعلیمی ادارے کی طرف رجوع کرتا ہے۔ لوگوں کا سرکاری سکولوں کے اساتذہ پر اعتماد رہا ہی نہیں۔ نجی تعلیمی ادارے بھی ایک جیسے نہیں ہیں۔ اکثر صرف نام کے انگلش میڈیم ہیں‘ مگر یہ لیبل چونکہ چلتا ہے‘ یہ ادارے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ اصل ثقافتی تبدیلی نامور مشرقی انگریزی تعلیمی اداروں میں دکھائی دیتی ہے جہاں کی فیس اتنی زیادہ ہے کہ زیریں اور متوسط طبقہ وہاں قدم رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ملک کے تین بڑے شہروں اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی میں ایسے اداروں کا غلبہ ہے اور جو بچے وہاں سے فارغ التحصیل ہو کر جامعات میں آرہے ہیں ان میں سے اکثریت ایک دوسرے کے ساتھ انگریزی میں بات کرتی ہے۔ انہیں فخر ہے کہ وہ اردو بولنے اور پڑھنے پر قادر نہیں ہیں۔ والدین بھی بھری محفلوں میں بڑے فخر سے شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو اردو نہیں آتی۔ جامعات میں ان کا گروہ‘ اٹھنے بیٹھنے کے حلقے اور ثقافتی رنگ اکثریت سے انوکھا اور مختلف ہوتا ہے۔ اکثر یوں معلوم ہوتا ہے کہ مغرب میں فیشن تبدیل ہوتے ہی یہاں بھی لباس اور زیبائش کا رنگ ڈھنگ تبدیل ہو جاتا ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ کئی سماجی دھاروں سے جب ہمارے زمانے کی جامعات میں طالب علم آتے تھے تو ایک ہی علمی اور ثقافتی رنگ میں رنگے جاتے تھے۔ آج بڑھتی ہوئی معاشی سماجی تفریق کا عکس آپ کو نجی تعلیمی اداروں میں واضح طور پر نظر آئے گا۔ سرکاری جامعات میں یہ تفریق بالکل مختلف نوعیت کی ہے۔ یہاں ثقافتی رویے تو تقریباً یکساں ہیں مگر لسانیت‘ علاقائیت‘ فرقہ بندی نے طلبہ کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ صرف لاہور اور کراچی کے کچھ تعلیمی اداروں کی حد تک نظریاتی دھڑے بندی ہے مگر ماضی کی نسبت کافی کمزور دکھائی دیتی ہے۔ اس کی جگہ سیاست اور محدود قومیت پسندی نے لے لی ہے۔ آج کے ماحول میں کوئی سرکاری جامعہ اس وقت نظر نہیں آتی جہاں علاقائی گروہ موجود نہ ہوں۔ بدقسمتی سے قائداعظم یونیورسٹی‘ جو اوائل کے عشروں میں ایک ممتاز مقام رکھتی تھی اور جہاں ہر صوبے سے طلبہ کو کوٹہ سسٹم کے تحت داخلہ دیا جاتا تھا اور جو اَب بھی ہے‘ ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر رہتے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ قومی ہم آہنگی ابھرے اور دور دراز کے طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کا موقع مل سکے۔ پہلے تو سیاسی جماعتوں نے ہر جامعہ میں طلبہ کو تقسیم کیا‘ بلکہ اس پر بھی اکتفا نہ کرتے ہوئے ان کے ہاتھ میں بندوقیں تھما دیں‘ سیاسی تھپکی بھی دی اور حسبِ ضرورت دیگر سہولتیں بھی مہیا کیں تاکہ ان کے مقاصد پورے کر سکیں۔ سیاسی جماعتوں نے طلبہ تنظیموں میں اپنے وِنگ قائم کیے۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری اور آئینی سیاسی ملک میں ایسی مداخلت نہیں ہو سکتی تھی۔ دکھ تو یہ ہے کہ طلبہ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کے اپنے بچے تو محفوظ اور اعلیٰ معیار کی قومی اور بیرونی جامعات میں زیر تعلیم ہیں جہاں ثقافت سیاست پر حاوی ہے۔ لیکن جہاں غریبوں کے بچے پڑھتے ہیں‘ وہاں یہ سیاست کرتے ہیں۔ انہیں ڈگریاں تو مل جاتی ہیں لیکن تعلیمی استعداد کا معیار ایسا نہیں رہا کہ وہ نجی اور معیاری یونیورسٹیوں کے طلبہ کا مقابلے کے امتحانوں میں یا پیشہ ورانہ مارکیٹ میں موثر طریقے سے مقابلہ کر سکیں۔ چنانچہ وہ عہدوں کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ایک بے بنیاد خبر اور من گھڑت کہانی کو بہانہ بنا کر جس انداز میں طلبہ نے لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں پُرتشدد ہنگامے کیے‘ اس کی بنیادی وجہ طلبہ کا ذہنی اُلجھاؤ اور انتشاری کیفیت ہے۔ کچھ تو لیڈری کے شوق میں یہ سب کچھ کر گزرتے ہیں مگر کئی عشروں سے طلبہ میں تشدد پسندی کا رجحان سرکاری اداروں کی پہچان بن چکا ہے۔ صرف قائداعظم یونیورسٹی میں ہر سال تین چار مرتبہ کونسلیں‘ جو صوبائی تعصب کی عکاسی کرتی ہیں‘ ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ ان حملوں میں کئی طلبہ زخمی ہوتے ہیں‘ ہاسٹلوں کو بند کرنا پڑتا ہے اور تعلیمی سرگرمیاں تعطل کا شکار ہو جاتی ہیں۔ طلبہ تشدد جہاں بھی ہو‘ آپ اس کی پشت پر ہماری علاقائی روایتی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو کھڑا پائیں گے۔ سرکاری جامعات کی انتظامیہ خود کو بے بس پاتی ہے کیونکہ جب متشدد طلبہ کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی ہوتی ہے تو وہ مداخلت کرتے ہیں۔ کسی نجی یونیورسٹی میں ایسا ہو تو وہاں سے شر پسند طلبہ کو نکالنے میں کوئی دیر نہیں لگتی‘ مگر اس کے لیے صفائی کا پورا موقع دیا جاتا ہے۔ ہماری ساری پیشہ ورانہ زندگی ان نوجوانوں کے ساتھ گزری ہے۔ نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہے اور اس دوران ہم تشدد‘ انتشار اور لسانی تقسیم در تقسیم دکھ اور افسوس کے ساتھ دیکھتے رہے ہیں۔ سماجی حرکیات کے اثرات اپنی جگہ‘ مگر بے لگام اور بدعنوان سیاست نے سرکاری تعلیمی اداروں تک کو نہیں بخشا۔ ڈر یہ ہے کہ کہیں یہ سلسلہ دیگر نجی تعلیمی اداروں تک نہ پھیل جائے‘ جو اَب ہم نے لاہور میں دیکھا ہے۔ اس پر افسوس کے علاوہ ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔