پاکستان تحریک انصاف کو تحریک احتجاج یوں کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ گیارہ برس سے اس نے سڑکوں کو آباد کر رکھا ہے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد سے آج تک اس نے اپنے کارکنوں کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ نواز شریف حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے لیے حضرت علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مل کر جو دھرنا اسلام آباد میں دیا گیا تھا‘ وہ تو ہماری قومی سیاست کے ناقابلِ فراموش باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہ طرزِ سیاست اب قومی شعار بن چکا ہے۔ گزشتہ کئی سال کے دوران کئی جماعتوں نے اسلام آباد کا رُخ کیا ہے اور دھرنوں کے ذریعے حکومت کو نشانہ بنانے یا اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کی ہے۔ حضرت مولانا فضل الرحمن کے زیر قیادت جمعیت العلمائے اسلام نے بھی اس کا مزہ چکھا (اور چکھایا) ہے تو جناب انجینئر حافظ نعیم الرحمن کے زیر قیادت جماعت اسلامی بھی اس بہتی گنگا میں اشنان کر چکی ہے۔ علامہ خادم حسین رضوی کی تحریک لبیک کا دھرنا تو عالمی شہرت اختیار کر گیا کہ اس نے شاہد خاقان عباسی کی حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ دھرنا ٹیکنالوجی جنرل ظہیر الاسلام کی نگرانی میں ایجاد کی گئی۔ نواز شریف وزیراعظم تھے لیکن کچھ بھی ان کے بس میں نہیں تھا۔ اسلام آباد میں عمران پلس قادری دھرنا کے شرکا جو اول فول ارشاد فرماتے‘ ٹی وی چینلز پر جوں کا توں نشر ہو جاتا۔ حکومت نام کی شے کا مذاق بنا کر رکھ دیا گیا۔ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ ہم وزیراعظم کو گھسیٹ کر ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کریں گے۔ جنرل ظہیر الاسلام نے‘ کہ ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘ باقاعدہ پیغام بھجوایا کہ وزیراعظم مستعفی ہو جائیں یا رخصت پر چلے جائیں۔ نواز شریف پہاڑ کی طرح کھڑے رہے‘ انہوں نے جھکنے یا پیچھے ہٹنے سے یکسر انکار کر دیا۔ چند روز بعد پشاور کے آرمی پبلک سکول کا سانحہ پیش آیا‘ دہشت گردوں نے بچوں کو نشانہ بنا کر پوری قوم کو ہلا ڈالا۔ منظر ایسا بدلا کہ دھرنا دینے والوں کو دھرنا سمیٹنا پڑا۔
اُس وقت میرا یہ واضح اور دو ٹوک موقف تھا کہ اگر ملک بھر سے چند ہزار افراد اسلام آباد میں جمع کر کے حکومتیں گرانے کا تجربہ کامیاب ہو گیا تو پھر پاکستان میں کوئی حکومت بھی چل نہیں سکے گی۔ چھوٹی سے چھوٹی سیاسی یا مذہبی جماعت بھی ملک بھر سے چند ہزار افراد کو تو اکٹھا کر ہی سکتی ہے کہ کروڑوں کی آبادی والے ملک میں چند ہزار کا مجمع لگانا امرِ محال نہیں ہو سکتا۔ اگر اس روش کی حوصلہ افزائی کی گئی اور یہ چل نکلی تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ عمران قادری دھرنے کی شدید مخالفت نے ''مقتدرہ‘‘ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی اور مجھے ''آف ایئر‘‘ کرا دیا گیا۔ کئی ہفتے ٹی وی سکرین پر آنے کی ''اجازت‘‘ نہ ملی۔ اس وقت بھی یہ پختہ رائے تھی اور آج بھی ہے کہ اسلام آباد میں چند ہزار (یا اس سے زیادہ) کا مجمع اکٹھا کر کے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کا ارادہ رکھنے والوں کی شدید سرکوبی ہونی چاہیے۔ ایک انتخابی حلقے کے رائے دہندگان کے چند فیصد کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ کروڑوں ووٹوں سے قائم ہونے والی حکومت کو چلتا کر دیں۔ الحمد للہ اس وقت بھی دھرنا سازش ناکام ہوئی اور بعد میں بھی اسے کامیابی نہیں مل سکی۔ عمران خان وزیراعظم بنے اور انہیں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی‘ اس وقت بھی دھرنا رجحان کی شدت سے مخالفت کی گئی اور اسے پاکستان کی سیاست ہی نہیں سالمیت کے لیے بھی تباہ کن قرار دیا گیا۔ عمران خان کا اقتدار قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کیا گیا۔ اس کی پس پردہ وجوہ کچھ بھی ہوں‘ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ انہیں لانے والوں نے ہی ان کی رخصتی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ عمران خان کو تنِ تنہا قومی اسمبلی میں اکثریت کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ تحریک انصاف نے مختلف چھوٹی جماعتوں (یا گروپوں) کے ساتھ مل کر اکثریت بنائی تھی‘ ان کی حمایت کرنے والی چھوٹی جماعتیں اس سے دستبردار ہو گئیں تو ان کے اقتدار کا جواز ختم ہو گیا۔ وہ پاکستان کے پہلے ایسے وزیراعظم قرار پائے جنہیں باقاعدہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ایوانِ اقتدار سے رخصت کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے وزرائے اعظم فوجی طاقت سے نکالے گئے یا صدارتی اختیار کا نشانہ بنائے گئے (جب صدر کے پاس قومی اسمبلی کی تحلیل کا آئینی اختیار تھا)۔ صدر کا یہ صوابدیدی اختیار ختم کیا گیا تو مقتدر حلقوں نے ایک اور راستہ نکال لیا۔ سپریم کورٹ کا کندھا استعمال کر کے وزرائے اعظم کی درگت بنائی جانے لگی۔ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف دونوں اسی طرح رخصت کیے گئے۔ عمران خان پہلے وزیراعظم تھے جنہیں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم کیا گیا۔ انہوں نے ایک جمہوری پارلیمانی لیڈر کے طور پر ٹھنڈا پانی پی کر آگے بڑھنے کے بجائے اسے دل کا روگ بنا لیا۔ فوجی قیات کے لّتے لینے لگے‘ امریکہ پر بھی گرجے برسے‘ اسے ہدف بنا لیا۔ پاکستانی سفیر کے بھیجے گئے ایک سائفر کو لہرا لہرا کر دکھانے اور اپنے آپ کو امریکی سازش کا مجروح قرار دے کر لوگوں کے جذبات اُبھارنے لگے۔ قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیا‘ بعد ازاں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں بھی اپنے نامزدہ کردہ وزرائے اعلیٰ سے تحلیل کرائیں اور سڑکوں پر مارچ کرتے چلے لگے۔ جو منہ میں آیا کہہ ڈالا‘ جس کو چاہا نشانہ بنا ڈالا‘ نتیجتاً نو مئی کا سانحہ رونما ہوا‘ جب ان کے حامیوں نے فوجی تنصیبات پر چڑھائی کر دی۔ نتیجتاً تحریک انصاف میں پھوٹ پڑ گئی‘ خان صاحب حوالہ ٔ زنداں ہوئے‘ ان کے کئی پُرجوش حامی ''انڈرگراؤنڈ‘‘ چلے گئے تو کئی جیل کی ہوا کھانے پر مجبور کر دیے گئے۔ عام انتخابات میں وہ اکثریت کی حمایت حاصل نہ کر سکے لیکن ان کی جماعت قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری۔ خیبرپختونخوا کی حکومت ان کے حصے میں آ گئی لیکن پنجاب میں حزبِ اختلاف کی قیادت ہی مل سکی۔ خان صاحب پر درجنوں مقدمات قائم ہوئے‘ کئی ایک میں ان کی ضمانت ہو چکی لیکن ان کا پیمانۂ صبر لیربز ہے‘ وہ اپنی اور اپنے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ لے کر میدان میں اُتر آئے ہیں۔ گزشتہ عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر انہیں کالعدم کرانا چاہتے ہیں‘ ان کی بیگم بشریٰ بی بی بھی سرگرم ہیں۔ انہوں نے الزام لگا دیا ہے کہ جب خان صاحب نے ننگے پاؤں مدینہ کی مقدس سرزمین پر قدم رکھا تھا‘ سعودی ان کے مخالف ہو گئے تھے‘ گویا ان کی سیاست نے سعودی عرب کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان کے مخالف تو کیا بہت سے حامی بھی اس پر انگشت بدنداں ہیں۔ خان صاحب کا احتجاج کیا نتیجہ لائے گا‘ اس سے قطع نظر ان سے یہ عرض کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ وہ احتجاجی کے بجائے مذاکراتی سیاست کا رُخ کریں تو کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔ اہلِ اقتدار ان کے احتجاج کا راستہ روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں‘ پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ اسلام آباد تک جتھے نہ پہنچ سکیں۔ کوئی فریق کوئی بھی دعویٰ کرے‘ حقیقت یہ ہے کہ دونوں میں ایک دوسرے کو ڈرانے کی صلاحیت وافر مقدار میں موجود ہے۔ دونوں اس کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ دونوں کے حق میں یہی بہتر ہے کہ وہ ایک دوسرے کو تسلیم کر لیں‘ ایک دوسرے کی طاقت کا اعتراف کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے کی شکایات سنیں اور ان کا ازالہ کرنے کی کوشش بھی کریں۔ دونوں کے لیے سلامتی کا راستہ یہی ہے‘ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)