انگریزی میں لفظ بم شیل پڑھا تو تھا لیکن سمجھ میں اب آیا ہے کہ یہ ہوتا کیا ہے اور جب پھٹتا ہے تو پھر یہ اپنی لپیٹ میں اُن کو بھی لے لیتا ہے جنہوں نے وہ بم پھینکا ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض لوگ ہینڈ گرینڈ کی پن نکال کر بھول جاتے ہیں کہ وہ خود بھی اس کی زد میں آنے والے ہیں۔
عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ انہوں نے جس بم سے یہ سوچ کر پن نکالی تھی کہ ملک کے کچھ اہم لوگ اُس کی زد میں آئیں گے‘ اب پتا چلا ہے کہ وہ ان کے اپنے ہاتھوں میں ہی پھٹ گیا ہے۔ وہ جس انکشاف سے عمران خان کے مخالفوں کو ہرٹ کرنا چاہتی تھیں‘ وہ خود اس سے ہرٹ ہوئی ہیں‘ اور اُن سے زیادہ عمران خان ہوئے ہیں۔ اگرچہ میرا اپنا خیال ہے کہ عمران خان کے حامیوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان میں دیکھا گیا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے ورکرز یا فالورز ذہن سے زیادہ دل سے اپنے لیڈروں کو فالو کرتے ہیں اور وہ انہیں عقل کے پیمانے پر نہیں پرکھتے۔ وہ انہیں سیاستدان سے زیادہ ایک مرشد اور پیر مان کر ان کو فالو کرتے ہیں‘ جہاں ذہن اور دانش کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک مرشد جو کرتا ہے وہ ٹھیک کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے ورکرز خود کو جیالے‘ نواز لیگ کے متوالے اور پی ٹی آئی والے جنونی کہلوا کر خوش ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک لیڈر جو کچھ کہتا اور کرتا ہے وہ اس دھرتی کا آخری سچ ہے۔
آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ یہی ورکرز یا فالورز اپنے لیڈروں کے دیے گئے غلط سلط بیانات کی اپنی طرف سے وضاحت دے رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی نے سوچا کہ وہ خود کوئی بات کریں اوراس کی وضاحت دیں تو بات سمجھ آتی ہے‘ لیکن اگر آصف علی زرداری‘ نواز شریف یا عمران خان کوئی بلنڈر کریں تو بھی آپ اُن کا دفاع کریں گے؟ یہ کیا انسانی نفسیات ہے؟ عقل کا تو تقاضا ہے کہ آصف زرداری‘ نواز شریف یا عمران خان خود اس بیان یا بات کی وضاحت دیں یا ان کا ترجمان دے۔ بلکہ ان کے ورکرز یا فالورز ان سے خود وضاحت مانگیں کہ ہمیں بتائیں کیونکہ ہمیں دوسری پارٹیوں کے ورکرز کے ہاتھوں یا میڈیا میں بڑی سبکی ہو رہی ہے۔ آپ نے کبھی سنا یا پڑھا کہ کسی پارٹی کے ورکرز نے مطالبہ کیا ہو کہ ہمارے لیڈر ہمیں اپنے فلاں فلاں بیان یا پالیسی کی وضاحت دیں اور ہمیں مطمئن کریں۔ بلکہ جو چند لوگ لیڈر کی پالیسیوں پر سوال اٹھا بھی رہے ہوں تو لیڈر کے فالورز کا ہجوم انہیں سوشل میڈیا پر گالیاں دینے لگتا ہے۔ اگر یاد ہو تو کبھی لندن سے الطاف حسین کوئی ایسا بیان دے دیتے تھے کہ ایم کیو ایم کے لیڈروں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے کہ اب ہم عوام اور میڈیا کو کیا بتائیں۔ اور پھر شام کو ٹی وی شوز میں ہمارے ایم کیو ایم کے دوست دنیا جہاں کی لاجک ڈھونڈ کر لاتے اور سب کو بتانے اور سمجھانے کی کوشش کرتے تھے کہ الطاف بھائی کے فلاں بیان کا کیا مقصد تھا۔ وہ ایسا مقصد ہوتا جس کا پتہ خود الطاف بھائی کو بھی نہیں ہوتا تھا۔ یقینا الطاف حسین اپنی پارٹی کے لوگوں کی ٹی وی شوز میں کی گئی گفتگو پر ہنستے ہوں گے۔ لیکن وہ بے چارے پارٹی لیڈرز کراچی میں بیٹھ کر اور کیا کرتے کیونکہ بھائی نے بھلا کب ان سے پوچھ کر کوئی بیان دیا ہوتا تھا۔
یہی سب ہم کچھ عرصے سے عمران خان کے کیس میں دیکھ رہے ہیں۔ خان کے فالورز اور پارٹی لیڈرز بھی الطاف حسین کے فالورز کی طرح شدید مشکل میں ہیں۔ اڈیالہ میں عمران خان اپنی پیشی کے موقع پر کوئی بھی سخت بیان دے دیتے ہیں اور ان کے پارٹی رہنما مشکل میں پڑ جاتے تھے کہ اب اس کا کیا دفاع کریں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو کچھ عرصہ قبل عمران خان نے 1971ء بارے ایک وڈیو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کرائی تھی جس پر مقتدرہ کی طرف سے شدید ردعمل آیا اور خود عمران خان کو محسوس ہوا کہ شاید کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ ان کے پارٹی لیڈروں نے بھی سارا ملبہ اُس بندے پر ڈال دیا جو خان کے اس اکاؤنٹ کو آپریٹ کررہا تھا۔ اگر آپ کو یاد ہو تو علی امین گنڈاپور نے اسلام آباد کے قریب ایک جلسے میں جو تقریر کی تھی اس پر کچھ لیڈروں نے معذرت کی تو عمران خان نے جیل سے بیان دیا کہ جو پارٹی لیڈر اس تقریر پر معافی مانگتا ہے وہ بزدل ہے اور بہتر ہے پارٹی چھوڑ دے۔ اس سے ان کے مائنڈ سیٹ کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ چاہتے تھے سب اس بیان کو Own کریں۔
عمران خان کے یہ ایشوز ایک طرف لیکن دوسری طرف شہباز شریف اور نواز شریف کوئی ایسا بیانیہ نہ بنا سکے جو عمران خان کا توڑ کر سکتا۔ وہ ایک دفعہ پھر اقتدار اپنے گھر تک رکھنے پر کام کرتے رہے۔ اس دفعہ نواز شریف اور شہباز شریف کو اقتدار گھر سے باہر دینا چاہیے تھا‘ جیسے شاہد خاقان عباسی کو نواز شریف کے بعد وزیراعظم بنایا تھا‘ موجودہ حالات کے پیشِ نظر انہیں احسن اقبال یا خواجہ آصف کو موقع دینا چاہیے تھا اور خود ذرا فاصلے پر رہنا چاہیے تھا تاکہ عمران خان کی لڑائی کا رُخ کسی اور طرف ہوتا۔ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم بنا دیا گیا جو نواز شریف کے سمدھی ہیں۔ یعنی سارا اقتدار اپنے گھر رکھ لیا گیا جس سے عمران خان کا بیانیہ مضبوط ہوا کہ یہ لوگ فیملی فرینڈز پیکیج پر چلتے ہیں۔ جس سے نوجوان نسل مزید ان سے خفا اور دور ہوئی۔ شریفوں کے اس فیصلے کا دفاع کرنے والے بھی ان کی پارٹی میں آپ کو کئی لوگ مل جائیں گے کہ سارا ووٹ نواز شریف کا ہے تو پھر وہ وزیراعظم کیوں نہ بنیں۔ لیکن یہ بات خود شریف خاندان کے حامی بھی مانتے ہیں کہ اس دفعہ وہ الیکشن میں برُی طرح مات کھا گئے اور ان کے پاس وہ اخلاقی اور سیاسی پاور نہیں ہے جس کے بل بوتے پر ایک حکمران اعتماد کے ساتھ حکومت کرتا ہے۔ آپ کو اس حکومت میں وہ اعتماد نظر نہیں آتا جو کسی سیاسی حکمران میں ضروری ہوتا ہے۔ انہیں علم ہے کہ انہیں اقتدار ملا نہیں ہے ‘دلایا گیا ہے۔
دوسری طرف بشریٰ بیگم نے جو بم شیل پھینکا ہے اس کے ٹکڑے اب پی ٹی آئی کو اپنے بدن پر محسوس ہورہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سب دوست اور دشمن حیران ہیں کہ بشریٰ بیگم نے بھلا کیسے پہلے سیاسی خطاب میں سعودی عرب کے حوالے سے اتنی بڑی بڑی باتیں کر دیں۔ اس موقع پر بشریٰ صاحبہ کو اسلامی کارڈ کھیل کر لوگوں کے جذبات بھڑکانے کا فیصلہ بہت مہنگا پڑا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اگر اس موقع پر مذہبی حوالے سے کوئی بات کریں گی تولوگوں کو لگے گا کہ وہ جہاد کر رہی ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ باہر نکلیں گے۔ لہٰذا بغیر سوچے سمجھے انہوں نے یہ بیان داغ دیا جو الٹا گلے پڑ گیا۔
اگر سعودی حکمرانوں کی طرف سے ایساکوئی پیغام بھیجا بھی گیا تھا تو پھر آپ لوگ اُنہی سعودی حکمرانوں سے ہیرے جواہرات اور گھڑیوں کے تحائف کیوں قبول کررہے تھے؟ کروڑوں کی گھڑی لے کر اسے کیسے دبئی میں بیچ دیا؟ اگر آپ کو پہلے دورے کے بعد احساس ہو گیا تھا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں تو پھر وہاں بار بار جانے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ ہر پاکستانی حکمران کو بار بار سعودی عرب جانے کی طلب اس لیے ہوتی ہے کہ وہاں سے تحائف کے نام پر ہیرے جواہرات‘ جیولری باکس‘ گھڑیاں‘ سونے کے ہار اور بریسلٹ ملتے ہیں۔ اگر میں سب حکمرانوں کے نام اور انہیں سعودی عرب سے ملنے والے تحائف کی تفصیلات لکھ دوں تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں۔ بشریٰ صاحبہ کو بھی سعودی عرب سے ملنے والے مہنگے تحائف کی فہرست پڑھ کر آپ پانی پینا بھول جائیں۔