"RKC" (space) message & send to 7575

قاتلوں کی محبت میں گرفتار قوم

آپ نے ایک بات نوٹ کی ہے کہ دنیا میں کسی خطے میں دہشت گردی ہو یا وہاں کوئی گروہ حملہ کرے تو پورا ملک اور معاشرہ اکٹھا ہوجاتا ہے۔ وہ انہیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں‘ اگر مگر کی گنجائش نہیں ہوتی‘ معاشرے کے سب لوگ یک زبان ہوکر‘ تمام سیاسی اختلافات کو ایک سائیڈ پر رکھ کر دشمنوں سے لڑتے ہیں۔ وہ انہیں دہشت گرد سمجھتے ہیں اور ان کے لیے کسی کے دل میں کوئی رعایت یا ہمدردی نہیں پائی جاتی کیونکہ ان دہشت گردوں نے انسانوں کی جان لی ہوتی ہے۔
لیکن پاکستان میں بڑے عرصے سے آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ جو بھی عناصر یا گروہ دہشت گردی کرتے ہیں ان کے ساتھ ہماری ہمدردیاں ہوجاتی ہیں۔ہم ان کی دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ایک چینی کہاوت یاد آتی ہے کہ اگر آپ نے اپنی بیوی کو تھپڑ مار دیا ہے اور چند منٹ بعد آپ کو احساس ہوا کہ اس بے چاری کا تو کوئی قصور ہی نہیںتھا تو چینی کہتے ہیں آپ دل برا نہ کریں‘آپ کی بیگم صاحبہ کوئی نہ کوئی جواز تلاش کر ہی لیں گی کہ خاوند نے تھپڑ کیوں مارا تھا۔ شاید یہ فارمولا ہم سب پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ جو بھی گروپ یا گروہ ہم پر حملہ آور ہوتا ہے ہم اس کے حملے اور لوگوں کو قتل کرنے کا جواز تلاش کر لیتے ہیں۔
آپ دیکھ لیں کہ ہم نے ستر ‘اسی ہزار شہری مروا دیے لیکن ہمارے اندر وہی سوچ رہی کہ طالبان تو بے چارے گمراہ اور بھٹکے ہوئے لوگ ہیں‘ ہمارے بھائی ہیں‘سیدھے سادھے ہیں‘انہیں پیار دیں‘ انہیں گلے سے لگائیں‘ انہیں قومی دھارے میں لائیں۔ وہ روز بندے مارے رہے تھے‘ مسجدوں میں بم دھماکے کررہے تھے اور معصوم لوگ مارے جارہے تھے لیکن اکثریت کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں۔ جب تک انہوں نے اے پی ایس پشاور میں 140 بچوں کا بے رحمانہ قتل نہیں کیا‘ اس قوم کی آنکھیں نہیں کھلیں۔ چلیں کھل گئیں آنکھیں پھر آپ نے کیا کر لیا؟ اگر عوام ان طالبان سے دور ہٹنے لگتے ہیں تو ہماری مقتدرہ انہیں گلے لگا لیتی ہے کہ انہیں کچھ نہ کہو یہ ہمارا قومی اثاثہ ہیں۔ ان سے ہم نے بہت کام لینے ہیں۔ انہوں نے ہمیں افغانستان فتح کر کے دینا ہے۔ کابل پر پشتوں حکمران بٹھانے کے جنون میں ہم نے اپنا ملک تباہ کرا لیا لیکن ہمارا ان سے عشق ختم نہ ہوا۔ ہمیں بتایا گیا کہ جب یہ پشتون حکمران کابل پر بیٹھیں گے تو انڈیا کی خیر نہیں۔ ہمارا مغربی بارڈر محفوظ ہو جائے تو ہم مشرقی بارڈر پر انڈیا کو سنبھال لیں گے۔ دشمن ہمارا مشرقی بارڈر پر تھا جس سے ہم نے سیز فائز کر رکھا ہے اور کئی برسوں سے بارڈر پر گولہ باردو نہیں چلا جو کبھی روز چلتا تھا‘ لیکن اب سب گنیں توپیں مغربی بارڈر پر چلتی ہیں۔ اگر ہم جنرل ضیاکے مجاہدین کو کچھ دیر بھول کر بینظیر بھٹو کے وزیرداخلہ جنرل نصیر اللہ بابر سے شروع کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہمارے پالیسی میکرز کا ذہن مستقبل کو پڑھنے کی کتنی کم صلاحیت رکھتا ہے۔ وقتی فوائد کو سامنے رکھ کر جو پالیساں بنائی گئیں وہ سب سول ملٹری حکمرانوں نے جاری رکھیں۔ جنرل مشرف نے اس کام کو عروج پر پہنچایا جب انہوں نے نوستمبر کے حملوں کے چند برسوں بعد برطانوی اخبار گارڈین کو انٹرویو میں فخر سے کہا کہ ہم نے امریکہ سے ڈبل گیم کھیلی۔ ان سے وار آن ٹیررکے نام پر ڈالرز بھی لیتے رہے اور ان کے دشمن طالبان کو اپنے ہاں پناہ بھی دیے رکھی اور تورا بورا پر جب بمباری سے طالبان پاکستان کی طرف بھاگے تو ہم نے انہیں بارڈر پر روکنے کی بجائے الٹا اپنے ہاں محفوظ پناہ دی کہ ایک دن امریکن جب افغانستان سے جائیں گے تو یہی طالبان ہمارے کام آئیں گے۔ جنرل مشرف کی پیشگوئی پوری ہوئی۔امریکن افغانستان سے چلے گئے۔ ہمارے پیارے پشتون طالبان کابل کے حکمران بن گئے‘ جو ہمارا دیرینہ خواب تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ تین سالوں سے انہی طالبان نے ہمیں ٹف ٹائم دیا ہوا ہے۔ جس انڈیا کے نام پر ہم طالبان کو افغانستان لائے تھے اب اسی انڈیا سے طالبان کے پاکستان سے زیادہ اچھے اور ایسے گہرے تعلقات ہیں کہ پاکستان اب الزام لگاتا ہے کہ بھارت اور افغانستان نے مل کر بلوچستان میں ٹرین ہائی جیک کرائی اور درجنوں معصوم لوگ مارے گئے۔ یہ تھی ہمارے سول ملٹری حکمرانوں اور پالیسی میکرز کی سمجھداریاں اور دور اندیشیاں۔
اب خیبرپختونخوا پھر جل رہا ہے۔ ہمارے سابق جرنیل ہی طالبان کو واپس لائے اور انہیں سوات میں بسایا۔ ابھی تو عمران خان کی حکومت چلی گئی اور صرف پینتیس ہزار طالبان لائے جا سکے۔ ان کا منصوبہ بڑا تھا۔ انہوں نے مزید لانے تھے۔ آپ زرا داد تو دیں عمران خان‘ جنرل باجوہ اور جنرل فیض اور دیگر کمانڈرز کو جنہوں نے اس وقت نہ صرف یہ فیصلہ کیا بلکہ عمل بھی کر دیا اور اربوں روپوں کی لگی افغان سرحد پر باڑ کو رات کو خود کاٹا اور طالبان کو لے آئے۔جب ہمیں اس حد تک اپنے قاتلوں سے پیار ہے تو پھر آپ انڈیا اور افغانستان کو کیوں الزام دیتے ہیں؟ اگر آپ خود اپنی بہتری نہیں سوچ سکتے تو وہ کیوں دشمن ہو کر آپ کا بھلا سوچیں گے؟
اب بلوچستان کو ہی دیکھ لیں۔ نگران دورِ حکومت میں جب ماہ رنگ بلوچ اپنے ساتھ پورا گروپ لائی تھی اور جس طرح میڈیا کو ان کے پاس تیار کر کے بھیجا گیا اور سوال و جواب شروع ہوئے اس وقت بھی میں نے بے حد احترام کے ساتھ لکھا اور بولا تھا کہ آپ ماہ رنگ بلوچ یا ان کے پیچھے بیٹھے منصوبہ سازوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں۔ وہ یہی چاہتے ہیں جو آپ کررہے ہیں۔ آپ نے پولیس بھیجی‘ان پر لاٹھی چارج کیا‘ سڑکوں پر گھسیٹا‘ پانی پھینکا گیا‘ گرفتار کر کے تھانوں میں رکھا گیا۔ ان تمام واقعات کے ویڈیو کلپس بنائے گئے اور پوری دنیا میں پھیلائے گئے کہ دیکھ لو بلوچو تمہاری ماؤں‘ بہنوں ‘بچوں کے ساتھ اسلام آباد میں کیا سلوک ہوا۔ وہ یہی چاہتے تھے۔ اگر اُس وقت کے وزیراعظم ان بلوچوں کو وزیراعظم ہاؤس بلا کر عزت دے کر ان کی بات سن لیتے اور چائے پانی پلاتے تو ان منصوبہ سازوں کی منصوبہ بندی ناکام ہونی تھی۔
لیکن کیا کریں جس کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہے اسے لگتا ہے کہ ہر مسئلے کا حل ٹھکائی میں ہے۔ یوں بلوچستان میں حالات آپ کے قابو سے نکلے۔ ایک دفعہ پھر بلوچستان عوام کی ہمدردیاں جیسے کبھی پاکستان میں طالبان کے ساتھ تھیں ویسے ان دہشت گردوں کے ساتھ ہوگئیں جو بلوچستان میں بسیں روک کر مسافروں کی شناخت کے بعد ان کے ماں باپ‘ بہن بھائی یا بچوں کے سامنے گولیوں سے بھون رہے تھے۔ ہم پھر بھی ان کو مارجن دیتے رہے جیسے ہم طالبان کو دیتے تھے۔ جس نے بھی معصوموں کا لہو بہایا ہم اس پرردعمل کے بجائے چینی بیوی کی طرح اس کا جواز ڈھونڈنے لگ گئے۔ ابھی جو بی ایل اے نے قتل عام کیا ہے اس پر بھی آپ سوشل میڈیا کی کئی پوسٹیں پڑھ لیں آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس قوم کو اپنے قاتلوں سے کیسے پیار ہے۔اب ان قاتلوں کی سافٹ سائیڈ سوشل میڈیا پر دکھائی جارہی ہے کہ دیکھ لیں تھے تو دہشت گرد لیکن انہوں نے عورتوں اور بچوں کو جانے دیا۔
جی انہی بچوں کے والد کو ان کے سامنے قتل کیا‘ انہی عورتوں کے بیٹوں‘ بھائیوں اور خاوندوں کو گولیوں سے بھون ڈالا لیکن دل کے بہت اچھے تھے‘ بچوں کو صرف یتیم کیا اور عورتوں کو صرف بیوہ کیا۔ ہاں ماں کو کچھ نہیں کہا بس اس کا بیٹا اس کے سامنے مار ڈالا۔ قاتل تو تھے لیکن تھے رحم دل۔ قاتلوں سے ایسا پیار اور محبت اور کہاں ملتا ہوگا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں