"RKC" (space) message & send to 7575

اسلام آباد میں درختوں کا قتلِ عام

ایک چیز طے ہے کہ پاکستانی حکمرانوں اور بیوروکریٹس میں آپ کو سب کچھ ملے گا لیکن Aesthetic sense نہیں ملے گی۔ مجھے کسی اعلیٰ عہدے پر بیٹھا کوئی ایسا بندہ نہیں ملا جسے شہر اقتدار کی خوبصورتی اور اس کے ماحول کے فکر ہو یا کبھی اسے اس موضوع پر گفتگو کرتے سنا ہو۔ اسلام آباد میں جس طرح گزشتہ چند ماہ میں بڑے پیمانے پر درختوں اور سبزے کا خاتمہ کیا گیا ہے‘ میرا خیال ہے اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔
ماضی میں جیسے دلی پر باہر سے آئے حکمران حکومت کرتے تھے ویسے ہی اسلام آباد پر بھی ہمیشہ باہر سے آنے والے حکمران‘ سرکاری افسران اور اہلکار حکومت کرتے ہیں۔ میں نے کبھی کسی کے منہ سے اس شہر کیلئے ہمدردی کے دو بول نہیں سنے۔ ہر حکومت شہر کو پچھلی حکومت سے زیادہ گندہ کر کے گئی لیکن موجودہ حکومت نے تو حد کر دی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آخر ہمیں ایسی کیابیماری لاحق ہے کہ ہمیں صفائی اور خوبصورت ماحول سے چِڑ بلکہ دشمنی ہے۔ سرکاری دفتروں میں چلے جائیں تو وہاں پراپرٹی ڈیلروں کے دفاتر کھلے ہوئے ہیں۔ آپ کو ہر دوسرا سرکاری اہلکار فون پر پراپرٹی ڈیلرز سے پلاٹوں کے بھاؤ تاؤ کرتا ملے گا۔ سرکاری نوکری کو تو وہ خود کو امیر سے امیر ترین بنانے کا موقع سمجھتا ہے ‘ نہ کہ ریاست یا عوام کی خدمت کرنے کا۔ مزے کی بات ہے کہ یہی سرکاری افسران اور اہلکار نوکری ملنے سے پہلے افسر شاہی کو برُا بھلا کہتے پھرتے ہیں۔ انہیں ظالم‘ کرپٹ اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ لیکن دن رات وہ اس کلاس کاحصہ بننے کی کوشش بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اور جونہی سرکاری کرسی ملتی ہے تو وہ بھی وہی روپ دھار لیتے ہیں‘ ان کے اندر وہی روح حلول کرجاتی ہے جس کے خلاف وہ کچھ دن پہلے تک تقریریں کر رہے ہوتے ہیں۔ اب جب میں عام لوگوں کو سرکاری افسران کے خلاف گفتگو کرتے سنتا ہوں تو انہیں سیریس نہیں لیتا۔ کبھی لیتا تھا پھر چند تجربات ہوئے تو اندازہ ہوا کہ ان کے نزدیک دکھ یا برُا کام وہی ہوتا ہے جو خود ان پر بیتے۔ سب اصول اور قاعدے دوسروں کیلئے ہیں۔ ہاں اگر کسی دوسرے محکمے میں اپنا کام پھنس جائے اور انہیں آگے سے اصول اور قاعدے کا جواب ملے تو پھر ان کا رونا دیکھیں کہ کیسے پاکستان برباد ہوگیا۔ اس ملک کا کیا بنے گا۔
مجھے پنڈی کی عدالت کا ایک نوجوان ریکارڈ کیپر یاد آتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف دور کی بات ہے کہ ایک دوست کے عزیز کی ضمانت کا کیس تھا۔ ضمانت ہوئی تو ہم ریکارڈ کیپر کے پاس گئے جس نے سیدھا پیسے مانگے۔ میں اور دوست حیران ہوئے تو بولا دل چھوٹا نہ کریں‘ میں کل ہی ساہیوال سے واپس آیا ہوں۔ وہاں میرے بھائی کی ضمانت تھی‘ مجھ سے بھی وہاں سب نے پیسے لیے۔ میں نے بھی بخوشی دیے تھے‘ آپ بھی دیں۔ جہاں آپ کام کرتے ہیں وہاں آپ بھی لیتے ہوں گے‘ نہیں لیتے تو لیا کریں‘ دل برا نہ کریں۔ ہم سب نے ایک دوسرے کی جیبوں میں ہاتھ ڈالا ہوا ہے۔ پیسہ ایک جیب سے دوسری جیب میں سفر کرتا ہے تو سب اچھا رہتا ہے۔ اس نوجوان سے زیادہ کلیئر ذہن کا بندہ پھر زندگی میں نہیں ملا۔
یہ لوگ جس کام کیلئے افسر بنتے یا کلرک بھرتی ہوتے ہیں‘ وہ نہیں کریں گے۔ ابھی اسلام آباد کی جو حالت ہو چکی ہے اس کے ذمہ دار یہی سرکاری بابوز ہیں۔ اسلام آباد میں جو بچا کچھا جنگل تھا اس پر ترقی کے نام پر بلڈوزر چلا دیے گئے ہیں۔ خود شریف خاندان لاہور شہر کی گندگی اور آلودگی سے دور رائیونڈ میں رہتا ہے جہاں ہر طرف سرسبز کھیت اور خوبصورت ماحول ہے۔مگر شہباز حکومت کی ترقی کا ماڈل صرف کھدائی ہے۔ بس اندھا دھند کھودے جاؤ اور دھرتی کے سینے میں سریا سیمنٹ بھرتے جاؤ۔ ایسی کھدائی اور ترقی ہو جو میلوں دور سے نظر آئے۔ میٹرو کے نام پر سڑکوں پر چھتیں ڈال دی گئیں۔ ان چھتوں کی وجہ سے لاہور‘ راولپنڈی اور ملتان کی خوبصورتی ختم ہو گئی ہے۔ آپ میٹرو ضرور بناتے کیونکہ اس کی ضرورت تھی لیکن یہ کام سڑکوں پر چھتیں ڈالے بغیر بھی کیا جا سکتا تھا جیسے دنیا کے دیگر ملکوں میں ہوتا ہے۔ بڑی سڑک کے درمیان یا سائیڈ پر ایک لین صرف میٹرو بس کیلئے رکھ دیں۔ آپ کو اور کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیا شہباز شریف صاحب نے لندن قیام کے دوران یہ نہیں سیکھا ‘ جہاں بسیں ایک لین میں چلتی رہتی ہیں۔ لندن میں سڑکوں پر چھت نہیں ڈالی گئی کہ اس پر سے میٹرو گزرے گی۔ میٹرو چلانے کیلئے آکسفورڈ سٹریٹ یا لندن کا نقشہ یا حالت نہیں بدلی گئی۔ لندن جیسے سو سال پہلے تھا‘ آج بھی ویسا ہی ہے۔ پرانی عمارتوں کی آرائش کی جاتی ہے‘ انہیں گرا کر وہاں پلازے نہیں بنتے۔ ان عمارتوں کو چھیڑے بغیر انہیں خوبصورت بنایا جاتا ہے۔ اگر سو‘ دو سو سال پہلے کے گورے زندہ ہو کر واپس لندن لوٹ آئیں تو وہ وہی راستے‘ ماحول‘ سڑکیں اور عمارتیں پائیں گے جو وہ چھوڑ گئے تھے۔ صرف آرائش اور جدت نظر آئے گی۔ وہ اپنا گھر خود ڈھونڈ سکتے ہیں‘ کسی سے پوچھے بغیر۔ کیا آپ یہ بات پاکستان کے کسی شہر بارے کہہ سکتے ہیں؟ تو پھر ہمارے حکمرانوں یا ان کے لاڈلے بیوروکریٹس نے باہر پڑھ لکھ کر یا وہاں رہ کر کیا سیکھا ہے؟ بس حکم دیا کہ سب کچھ اکھاڑ دو اور اس حکم پر اندھا دھند عمل ہوا کہ ہمارا ماحول سے کیا لینا دینا۔ شہباز شریف صاحب کے دور میں ہی ترقی کے نام پر لاہورکا یہ حال ہوا کہ وہاں اب سموگ نے جینا حرام کر رکھا ہے۔ عثمان بزدار کا دور آیا تو عمران خان نے سوا لاکھ ایکڑ راوی کنارے کی زرخیز زمین من پسند بلڈرز کو الاٹ کر دی کہ یہاں اب یہاں تم کھدائی کرو۔ اندازہ کریں کہ لاہور شہر سموگ اور آلودگی سے مررہا تھا اور عمران خان بلڈوزر اور میڈیا کو لے کر راوی کنارے پہنچ گئے‘ جہاں سے ایک دن پہلے ہی پولیس نے تشدد کرکے مقامی لوگوں اور کسانوں کو نکالا تھا۔ ترقی کا یہ ماڈل پہلے شہباز شریف کا تھا اور بعد میں عمران خان نے اپنا لیا‘ جنہیں ماحول کی خوبصورتی سے کوئی غرض نہ تھی۔
اب حکومت اور اس کے لاڈلے بیوروکریٹس نے وہی تباہی اسلام آباد میں پھیر رکھی ہے۔ جہاں بھی کوئی درخت نظر آیا اسے اکھاڑ ڈالا۔ شہر کے اندر جہاں جہاں سبزہ نظر آیا اسلام آباد کا ترقیاتی ادارہ بلڈوزر لے کر پہنچ گیا۔ میں تو شدید صدمے کی حالت میں ہوں کہ ایف نائن پارک میں جو جنگل تھا اسے بھی صاف کر دیا گیا ہے۔ آپ ایف نائن سڑک سے گزرتے تھے تو ہرا بھلا جنگل بھلا لگتا تھا لیکن سی ڈی اے کو نہیں لگا اور سب کچھ کاٹ ڈالا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سامنے سری نگر روڈ پر خوبصورت جنگل اور گرین بیلٹ تھی‘ وہاں سے بھی سب کچھ اکھاڑ ڈالا گیا۔ آپ کنونشن سینٹر سے بارہ کہو کی طرف جائیں تو وہاں بھی جنگل پر بلڈوزر چلا دیا گیا ہے۔
حیران ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے اس ملک پر اُترے ہیں اور کیوں ہماری آنیوالی نسلوں کے حصے کا جنگل کھا رہے ہیں۔ انہیں جنگلات اور سبزے سے کیوں اتنی نفرت ہے؟ حکمرانوں کے لندن میں رہنے یا اسلام آباد ترقیاتی ادارے کے افسران اور دیگر ٹاپ بیوروکریٹس کے باہر سے پڑھنے کا کیا فائدہ ہوا؟ اب کچھ عرصہ بعد اسلام آباد بھی سموگ کی لپیٹ میں ہو گا‘ جیسے ہر سال لاہور ہوتا ہے۔ حکومت اور بیوروکریٹس کدالیں لے کر شہر کے حسن پر حملہ آور ہیں اور ان سے کسی رحم یا ہمدردی کی توقع نہیں۔ جیسے لاہور کا ماحول ان سب نے برباد کیا‘ وہی بربادی اب اسلام آباد تک پہنچ چکی ہے۔
اگر آپ نے شہر کا فطری حسن تباہ کرنا تھا تو پھر وزارتِ ماحولیات یا ماحول کا وزیر کیوں بنایا‘ ماحول کی قائمہ کمیٹی میں بیس تیس ارکان کیا کر رہے ہیں۔ شہباز حکومت اور ان کے بیوروکرٹس نے اس شہر پر ظلم کیا ہے۔ یہ حکومت یا گورننس نہیں بلکہ بے رحمی ہے جو اس شہر کے درختوں اور سبزے ساتھ کی گئی ہے۔ حکومت کے لاڈلے بیوروکریٹس نے اس شہر کے ساتھ یہ ناقابلِ معافی جرم کیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں