"RKC" (space) message & send to 7575

ایڈجسٹ ہو کر رہنا سیکھ لیا‘ آخرکار

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے جب صدر آصف زرداری کے خطاب پر وزیراعظم شہباز شریف تالیاں بجا رہے تھے تو بہت کچھ ذہن سے گزر رہا تھا۔ اسمبلی کی پریس گیلری میں سے یہ سب مناظر دیکھتے ہوئے میں دو تین باتیں سوچتا رہا۔ پاکستانی سیاست ہو یا عالمی‘ سیاستدان کی کھال موٹی ہونی چاہیے۔ کچھ بھی ہو جائے آپ نے لوگوں اور میڈیا کی پروا نہیں کرنی۔ عوام اور میڈیا کے پاس اور کیا آپشن ہے؟ ایک پارٹی کو ووٹ کے ذریعے ہٹائیں گے تو چار پانچ سال بعد اسی پارٹی کو واپس لے آئیں گے جس سے ناراض ہو کر اس کے مخالفین کو ووٹ ڈالا تھا۔
لہٰذا آپ نے اپنی ڈگر سے نہیں ہٹنا۔ آپ نے ڈھیٹ بنے رہنا ہے۔ اپنے بدترین سیاسی مخالفوں کے ساتھ بھی وقت پڑنے پر ساتھ مل جانا ہے۔ اس بات کی پروا نہیں کرنی کہ آپ کا سیاسی مخالف ماضی میں آپ کے بارے میں کیا کہتا یا کرتا رہا ہے۔ آپ نے کسی کی باتوں کو دل پر نہیں لینا۔ بس آپ نے یہی دیکھنا ہے کہ وہ بندہ آپ کو وزیراعظم یا وزیر بنا سکتا ہے یا اس کی وجہ سے آپ ایم این اے یا ایم پی اے بن سکتے ہیں یا آپ کو کوئی بڑا عہدہ مل سکتا ہے۔ اگر ہاں تو پھر باقی باتیں بھول جائیں۔ عزت اور غیرت کے چکر میں نہ پڑیں‘ اپنے بڑے مقصد پر نظر رکھیں اور مقصد ہے ملک کا بادشاہ بن کر رعایا پر حکمرانی کرنا۔ یہی رعایا جو آپ کو عزت اور غیرت کے مطلب سمجھاتی ہے وہ سڑکوں پر ذلیل کر کے روک دی جائے گی کہ بادشاہ سلامت کی سواری گزر رہی ہے۔ کبھی آپ کا ان سے سامنا ہوا تو کورنش بجا لائے گی۔ آپ نے اپنی روش نہیں بدلنی۔ سیاستدان بننا ہے تو اپنی انا اور عزتِ نفس کو ایک طرف رکھ دینا ہے۔ اگر آپ یہ کام نہیں کر سکتے تو پھر یہ پیشہ آپ کیلئے نہیں ہے۔ یہ پیشہ صرف مخصوص لوگ ہی اختیار کر سکتے ہیں جو اس کام کیلئے جان دے بھی سکتے ہیں اور جان لے بھی سکتے ہیں۔ یہ زندگی اور موت کا کھیل ہے یا یوں کہہ لیں یہ موت کا کنواں ہے جہاں آپ نے سائیکل چلانی ہے۔
کہتے ہیں برطانوی وزیراعظم چرچل نے کہا تھا کہ سیاستدان کو موٹی کھال کا ہونا چاہیے۔ شاید ان کا مطلب یہ تھا کہ سیاستدان کو ہر بات پر افسردہ یاغمزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ شکر کریں آج کے دور میں جیل میں ڈالتے ہیں‘ قدیم زمانوں میں تو بادشاہ پر تنقید کا مطلب سیدھا موت تھا۔ جمہوریت کم ازکم آپ کو یہ موقع تو دیتی ہے کہ آپ اپنی مرضی کے لٹیرے چُن کر بعد میں انہیں گالیاں دیتے رہیں۔ سیاستدان بھی اس ڈیل پر خوش ہیں کہ ہمیں اپنا حاکم بنا دیں‘ بعد میں جو کہنا ہے کہتے رہیں‘ ہمیں کیا فرق پڑے گا۔ بعض لوگ اسے جمہوریت اور سیاست کی خوبصورتی کہیں گے کہ دیکھیں جو کل لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتے تھے آج وہی ہاؤس میں بیٹھے اُنہی صاحب کی تقریر پر تالیاں بجا رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا سیکھا ہے‘ یہی سیاست ہے اور یہی جمہوریت ہے۔
تو ہم کہاں فٹ ہوں‘ جب آصف زرداری پر نواز شریف یا شہباز شریف الزام لگاتے تھے۔ یا جب نواز شریف اور شہباز شریف کالے کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی کو غدار ڈکلیئر کرانے گئے تھے اور چیف جسٹس افتخار چودھری سے کمیشن بنوا کر لوٹے تھے۔ اسی آصف زرداری اور بینظیر بھٹو کے جنیوا بینکوں میں رکھے 60 ملین ڈالرز میں پاکستان کو پارٹی بھی نواز شریف نے وزیراعظم بن کر بنایا تھا کہ یہ پاکستان کا لوٹا ہوا پیسہ ہے اور ہم یہ پیسہ واپس لائیں گے۔ پیسہ تو واپس نہ آیا لیکن آصف زرداری کو صدر بنا دیا۔برسوں پہلے میں ایک فیڈرل سیکرٹری کے دفتر میں بیٹھا تھا جب پتا چلا کہ جنیوا سے ایک وکیل کی ای میل آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ آصف زرداری؍ وارثین نے سوئس حکام کو درخواست دی تھی کہ بینظیر بھٹو کے جو نیکلس اور دیگر قیمتی اشیا انہوں نے ضبط کر رکھی ہیں وہ انہیں واپس کی جائیں۔ اس وکیل نے کہا تھا کہ اس پر حکومت پاکستان کا کیا مؤقف ہے‘ وہ ان کا وکیل بننے کو تیار تھا کیونکہ حکومت پاکستان کا ہمیشہ سے سٹینڈ رہا کہ بینظیر بھٹو کی جنیوا میں ضبط کی گئی قیمتی اشیا پر پاکستانی عوام کا حق تھا۔ یہ نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت کی بات ہے۔ اس وقت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ وکیل کو ہائر کیا جائے گا اور آصف زرداری کو وہ اشیا نہیں لے جانے دیں گے۔ اب اس کے بعد کیا ہوا‘ خدا بہتر جانتا ہے۔ زرداری صاحب وہ چیزیں چھوڑنے والے تھے تو نہیں۔ پھر صلح صفائی ہو گئی ہو گی اور جمہوریت جیت گئی ہو گی۔
ابھی میں سرے محل سکینڈل کو بھول رہا ہوں جو سنڈے ٹائمز نے چھاپا تھا اور نواز شریف بطور اپوزیشن لیڈر اس کی کاپیاں اسمبلی میں لہراتے تھے۔ روز تقریریں ہوتی تھیں کہ کیسے ملک کی دولت لوٹ کر سرے میں محل خرید لیا گیا۔ مزے کی بات دیکھیں کہ جب نواز شریف سرے محل کے سکینڈل کی کہانیاں سناتے تھے تو اس وقت وہ لندن میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے خفیہ فلیٹ خرید چکے تھے لیکن اسمبلی میں سرے محل سکینڈل کی تفصیلات بتاتے وقت نواز شریف پوری سنجیدگی سے ایسی معصومیت سے تقریر کرتے کہ بندے کی آنکھوں سے آنسو نکل آئیں۔
اگر زرداری اور شریف گروپ ایک دوسرے کے خلاف ایسی کاروائیاں کر رہے تھے تو عمران خان نے بھی ان کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اخلاقیات ایک طرف رکھ کر عمران خان نے بھی سب سے پہلے ان سیاسی مخالفین کو اپنی پارٹی میں شامل کیا جنہیں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے۔ شیخ رشید جیسے مخالفین جو اُن کی فیملی لائف پر ٹی وی شو میں گفتگو کرتے تھے انہیں اپنی حکومت میں وزیر داخلہ بنا دیا۔ جس نے بھی عمران خان کو گالی دی خان نے اسے اپنا وزیر بنا لیا‘ جس کو خان کرپٹ سمجھتا تھا اسے اعلیٰ عہدوں سے نوازا اور یوں خان بھی ہر قیمت پر ملک کا بادشاہ بن گیا۔ بادشاہ بننا اہم تھا نہ کہ اقدار یا اخلاقیات پر مبنی سیاست۔ دنیا بھر کے نالائق اور کرپٹ ڈھونڈ کر انہیں اپنے ساتھ ملایا اور حکومت ان کے حوالے کی‘ چاہے وہ پنجاب کی ہو یا خیبر پختونخوا کی۔ مجال ہے عمران خان کسی قابل اور ذہین آدمی کو اپنے قریب آنے دیں یا عہدہ دیں۔ آپ اعلیٰ عہدوں کیلئے عمران خان کا چوائس دیکھ لیں تو اندازہ ہو جائے گا وہ ملک کو عظیم بنانے کے جو نعرے لگاتے تھے وہ ان میں کتنے سنجیدہ تھے۔محمود خان اچکزائی کو عمران خان نے اپنا صدارتی امیدوار بنایا جس کا وہ چادر لے کر جلسوں میں مذاق اڑاتے تھے۔ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ الائنس کے لیے ترلے ہو رہے ہیں‘ جن کے بارے وہ ہتک آمیز نعرے اپنے جلسوں میں لگواتے تھے۔ خان بھی زرداری اور شریفوں کے رنگ میں رنگا گیا۔ انصاف‘ میرٹ یا تبدیلی محض ایک ڈھونگ تھا۔ عمران خان کا رنگ بھی کچا نکلا جو پہلی دھلائی بھی نہ سہہ سکا۔ اب کوئی کہے گا کہ سیاست میں مفاہمت اور ایڈجسٹمنٹ چلتی ہے لہٰذا شریفوں اور زرداری نے کر لی یا خان اور مولانا فضل الرحمن نے کر لی تو کون سی قیامت آگئی۔
ہمارے پیارے دوست میجر عامر ایک قصہ سناتے ہوتے ہیں کہ گائوں کا ایک بندہ دنگا فساد اور پھڈوں کی وجہ سے بار بار جیل جاتا تھا۔ آخری دفعہ جیل سے ضمانت پر باہر آنے لگا تو اپنے ساتھی قیدی کو کہا: بیرک میں میری جگہ پر کسی اور قیدی کو نہ سونے دینا۔ چند دنوں بعد پھر میرا پھڈا ہوگا اور میں پھر یہیں ہوں گا۔ چند ماہ گزر گئے لیکن وہ بندہ جیل واپس نہ آیا۔ اس پر اس قیدی نے اپنے پرانے دوست کو کسی کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ بدبخت میں تو دس قیدیوں سے لڑ چکا ہوں جو تمہاری جگہ لینا چاہتے تھے‘ تم اب تک نہیں آئے۔ اس بندے نے قیدی دوست کو کہلوا بھیجا کہ تم میری جگہ کسی اور کو دے دو۔ میں نے اب گائوں میں ایڈجسٹ ہو کر رہنا سیکھ لیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں