اچھی بات ہے کہ تقریباًپوری قوم نے امریکی صدارتی انتخابات کو گھروں میں بیٹھ کر دیکھا۔ یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا۔ پہلی مرتبہ امریکی صدارتی انتخابات کے بارے میں ہمیں جامعہ پنجاب میں ایم اے سیاسیات کے دوسرے سال میں پتا چلا تھا۔ شاید کسی اخبار میں کوئی مضمون چھپا ہو یا اُس زمانے میں اکلوتے پاکستان ٹیلی وژن پر شام کے مشہور خبر نامے میں تصویریں نمایاں ہوئی ہوں‘ ہم نے کچھ نہ کچھ دیکھا۔ اتنا ضرور معلوم تھا کہ انتخابات ہوئے ہیں اور دونوں صدارتی امیدواروں کے نام بھی ہم معلوم کر سکتے تھے۔ لاہور میں سرگنگارام ہسپتال کے عین سامنے امریکن سنٹر ہوا کرتا تھا‘ جہاں طلبہ‘ اساتذہ اور محققین کے لیے لائبریری‘ امریکہ کے بارے میں معلومات کے لیے کتابیں اور تازہ رسالے دستیاب ہوتے تھے۔ اسی سنٹر میں بیٹھ کر امریکہ کی تاریخ‘ سیاسیات اور اس کی جامعات کے بارے میں آگاہی کا سلسلہ 62سال پہلے شروع ہوا تھا‘ جو اَب تک جاری ہے۔ 1972ء کے انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار جارج مکگورن اور ریپبلکن پارٹی کے رچرڈ نکسن تھے۔ کچھ تو رسالوں میں پڑھا مگر اشتیاق بڑھا تو انتخابات کے بارے میں دو دستاویزی فلمیں بھی وہاں دیکھیں۔ نکسن کے صدارتی انتخابی حلقے میں 520 ووٹ جبکہ مکگورن کے صرف17 ووٹ تھے‘ کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔ اس سے بارہ سال پہلے‘ یعنی 1960ء میں رچرڈ نکسن جان ایف کینیڈی سے الیکشن ہار چکے تھے اور الیکٹورل ووٹوں کی تعداد تقریباً وہی تھی جو موجودہ انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان ہے۔ تعلیمی دنیا سے باہر ملک میں امریکی انتخابات کے بارے میں کسی کو کچھ پتا نہیں تھا اور نہ ہی دلچسپی۔ اس کے ساتھ آج موازنہ کریں تو گزشتہ تین چار روز سے چینلوں پر امریکی سیاست کے ''ماہرین‘‘ اور مبصرین کی نشستوں اور بے تکان تبصروں کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ امریکہ کے نہیں بلکہ پاکستان کے انتخابات ہو رہے تھے۔ ہم خود بھی ان گروہوں کا حصہ تھے اور دو مرتبہ شام اور آدھی رات گزرنے کے بعد دو‘ دو گھنٹے کیمرے کے سامنے بیٹھے رہے‘ اور اگلے روز جب نتائج تقریباً آچکے تھے تو ایک مرتبہ پھر حاضری لگوانا پڑی۔
اکثر پروگراموں میں دیکھا اور سنا کہ امریکی انتخابات کا پاکستان کی سیاست پر کیا اثر پڑے گا۔ اس کا پسِ منظر تحریک انصاف کے ایک دو رہنماؤں کی خوش فہمی کا میڈیا پر کیا جانے والا اظہار تھا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے تو قیدی نمبر804 بھی باہر آ جائیں گے۔ اس بارے میں تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کھلاڑیوں نے بھی ایک شور برپا کر رکھا ہے۔ ان کی باتوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار سنبھالتے ہی صدر ٹرمپ سب سے پہلے یہی کام کریں گے۔ ہم بھی دیکھیں گے‘ اور وہ بھی کہ خوش فہمیاں اپنی جگہ‘ ریاستوں کے درمیان معاملات شخصیات کے حوالے سے نہیں‘ باہمی مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ بات کچھ اور کرنا چاہتا ہوں کہ امریکی انتخابات کے بارے میں دلچسپی ہمارے میڈیا نے بڑھائی ہے اور شاید اب کچھ لوگوں کو الیکٹورل کالج کے بارے میں معلوم ہوگیا ہو۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ دنیا میں انتخابات کیسے ہوتے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں شہروں سے لے کر دور دراز کے علاقوں میں پولنگ سٹیشن تھے‘ کہیں سے ووٹ چرانے‘ دھاندلی کرنے اور لڑائی جھگڑے کی کوئی خبر نہیں آئی۔ آپ نے لوگوں کو مشینوں کے سامنے کھڑے ہوکر کئی بٹن دبا کر ووٹ کاسٹ کرتے دیکھا ہو گا۔ سات کروڑ سے کہیں زیادہ لوگوں نے انتخابات کے دن سے پہلے ووٹ کا حق استعمال کر لیا تھا۔ وہاں اس کی اجازت اور سہولت موجود ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں امریکی شہری اپنا ووٹ ڈاک کے ذریعے ڈالتے ہیں۔ یہاں تک کہ صدارتی امیدوار کملا ہیرس نے بھی اپنا ووٹ اسی طرح ڈالا۔
ہم نے پُرامن اور منظم طریقے سے لوگوں کو قطاروں میں اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے‘ ووٹ ڈالتے دیکھا۔ جس طرح پہلے مضمون میں لکھا تھا کہ سیاسی تقسیم بہت شدید ہے اور ایک خوف کی فضا بھی پیدا کی گئی تھی کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ ہار گئے تو کیا اُن کے حامی پھر وہی کریں گے جو انہوں نے چھ جنوری 2021ء کو کیا تھا‘ یا خاموشی سے نتائج تسلیم کر لیں گے۔ لبرل میڈیا‘ جیسے نیویارک ٹائمز‘ سی این این اور دیگر ذرائع نے اپنے مضامین اور تبصروں سے ایسی باتوں کو تقویت دی تھی۔ اس کا بھی پسِ منظر ہے کہ ٹرمپ کا امریکی سیاست میں کردار روایتی تاریخی دھارے سے بہت مختلف رہا ہے۔ امریکی روایت کچھ مختلف ہے کہ ہارنے والے امیدوار نتائج پر مطمئن ہوتے ہیں‘ انہیں کھلے دل سے تسلیم کر لیتے ہیں۔ امریکی الیکشن کمیشن فارموں وغیرہ پر نہیں لکھتا بلکہ جیتنے والے کو فون کرکے مبارک باد دیتا ہے اور اقتدار سنبھالنے تک مکمل تعاون کا یقین دلاتا ہے۔ عوام کا فیصلہ تسلیم کرنا ہی جمہوریت کی روح ہے۔ کملا ہیرس نے بالکل یہی کیا‘ اور ہیلری کلنٹن نے بھی2016ء میں اپنی اخلاقی اور تاریخی ذمہ داری نبھائی تھی۔
ہمیں امریکی انتخابات کے پُرامن انعقاد اور اقتدار کی پُرامن منتقلی سے کچھ سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے مگر یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہمارے دل صاف ہوں‘ صداقت اور سچائی کا معیار اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک اور لوگوں کا مفاد پیشِ نظر ہو۔ عام لوگوں کی سیاسی تربیت تو صرف نظام کو جمہوری اور آئینی طریقے سے چلانے سے ہوتی ہے‘ مگر جب وہ بار بار دنیا کے دیگر ممالک میں پُرامن اور منصفانہ انتخابات‘ باہمی روا داری اور پُرامن اقتدار کی منتقلی دیکھیں گے تو شاید اپنے مہربان چہروں مہروں کے قومی اور جمہوری کردار کو اچھی طرح جان سکیں اور شاید یہاں بھی کچھ تبدیلی کی راہ ہموار ہو۔
کئی اسباق اور نتائج ہیں جو امریکی انتخابات سے اپنی سیاسی راہ کو روشن کرنے کے لیے اخذ کر سکتے ہیں‘ مگر یہ ہم اور آپ کر بھی لیں تو فائدہ اسی وقت ہوگا جب اس سبق کو عملی طور پر نافذ کیا جائے گا۔ عملی فائدے کے لیے ہمارے حکمرانوں کو بدلنا ہوگا اور ہمیں بھی۔ ہم نے کس نوع کے سیاسی گھرانوں کی غلامی میں اپنی زندگیاں گنوا دی ہیں‘ اور ملک کو مسائلستان بنا رکھا ہے۔ باتیں تو بڑی بڑی کرتے ہیں اور معتبر ہونے کی اداکاریاں بھی روزانہ دکھاتے ہیں کہ ملک میں استحکام کی ضرورت ہے‘ مگر ہر کام اس مقصد کے برعکس کرتے ہیں۔ امریکی نظام ہو یا ہمارے جیسے کسی اور ترقی پذیرملک کا نظام‘ استحکام آئین پر اتفاق اور اس کی بنیادی روح کے مطابق عمل کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اپنی تاریخ میں اقتدار میں آنے والے ہر مردِ آہن اور عوامی لیڈر‘ گروہ‘ خاندان نے اپنی سیاسی حیثیت کو مضبوط کیا ہے اور اسی کو جمہوریت قرار دیا ہے۔ رہی بات استحکام کی‘ تو وہ انہیں بھی نصیب نہ ہو سکا اور سب اپنے انجام کو پہنچے۔ ایسے میں تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ خواب تھا اس ملک کو بنانے والوں کا لیکن ہماری حکومتوں‘ سیاسی لیڈروں اور غیرسیاسی قوتوں نے اس کا حشر کر دیا ہے۔ بانیٔ پاکستان پُرامن‘ آزاد‘ آئینی اور جمہوری ملک بنانا چاہتے تھے‘ اور اس مقصد کے لیے سیاسی نقشہ بھی عالمی معیار کا تھا۔ مگر پھر ناقابلِ بیان کردار آگئے اور یکے بعد دیگرے آتے جاتے رہے‘ اور یہ سلسلہ نہ رک سکا۔ بنیادی سبق ملک کے آئین اور قانون کے مطابق چلنے کا ہے‘ باقی دھندلی‘ تاریک منازل کی طرف تو بہت سے راستے جاتے ہیں۔