"RBC" (space) message & send to 7575

امریکہ میں بھی خوف‘ تقسیم اور بے یقینی

کل امریکہ میں انتخابات ہو رہے ہیں۔لوگ غالباً یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف صدر کے چنائو کے لیے ہیں حالانکہ صدر کے ساتھ پورا ایوانِ نمائندگان‘ ایک تہائی سینیٹ اور ریاستوں کے گورنروں کو منتخب کرنے کے لیے بھی ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اکثر ریاستوں میں عوام اپنی پسند کے قوانین بنانے کے لیے بھی اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر اکثریت کی رائے قانونی تجویز کی حمایت میں ہو تو اسے ریاست کی اسمبلی میں جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر اسمبلی موجود ہے تو پھر ان کی قانونی تجاویز کا کیا جواز بنتا ہے۔ وہ اس لیے کہ وہاں بھی عوامی نمائندے سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوتے ہیں‘ اور کسی سیاسی تنازع میں پڑنے سے گریز کرتے ہیں۔ ایسے میں معاملہ عوام پر چھوڑ دیتے ہیں۔
امریکی انتخابات خاصے پیچیدہ ہیں اور انتخابی مہم انتہائی طویل اور تھکا دینے والی ہوتی ہے۔ یہ ایسا سیاسی نظام ہے جس میں بلامبالغہ لاکھوں لیڈر نچلی سطح سے اوپر تک منتخب ہوتے ہیں۔ ہر مقامی آبادی کی اپنی منتخب حکومت ہوتی ہے۔ ہر حکومت‘ مقامی‘ شہری‘ ریاستی اور وفاقی کا آئینی اور قانونی دائرہ کار اور اس کی حدیں مقرر ہیں۔ اگر اس بارے میں کوئی تنازع ہو تو قانون اور آئین کیا کہتا ہے‘ اس کا فیصلہ عدالتیں کرتی ہیں‘ عوامی نمائندے‘ حکومتیں اور کانگریس نہیں کرتی۔ یہ چند معروضات اس لیے پیش کی ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ امریکہ کی سماجی اور سیاسی ساخت اور اس کا نظام پوری دنیا سے نرالا ہے۔ شاید آپ میں سے کچھ لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ صدارتی امیدوار مجموعی ووٹوں کی تعداد اپنے مخالف سے زیادہ ہونے کے باوجود شکست سے دوچار ہو سکتا ہے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے دو امیدواروں ایلگور (2000ء) اور ہیلری کلنٹن (2016ء) نے بالترتیب جارج ڈبلیو بش اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں زیادہ ووٹ لیے تھے مگر ان کے مد مقابل صدر منتخب ہوئے۔ اس بار بھی ایسا ممکن ہے کہ تاریخ میں کئی بار ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صدر کے انتخاب میں ہر ریاست کا آبادی کے لحاظ سے صدارتی حلقۂ انتخاب‘ جو فقط 538 انتخابی ووٹوں پر مشتمل ہے‘ کا اپنا اپنا وزن ہے۔ سب سے زیادہ ووٹ کیلیفورنیا کے ہیں‘ 54۔ اس کے بعد ٹیکساس کے 40‘ فلوریڈا 30 اور نیویارک کے 28۔ پانچ چھوٹی ریاستوں میں سے ہر ایک صرف تین تین ووٹ رکھتی ہے۔ واشنگٹن ریاست کے 15 ووٹ ہیں جہاں عربوں‘ مسلمانوں کی تعداد دو لاکھ چالیس ہزار ہے‘ جو کل آبادی کا صرف 2.4 فیصد ہے۔ 15 ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوانے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ریاست میں ہر سطح پر لوگ براہ راست ووٹ صدارتی امیدوار کے لیے ڈالتے ہیں۔ ہر ریاست میں دو یا اس سے زیادہ صدارتی امیدواروں میں انتخاب ہو رہا ہوتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ جو بھی امیدوار کسی ریاست میں زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے اس ریاست کے صدارتی الیکٹورل کالج کے تمام ووٹ اس کے پلڑے میں پڑ جاتے ہیں۔ کچھ ریاستیں تو ایسی ہیں جہاں تسلسل سے ڈیموکریٹک یا ریپبلکن کا غلبہ ہے اور حتمی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ وہاں کون سا امیدوار جیتے گا۔ خاصی تعداد اُن ریاستوں کی ہے جہاں مقابلہ سخت نظر آتا ہے۔
یہاں واشنگٹن اور پنسلوینیا کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ کئی انتخابات میں ایسا بھی ہوا کہ کسی پارٹی کے خلاف عوام کے شدید ردعمل کے نتیجے میں ان کی سیاسی ترجیحات یکسر بدل گئیں اور رزلٹ توقع کے خلاف نکلا۔ یہاں ایک اور فیکٹر کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ گرین پارٹی کی امیدوار جیل سٹائن بھی میدان میں ہیں‘ جو کچھ اندازوں کے مطابق لاکھوں ووٹ لے سکتی ہیں۔ اس پارٹی کو زیادہ تر وہ لوگ ووٹ دیتے ہیں جن کا نظریہ ڈیموکریٹک پارٹی سے ملتا جلتا ہے مگر کچھ زیادہ ہی ترقی پسندانہ ہے۔ ایلگور اور ہیلری کلنٹن کے ہارنے میں اس تیسری جماعت کا عمل داخل‘ کچھ مبصرین کے مطابق‘ فیصلہ کن تھا۔ اس مرتبہ بھی اگر مقابلہ کانٹے دار رہتا ہے تو محترمہ جیل سٹائن‘ جو غزہ میں اسرائیل کے نسل کش اقدامات کے خلاف بڑھ چڑھ کے آواز اٹھا رہی ہیں‘ کسی ایک امیدوار کی امیدوں پر پانی پھیرنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ البتہ خود تو وہ نہیں جیتیں گی۔
کل ہونے والے انتخابات امریکہ اور عالمی سطح پر ہونے والی کئی ایک تبدیلیوں کے پس منظر میں ہو رہے ہیں۔ داخلی طور پر امریکہ 2020ء کے انتخاب کے بعد شدید سیاسی تقسیم کا شکار نظر آتا ہے۔ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ کسی ہارنے والے امیدوار نے انتخابات کی صحت سے اس طرح انکار کیا ہو جیسے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا تھا۔ یہ تو کبھی ہوا ہی نہیں تھا کہ حلقۂ انتخاب کے ووٹوں کی رسمی گنتی جو ایوانِ نمائندگان جنوری کے پہلے ہفتے میں کرتا ہے‘ کے موقع پر پارٹی کے کارکنان کیپٹل ہل کانگریس پر ہلہ بول دیں۔ ایسا ہوا مگر قانون حرکت میں آیا اور حملہ آوروں کے خلاف مقدمات اب تک چل رہے ہیں اور کئی لمبی قیدیں کاٹ رہے ہیں۔
امریکہ کا سیاسی ماحول زہر آلود ہے۔ ذاتی رنجش اور تلخیاں زوروں پہ ہیں۔ جھوٹ اور الزام تراشی کبھی ایسی دیکھی نہ تھی۔ ظاہر ہے کہ کوئی سیاسی فریق ماحول خراب کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا اور ہماری طرح اس کا بوجھ مخالفین پر ڈالتا ہے۔ میرے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ نے سفید فام مردوں کے زیریں طبقات کو اس بات پر متحرک کیا ہے کہ وہ معاشرے اور معیشت میں اپنا مقام تارکین وطن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی اقلیت نواز پالیسیوں کی وجہ سے کھو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ اقتدار سنبھالتے ہی وہ غیر قانونی غیر ملکی شہریوں کو ملک سے نکالنے کی مہم شروع کریں گے۔ اس بارے میں انہوں نے ایسے ایسے جھوٹ تراشے ہیں جن پر کوئی باشعور آدمی یقین نہیں کرتا‘ مگر ان کے حامی اسے سچ سمجھتے ہیں۔ جس طرح وہ اپنی مخالف کملا ہیرس کی ذات‘ نسل اور خاندان کے بارے میں بات کرتے ہیں تو سفید فام نسل پرست حلقوں میں ان کی حمایت بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ دوسری طرف ڈیمو کریٹک پارٹی کے رہنما‘ جو اُن کی ذہنی حالت‘ شدت پسندانہ خیالات اور متوقع خطرناک پالیسیوں کے بارے میں تبصرے کرتے ہیں‘ وہ بھی حقائق کی درست تصویر نہیں۔
اس وقت تین چار ایشو ہیں۔ حب الوطنی‘ غیر قانونی تارکین وطن‘ امریکہ کا عالمی کردار‘ عورتوں کے حقوق خصوصاً اسقاطِ حمل کے حوالے سے‘ اور سب سے بڑھ کر اقتصادی اور ٹیکس کے حوالے سے پالیسیاں۔ ٹرمپ کا اصرار ہے کہ ان کے دورِ اقتدار میں ایک امریکی فوجی بھی ملک سے باہر کسی جنگ میں شریک نہیں ہو گا۔ ابھی تک کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کون اگلا امریکی صدر ہوگاتاہم سب نے اپنے اپنے اندازے لگا رکھے ہیں‘ لیکن متعدد انتخابات دیکھنے اور کئی مرتبہ امریکی سیاست کے بارے میں پڑھانے کے بعد صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جیت جس کی بھی ہو‘ اس سے آئندہ کے کئی انتخابات کا رُخ متعین ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں