ترکیہ میں جانے کا کئی بار اتفاق ہوا ہے‘ ہمیشہ استنبول میں‘ اور ایک مرتبہ اس سے کچھ فاصلے پر سمندر کے کنارے ایک اعلیٰ معیار کے ہوٹل میں چند دن قیام کا اتفاق ہوا۔ دنیا کی سیر ہم نے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے طفیل کی ہے۔ ابھی تک ہماری سیاحت کا دائرہ دریائے سندھ کے کناروں‘ اپنے اگائے ہوئے جنگلوں اور ملک کے شمال میں بلند ترین چوٹیوں کے درمیان برف پوش وادیوں اور منجمد دریائوں تک محدود ہے۔ ترکیہ کی تاریخ عثمانیوں کے عروج وزوال سے لے کر کمال اتاترک پاشا کے جبری سیکولر ازم اور ''انصاف اور ترقی‘‘ پارٹی کی حکمرانی تک ترک معاشرے کے کئی مختلف فکری‘ تہذیبی اور ثقافتی رنگوں کا عکس ہے۔ ترکیہ کے بارے میں میر ی دلچسپی امریکہ میں طالب علمی کے زمانے میں وہاں کے ایک بہت نامور عمرانیات کے سکالر اور استاد‘ Daniel Lerner کی ایک معروف کتاب ''The Passing of Traditional Society: Modernizing the Middle East‘‘ پڑھنے سے پیدا ہوئی۔ یہ اُس زمانے میں لکھی گئی تھی جب جبری سیکولر ازم زوروں پر تھا۔ ایسی کتابیں لائبریری یا دفتر میں بیٹھ کر نہیں لکھی جاتیں‘ بلکہ گائوں گائوں‘ قریہ قریہ گھوم پھر کر مشاہدے اور عام آدمیوں سے گفتگو کے بعد اور کافی سوچ بچار اور معاشروں کے بارے میں گہرے مطالعے اور تجزیے کے بعد ضبطِ تحریر میں آتی ہیں۔ مگر پھر بھی کوئی محقق اور عالم معاشروں کی پیچیدگیوں اور پوشیدہ تہہ در تہہ حقیقتوں کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں حاصل کر سکتا ہے اور نہ قارئین تک‘ اپنے قلم کا زور لگانے کے باوجود پہنچا سکتا ہے۔ مذکورہ کتاب میں بھی جدیدیت اور روایتی معاشرے کا امتزاج اور دو رنگی دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے ہاں اور اکثر دیگر ممالک میں پچاس سال پہلے تک مغالطہ رہا کہ سارا معاشرہ کمال اتاترک کے فکری انقلاب میں رنگا جا چکا ہے۔ تب مائوزے تنگ کے چینی دور اور اشتراکی روس کے بارے میں بھی یہی تاثر غالب تھا۔ ترقی پذیر ممالک میں چائے کی پیالی میں انقلاب کے خواب دیکھنے والے دانشوروں اور سگریٹ کے دھویں میں مست کسی اور جہاں میں رہنے کے عادی شاعروں اور سیاسی رہنمائوں کے ذہنوں میں ریاست کے جبر سے معاشروں کو نئے خود ساختہ قالبوں میں ڈھالنے کا عقیدہ راسخ تھا۔ ان کے خیال میں اگر ریاست پر ایک دفعہ قبضہ ہو جائے تو خوابوں کی دنیا کی تعمیر میں نہ دیر ہو گی اور نہ ہی اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ آئے گی۔ ہم نے اپنی زندگیوں میں ہی دیکھ لیا ہے کہ وہ باقی رہے اور نہ ان کے ریت کے محل‘ سب تاریخ کی گرد میں اپنا وجود کھو بیٹھے۔ ترکیہ‘ چین اور روس میں تاریخ کے فطری ارتقائی عمل کی بدولت معاشرے جبر واستبداد کی فضا چھٹتے ہی اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے۔ تبدیلی سب میں آئی ہے‘ اور آتی رہے گی۔ مگر فرد اور معاشرے کی تہذہبی اساس ختم نہیں ہو سکتی۔ یہ اپنا وجود بہرکیف برقرار رکھنے میں کامیاب رہتی ہے۔
یہ تمہید اس لیے ضروری تھی کہ کمال اتاتر ک کی ریپبلکن پیپلز پارٹی‘ جو دہائیوں تک فوج کے سہارے چلتی اور جبری سکیولر ازم کا پرچار کرتی رہی‘ عوام میں اپنا وجود کھو بیٹھی تھی۔ خود سوچیں کہ کسی بھی ملک میں اگر کوئی جماعت عوام کی طاقت سے اقتدار میں آئے اور اپنا وجود برقرار رکھنے کی صلاحیت اور مقبولیت رکھتی ہو تو اسے عسکری قوت پر انحصار کی کیا ضرورت ہو گی۔ سب فسطائی‘ اشتراکی اور سیکولر انقلابی گروہوں کا آخری سہارا ریاست کی طاقت ہی تھی جو انہوں نے خفیہ ایجنسیوں اور فوج کے ذریعے قائم رکھا۔ جونہی معاشرے میں ابال پیدا ہوا‘ سب اُس کی نذر ہو گئے۔ ترکیہ میں دیگر مسلم ممالک کے معاشروں کی طرح مذہبی روایت ہمیشہ طاقتور رہی ہے لیکن سب میں بہت فرق بھی واضح نظر آتا ہے۔ اسلامی انقلابی تحریکوں‘ ان کے مفکروں اور جماعتوں کے بارے میں کچھ کہوں تو بات لمبی ہو جائے گی۔ ترکیہ میں اسلامی تحریک جبری سیکولر ازم کے پیش نظر زمینی اور معاشرتی نوعیت کی تھی۔ اس کا کمال یہ ہے کہ جدیدیت کو ہمارے کچھ مذہبی دھاروں کے برعکس اپنایا اور اسے اپنی طاقت کے طور پر استعمال کیا۔ ترک معاشرے میں سخاوت اور ایثار کا مذہبی جذبہ مجھے بہت نمایاں نظر آیا ہے جسے فتح اللہ گولن کی ''ہزمت‘‘ یا دوسرے لفظوں میں ''خدمت‘‘ اور دیگر اسلامی تحریکوں نے لنگر خانے کھولنے کے بجائے جدید اداروں کی تعمیر کے لیے استعمال کیا۔
فتح اللہ گولن مرحوم کی تحریک کے بارے میں کچھ واقفیت ان کی تحریروں اور کتابوں کے حوالے سے تو تھی مگر حقیقی معنوں میں تعارف اور گہرائی اس وقت حاصل ہوئی جب وہ پاکستان میں پاک ترک سکولوں اور کالجوں کے قیام کے سلسلے میں تشریف لائے اور مسعود کشماز کے ذریعے ان سے ملاقات کا موقع ملا۔ عشروں سے ان جدید تعلیمی اداروں کو بغیر نفع اور نقصان اور رضاکارانہ خدمت کے جذبے سے چلانے والے ترک اساتذہ کے ساتھ میاں نواز شریف کی تیسری حکومت نے جو سلوک کیا اس کی داستان کبھی آئندہ لکھوں گا۔ مسعود کشماز اور ان کی بیگم نے کئی بار لاہور میں میری جامعہ میں آکر عزت افزائی کی اور ہمیشہ ترکیہ کے حالات کے بارے میں آگاہ رکھا۔ اس تحریک کی رومی فاؤنڈیشن نے ایک مرتبہ استنبول میں قائم اپنے اداروں کا مطالعہ کرنے کی دعوت دی۔ میرا اور پاکستان سے ایک اور معلم کا قیام ان کے ایک ہائی سکول میں تھا۔ ایسی خوبصورت‘ جدید اور وسیع سکول کی عمارت کسی امریکی ریاست یا یورپ میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ ناشتہ اور دوپہر کا کھانا ہم اساتذہ اور سٹاف کے ساتھ کھاتے جس کا معیار کسی دوسرے ملک کے بڑے مہنگے ہوٹلوں میں بھی شاید ہی دیکھا ہو۔ استنبول میں قائم سلطان محمد فاتح یونیورسٹی میں کچھ وقت گزارا تو امریکی جامعات یاد آ گئیں۔ تحریک کے اخبار ''زمانہ‘‘ جہاں اس نام سے ان کا ملک گیر ٹیلی وژن نیٹ ورک قائم تھا‘ کی عمارت کو دیکھا تو اس کے مقابلے میں نیویارک ٹائمز کی عمارت بھی حقیر لگی۔ یہ کئی دہائیوں سے ترکیہ کی عوام کے خدمت کے جذبہ اور ایثار کی روایت تھی‘ کہ لوگوں کے چندے سے تعلیم‘ صحت اور مواصلات کے شعبوں میں جدید ترین نظام ہزمت نے اپنایا تھا۔ تعلیمی اداروں کی شاخیں پاکستان‘ دیگر مسلم ممالک اور یہاں تک کہ مغرب کے ملکوں میں بھی پھیلی ہوئی تھیں۔ ان تعلیمی اداروں کا معیار اتنا اعلیٰ تھا کہ ترکیہ میں مقابلے کے کوئی بھی امتحانات ہوں یا اعلیٰ تعلیم کے سائنسی اور پیشہ ورانہ شعبے ہوں‘ ان کے فارغ تحصیل طالب علموں کی اکثریت نمایاں دکھائی دیتی تھی۔
''ہزمت‘‘ تحریک کا اثر ورسوخ ترکیہ کی ریاست اور معاشرے کے ہر شعبے میں آہستہ آہستہ اتنا سرایت کر گیا کہ ریپبلکن پیپلز پارٹی اور اس کے جبری سیکولر ازم کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کا جنازہ نکل جائے گا۔ لیکن پھر انتخابات میں دھاندلیاں ہوتی رہیں‘ ایک وزیراعظم کو پھانسی پر بھی لٹکایا گیا اور جبر واستبداد بھی جاری رہا مگر ایک پُرامن تحریک نے عوام کے دل جیت لیے تھے۔ ایسی ہی تحریک نجم الدین اربکان کی فلاح عام پارٹی کی تھی جس نے ''انصاف اور ترقی پارٹی‘‘ اور رجب اردوان کیلئے راستہ ہموار کیا۔ نہ جانے اس تحریک اور اس کے بانی فتح اللہ گولن کا خوف تھا یا اس کی ترک معاشرے میں فکری چھاپ کی گہرائی تھی کہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد اردوان کے اقتدار کی تلوار نے اس تحریک کا گلا کاٹ ڈالا۔ لاکھوں قید میں ڈال دیے گئے‘ ہزاروں ملک سے فرار ہو گئے اور سب ادارے بند کر دیے گئے یا سرکاری تحویل میں لے لیے گئے۔ دیکھیں گے کہ ریاست کی طاقت اور معاشرے کی توانائی کا اگلا معرکہ کیا رنگ دکھاتا ہے۔