چند مرتبہ لاہور میں پنجابی ادبی کانفرنس اور اس نوعیت کی دیگر نشستوں میں شرکت کا موقع ملا۔ اس زبان کی فصاحت و بلاغت کے تو ہم صوفی شعرا کا کلام پڑھنے کے بعد سے قائل ہی تھے‘ مگر جدید دور میں شاعری اور نثر میں اس کا برتاؤ دیکھ کر بہت ہی مسرت ہوئی۔ یقین جانیں جس روانی‘ سادگی اور خوبصورت الفاظ کی بُنت اور اظہارِ خیال کا فطری بہاؤ دورِ حاضر کی پنجابی میں دیکھا ہے‘ اس کی وجہ سے پنجابی کتابیں پڑھنے کا اشتیاق بڑھ گیا ہے۔ ہماری اپنی سماجی شناخت کے کئی پہلو ہیں۔ پنجابیوں سے ہمیشہ پنجابی میں بات کی ہے اور سرائیکی وسیب میں یا کہیں کوئی قسمت کا مارا سرائیکی مل جائے تو اپنی مادری زبان میں۔ پڑھا اور لکھا تو انگریزی میں‘ اور اب کئی سالوں سے اُردو میں لکھنے کی مشق کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی عجیب و غریب خیال کے لوگ بستے ہیں‘ اور آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں‘ اُن کی کوئی کمی نظر نہیں آئے گی جو زبانوں میں بھی‘ انسانوں کی طرح‘ اچھی بری احمقانہ قسم کی تفریق روا رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کسی پر کوئی فطری اُفتاد آن پڑے‘ سیلاب آئے‘ پانی کی کمی ہو یا جہالت اور غربت کے سائے ان کے اپنے سماجی نظام کی بدولت گہرے ہوتے جائیں‘ گالی پنجاب کو ہی دی جاتی ہے۔ اب ہم کس کس کی بات کریں۔ بہت سوں نے پنجاب کو برا بھلا کہہ کر اپنے مخصوص لسانی گروپوں میں گمراہ کن باتیں پھیلا کر اپنی سیاست کی دکان پر خریداروں کا رش لگایا ہے۔ پنجاب کے زور پر ہی ایک عوامی حکومت پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد جس پُر اثر انداز میں وجود میں آئی‘ اس نے ایک صوبے میں پنجابیوں کو اپنی زمینیں اونے پونے بیچ کر ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔ آج کل ایک صوبے میں پنجابی مزدور کئی سالوں سے تواتر سے نشانہ بن رہے ہیں‘ لیکن کوئی ان کے حق میں زبان تک نہیں کھولتا۔ اس کے بجائے عدم مساوات‘ لوٹ کھسوٹ اور استحصال کا تجزیہ طبقاتی بنیادوں پر کیوں نہیں کیا جاتا؟ ہمارے اکثر علاقائی دانشوروں نے تنقید کا رُخ بڑے صوبے پنجاب کی طرف کئی عشروں سے کر رکھا ہے۔ ایسی حکمت عملی چھوٹے صوبوں کے قبائلی سرداروں‘ جاگیرداروں اور گدی نشینوں کو راس آتی ہے کہ ان کی طرف کوئی انگلی نہیں اٹھتی۔
اس طرح پنجابی زبان کے بارے میں بھی غلط مفروضے‘ بدقسمتی سے اکثر خود نیم خواندہ پنجابیوں نے گھڑ رکھے ہیں کہ اس زبان میں تو صرف ''گالی‘‘ دی جا سکتی ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ یہ لوگ احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔ مذہب‘ زبان‘ انسان اور کسی ثقافت میں تفریق مصنوعی اور من گھڑت مفروضوں پر مبنی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی معروضی معیار نظر نہیں آتا۔ سب اپنی اپنی جگہ قابلِ احترام ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ذات پات کا سلسلہ‘ جو انسانوں کی گروہ بندی سے شروع ہوا تھا‘ اب زبانوں اور ثقافتوں تک پھیل چکا ہے۔ ہم بعد از جدیدیت کے اس فلسفے پر یقین رکھتے ہیں کہ کوئی ایک ثقافت‘ زبان یا مذہب اپنی عالمگیر اور فطری سچائی کا دعویٰ تو کر سکتا ہے‘ مگر یہ سچائی ان کے دعووں تک ہی محدود ہے‘ ہر کوئی اپنی اپنی سچائی بیان کرنے اور اس کا دعویٰ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ زبانیں‘ مذاہب‘ ثقافتیں اور مختلف شناختوں کے لوگ آپس میں ہم آہنگی اور باہمی احترام کی فضا میں زندہ ہیں۔ یہ زبانوں اور تہذیبوں کے امتزاج کا نشہ سامراجی دور میں شروع ہوا کہ مغرب کے استعماری ممالک اپنے اپنے رنگ میں نوآبادیوں کو رنگنا چاہتے تھے‘ اور ایسا کرنے کے لیے محکوموں کو ان کے تاریخی ورثے‘ ادب‘ ثقافت‘ علم اور زبانوں کے حوالے سے احساسِ کمتری میں مبتلا کرنا ضروری سمجھا گیا۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ لارڈ میکالے نے بر صغیر کے لیے نئے تعلیمی نظام کو ترتیب دینے کے جواز میں یہ ہرزہ سرائی کی تھی کہ سارے ہندوستان کا علمی ذخیرہ اس کی الماری کے چند خانوں سے زیادہ نہیں۔ انگریز سرکار کے اس کل پرزے کو فارسی‘ اردو اور پنجابی یا دیگر زبانوں میں اس وقت موجود قلمی نسخوں اور کتابوں کے بارے میں کیا علم تھا؟ ایسی ہی احمقانہ باتیں ہم علاقائی زبانوں‘ خصوصاً پنجابی زبان کے بارے میں سنتے رہتے ہیں۔ انگریز دور کے جی ڈبلیو لیٹنر (G. W . Leitner)‘ جن کا مجسمہ کسی زمانے میں پنجاب یونیورسٹی کے سامنے مال روڈ پر ہوا کرتا تھا‘ جس نے مقامی تعلیم کے بارے میں ایک معرکہ آرا کتاب لکھی تھی‘ کو پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انگریز دور سے پہلے خواندہ مرد و خواتین کی تعداد ان کے بعد کے دور سے بہت زیادہ تھی‘ اور ایک مربوط نظام پنجاب کے ہر کونے میں موجود تھا۔ اپنی آبائی زبانوں اور ثقافتوں سے دوری کا سلسلہ جو انگریزی جدیدیت سے شروع ہوا‘ ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں گھر بنائے ہوئے ہے۔
سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ پنجاب میں پنجابی کو وہ اہمیت‘ قبولیت اور اپنائیت نہیں مل سکی جو دیگر صوبوں میں مقامی زبانوں کو نصیب ہے۔ خوشی ہے کہ کچھ صوبوں میں ان کی زبانوں کو پذیرائی مل رہی ہے۔ خواہش ہے کہ پنجابی کو بھی وہی مقام ملے‘ جسے نیا متوسط پنجابی طبقہ ترک کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ آج اگر پنجابی ادب اور اس زبان کی تاریخی روایت زندہ ہے تو اس میں بنیادی کردار پنجاب کے صوبائی حکمرانوں اور ریاست کا نہیں بلکہ اس صوبے کے کاشت کاروں‘ شاعروں اور ادیبوں کا ہے۔ گزشتہ ماہ آبائی ضلع راجن پور میں دو تین دن گزارے توڈی سی شفقت اللہ مشتاق صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ ہمارے قائداعظم یونیورسٹی کے معلمی کے اولین دور میں وہاں طالب علم تھے جو ادبی محفلوں اور تقریری مقابلوں میں حصہ لینے اور علمی گفتگو کے حوالے سے اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ خوشی کی بات ہے کہ افسری کے ساتھ انہوں نے مشقِ سخن جاری رکھی اور ادبی اور تخلیقی سرگرمیوں کی شمع بھی گل نہیں ہونے دی۔ ان کی پنجابی شاعری کی کتاب ''بھُلن ہار‘‘ پڑھی تو کئی غلط العام مفروضے‘ جو پہلے ہی ہماری نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتے تھے‘ مزید منہدم ہو گئے۔ پہلی بات یہ ہے کہ مشتاق صاحب جیسے اہلِ علم جس شعبے میں بھی ہیں‘ پنجابی زبان کو ذریعۂ اظہار بناکر ''پنجاب کا مقدمہ‘‘ بہتر طریقے سے لڑ رہے ہیں۔ پنجاب کی قدیمی دھرتی کی تہذیب اور اس کی صوفی روایت میں رنگی ان کی شاعری پڑھ کر کئی روز سے میری روح بلھے شاہ‘ شاہ حسین‘ میاں محمد بخش‘ سلطان باہو‘ بابا فرید شکر گنج‘ وارث شاہ اور اپنے ''گرائیں‘‘ خواجہ غلام فرید کے مزاروں کا تواتر سے طواف کر رہی ہے۔ اور ساتھ ہی اپنا سیاسی دھیان حنیف رامے صاحب کی کتاب ''پنجاب کا مقدمہ‘‘ کی طرف بھی چلا گیا اور اس کا پہلا صفحہ ایک بار پھر پلٹ لیا۔ پیش لفظ کے چند جملے حاضر ہیں: ''میرا ایمان ہے کہ اگر پنجاب نے پنجابیت اختیار نہ کی تو وہ پاکستان کو بھی لے ڈوبے گا‘ جیوے پنجاب‘‘۔ یہ میرے دل کا نعرہ ہے لیکن میرا دل یہ نعرہ ہمیشہ جیوے پاکستان کے پس منظر میں لگاتا ہے۔ رامے صاحب تو مقدمہ سیاسی اور ثقافتی بنیادوں پر لڑنا چاہتے تھے‘ میرے خیال میں پنجاب کا مقدمہ صوفی‘ پنجابی ادب کی ترویج اور اس روایت کو قائم رکھتے ہوئے لڑنا چاہیے۔ عظیم شاعر نجم الحسن سید صاحب‘ جن کے حضور 50سال قبل کچھ وقت گزارا‘ اور اسی لڑی میں پروئے ہوئے شفقت اللہ مشتاق صاحب جیسے شاعر‘ صوفی اور اُبھرتے ہوئے نوجوان لکھاری جدید پنجابی ادبی تحریک بہتر انداز میں چلا رہے ہیں ''ربّا پچھلی گل بھلا دے‘ بھُلن ہار ساں بھل گئے آں‘‘۔