مصنوعی ذہانت کا مستقبل کی جنگوں میں کردار اور خطرات

پچھلے کچھ عرصہ کے دوران مصنوعی ذہانت نے جنگ اور دفاع کی تمام جہتوں میں انقلابی تبدیلیاں برپا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مربوط دفاعی نظام ترتیب دینے اور اسے بہتر بنانے کے لیے فیصلہ سازی کی صلاحیتوں کو بہتر بنایا ہے۔ جنگوں میں مصنوعی ذہانت کی حامل ٹیکنالوجی کا کردار تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ملٹری آپریشنز میں مصنوعی ذہانت کے استعمال سے فیصلہ سازی کی رفتار‘ قابلیت اور سٹریٹجک ڈیٹا کے فوائد میں اضافہ ہوا ہے۔ مصنوعی ذہانت کو کس طرح فوجی حکمت عملیوں اور نظام میں شامل کیا جا رہا ہے‘ آج کے کالم میں اس حوالے سے جائزہ پیش کیا جا رہا ہے ۔ اس ضمن میں جنگوں کے ادوار کو تین حصوں میں ترتیب دیا گیا ہے۔ پہلا حصہ ہے Pre AI Era یعنی روایتی جنگیں جیسا کہ عالمی اور سرد جنگیں۔ دوسرا ہے Early AI Integration اور تیسرا ہے Current State of AI in Warfare۔ وار فیئر میں اے آئی ٹیکنالوجیز‘ خودمختار ہتھیاروں کا نظام‘ ٹارگٹ ٹریکنگ‘ ایئر سٹرائیک انٹیلی جنس‘ خود کار زمینی گاڑیاں‘ جاسوس روبوٹ سپاہی‘ AI powered weaponry‘ جو انسانی آنکھ کے برعکس آزادانہ طور پر ٹارگٹ سلیکٹ کرتا ہے اور AI driven cyber warfare ان حملوں کو زیادہ پیچیدہ اور خطرناک بنا سکتی ہے۔ اس سے دشمن کے ڈیٹا سسٹمز‘ مواصلاتی نیٹ ورک اور دیگر انفراسٹرکچر کو بآسانی ہدف بنایا جا سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت جنگی منصوبہ بندی میں مدد دے سکتی ہے جیسے دشمن کی حرکات کی نگرانی کرنا‘ جنگی میدان کا تجزیہ کرنا اور فوجی وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنا۔ اے آئی سے چلنے والے روبوٹ خطرناک کاموں میں مدد فراہم کرتے ہیں جیسے بموں کو ناکارہ بنانا یا شہری جنگ میں حصہ لینا۔ اے آئی حقیقت پسندانہ جعلی مواد تخلیق کرتی ہے تاکہ پروپیگنڈا پھیلایا جا سکے یا دشمن کی صفوں میں الجھن پیدا کی جا سکے۔ اے آئی عوامی اور سوشل میڈیا کے جذبات کی نگرانی کرتی ہے تاکہ جنگ کے دوران عوامی رائے عامہ کا اندازہ لگایا اور اس پر اثر ڈالا جا سکے۔ مصنوعی ذہانت کی ملٹری ایپلی کیشنز‘ خاص طور پر آگمنٹیڈ رئیلٹی اور ورچوئل رئیلٹی نے جنگی نقالی کے ذریعے دفاعی حکمت عملیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔اسی طرح اے آئی ٹیکنالوجی سے لیس ڈرونز یا روبوٹ کے گروپ ایک واحد یونٹ کی طرح ہم آہنگ ہو کر دشمن پر قابو پانے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ مستقبل کے اے آئی نظام کوانٹم کمپیوٹنگ کا استعمال کر سکتے ہیں تاکہ پیچیدہ مسائل کو بھی بآسانی حل کیا جا سکے جس سے فوجی صلاحیتیں بڑھ جائیں گی۔ اے آئی ٹیکنالوجیز کو غیرمہلک مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے جیسے سویلین علاقوں کی نگرانی یا تنازعات کے دوران قدرتی آفات میں امداد فراہم کرنا۔ ریئل ٹائم ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے میدانِ جنگ کے مختلف منظرناموں کے ماڈل بنانے کیلئے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے سسٹمز اور سافٹ ویئر کو تربیت اور نقلی شکلوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے فوجیوں کو جنگی حکمت عملی کی بہتر تفہیم حاصل کرنے اور مختلف ٹیکنالوجیز سے خود کو واقف کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اگرچہ اے آئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے سٹریٹجک فوائد حاصل ہوتے ہیں لیکن اسکے استعمال پر کئی اخلاقی سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے مزید ترقی سے اے آئی ٹیکنالوجی سے چلنے والے ہتھیاروں کی ایک دوڑ شروع ہونے کا امکان ہے جس سے عالمی تعلقات مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔
دیکھا جائے تو مصنوعی ذہانت کے سات Patterns ایک فریم ورک ہیں جو مختلف مسائل کو حل کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے نظاموں کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ یہ پیٹرنز وضاحت کرتے ہیں کہ اے آئی کس طرح ترتیب دی جا سکتی ہے اور مختلف قسم کے مسائل کو حل کرنے میں کیسے استعمال کی جا سکتی ہے۔ان پیٹرنز کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
1: ہائپرپرسنلائزیشن مواد یعنی تجاویز کو انفرادی سطح پر حسبِ ضرورت استعمال کے قابل بنانا۔ 2: Recognition یا پہچان کا نظام‘ یعنی ڈیٹا میں پیٹرنز‘ اشیا یا عناصر کی شناخت کرنا۔ 3: Human Interaction and Conversation یا مکالماتی اور انسانی رابطے کا نظام۔ یعنی مشینوں اور انسانوں کے درمیان قدرتی رابطے کو ممکن بنانا۔ 4: Predictive analysis and decision یا پیشگوئی تجزیہ اور فیصلہ سازی میں مدد۔ یعنی ماضی کے ڈیٹا اور پیٹرنز کا استعمال کرتے ہوئے نتائج کی پیشگوئی کرنا یا فیصلہ سازی میں مدد فراہم کرنا۔ 5: Goal driven system یا مقصد پر مبنی نظام۔ یعنی مخصوص اہداف کو حاصل کرنے یا بہتر بنانے کیلئے ڈیزائن کیے گئے نظام۔6: Patterns and Anomalies یا بے ضابطگیوں کی نشاندہی۔ یعنی ڈیٹا میں غیر معمولی پیٹرنز یا رویوں کی شناخت جو معمول سے ہٹ کر ہوں۔ 7: Autonomous Systems Pattern یا خود مختار نظام جو بغیر انسانی مداخلت کے خود مختاری سے فیصلے کریں اور ان پر عمل کریں۔ یہ ہر پیٹرن اے آئی کے مختلف پہلوؤں کو استعمال کرتا ہے اور یہ پیٹرنز حقیقی دنیا میں اکثر ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کام کرتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت نے جنگ کے طریقوں میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی ہے۔ اس نے صرف دفاع اور حملہ کرنے کی حکمت عملیوں کو ہی نہیں بدلا بلکہ جنگوں کے طریقے‘ اخلاقیات اور عالمی سیاست پر بھی منفی و مثبت اثرات مرتب کیے ہیں‘ ساتھ ہی اس حوالے سے کافی سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ اس کے سب سے زیادہ خطرناک پہلوؤں میں سے ایک ڈیپ فیک ہے۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والی کرپٹو گرافی اور سائبر سکیورٹی ایپلی کیشنز کے ساتھ مل کر ہیرا پھیری کا امکان بڑھتا ہے جس سے عالمی سلامتی اور معلومات کی سالمیت کیلئے بے شمار چیلنجز پیدا ہوتے ہیں۔ خود کار طریقے سے چلنے والے ہتھیار اور فیصلہ سازی کے نظام یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب اے آئی نظام مہلک فیصلے کرے تو جوابدہ کون ہوگا؟ اس سے بہتر انٹیلی جنس حاصل کرنے یا مخالف کی اے آئی کو خراب کرنے والے گروہ یا ممالک کو برتری حاصل ہو سکتی ہے۔ اے آئی نظام ڈیٹا کو غلط سمجھ سکتے ہیں یا نامکمل معلومات پر کارروائی کر سکتے ہیں جس سے کسی انسانی مداخلت کے بغیر یہ تنازع تیزی سے بڑھ سکتا ہے۔ اے آئی صرف ایک ٹول نہیں بلکہ جنگی نظریات کو دوبارہ ترتیب دینے والا عنصر ہے۔ مہلک کرداروں میں اے آئی کا استعمال اخلاقی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ چنانچہ اس کے اخلاقی‘ سٹریٹجک اور آپریشنل چیلنجز کو فعال طور پر حل کرنا ضروری ہے تاکہ اس کے تباہ کن استعمال سے بچا جا سکے۔ اس کے فوائد کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ خطرات کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کلیدی کردار ادا کرے گا۔ جیسے جیسے ہم مصنوعی ذہانت کی گہرائی میں جاتے ہیں‘ اس کے زیادہ سنگین خطرات اور نتائج سامنے آتے جائیں گے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترقی یافتہ ممالک ایک نئی قسم کی سرد جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں؟ نئی سرد جنگوں کا ارتقا‘ جو کہ اے آئی کی بالادستی پر مسابقت کی وجہ سے ہوا ہے‘ اس سے بین الاقوامی برادری کے مزید تقسیم ہونے کا خطرہ ہے۔ ان فورمز کے اے آئی سے متعلق خیالات باہمی تعاون کے فریم ورک کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں جو تکنیکی جدت کے ساتھ ساتھ اخلاقی تحفظات کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔ اے آئی کی ترقی ایک نئی اسلحہ دوڑ کو جنم دے سکتی ہے جو عالمی امن کیلئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ اے آئی ٹیکنالوجی دہشت گردوں یا غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں میں جا سکتی ہے جس سے عالمی سلامتی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اسرائیل غزہ میں مصنوعی ذہانت کی حامل فوجی ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے جس سے جدید جنگ میں خود مختار ہتھیاروں کے استعمال کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کیلئے عالمی سطح پر ضابطے بنانا ضروری ہے تاکہ اسے صرف انسانیت کے فائدے کیلئے استعمال کیا جا سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں