13رمضان شریف 1976ء‘ میں کالج میں تھا مگر نجانے کیوں ایک انجانی سی بے چینی محسوس ہو رہی تھی‘ بغیر کسی ظاہری وجہ کے۔ میرے والد ملک علی حیدر اور اماں جی زیب النساء بیگم کہوٹہ میں تھے۔ شام کے وقت میں اسلام آبادسے نکلا اور ان کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ ان دنوں ٹیپ ریکارڈر نئے نئے آئے تھے۔ رات کے کھانے کے بعد والد صاحب نے ٹیپ ریکارڈر منگوایا اور مجھے کہنے لگے: تم کالجوں‘ یونیورسٹیوں میں بولتے ہو‘ آؤ ذرا ہم بھی دیکھیں تم کیسا بولتے ہو‘ میرا انٹرویو ریکارڈ کرو۔ اس جہانِ فانی میں یہ ان کی آخری رات تھی۔ (اس موضوع پر ملاحظہ ہو نو جون2017ء کا وکالت نامہ جس کا عنوان تھا ''میرے والد‘‘)۔
سال 2020ء‘ وسط فروری میں مَیں عمرے کی ادائیگی کے لیے دیارِ حرم گیا۔ رومیِ کشمیر میاں محمد بخشؒ کے دربار کھڑی شریف کے سجادہ نشین میاں عمر بخش میرے ساتھ تھے۔ کعبہ شریف میں پہنچنے سے پہلے جن دعاؤں کے بارے میں سوچتا رہا‘ حرم پہ نگاہ پڑی تو وہ ساری بھول گئیں۔ بس اماں جی ذہن میں آئیں اور ان کے لیے ایک طویل سجدہ کیا۔ دیارِ رسولﷺ سے واپسی کے اگلے ہفتے لا آفس نے ایک مقدمے میں پیشی کے لیے مال روڈ لاہور کے ہوٹل میں تین دن کی بکنگ کرائی۔ پہلے دن کیس چلایا۔ اسی دوران بغیر کسی معلوم وجہ کے ویسی ہی بے چینی طبیعت میں دَر آئی جس کا تجربہ 1976ء میں ہوا تھا۔ میں نے بینچ سے درخواست کی کہ کوئی ایمر جنسی ہے‘ کیس 10دن بعد لگا لیں۔ چنانچہ مقدمہ کی سماعت Part Heardرکھ کے ملتوی کر دی گئی اور میں رات کو F-8واپس اپنے گھر پہنچ گیا۔ صبح کاذب کے وقت اماں جی کی خادمہ نے میری بیگم یاسمین کو بتایا اماں جی نے آج ناشتہ نہیں مانگا۔ ساتھ ہی کہا کہ میں نے تھوڑی دیر پہلے ان کی آواز سنی‘ وہ مجھے کہہ رہی تھیں بڑی کھڑکی بند کر دو ٹھنڈی ہوائیں آ رہی ہیں۔ خادمہ بولی! اماں جی سردی ہے‘ ہیٹنگ چل رہی ہے‘ کسی نے کھڑکی نہیں کھولی۔ پھر پوچھا: میں آپ کے لیے ناشتہ لے آؤں۔ انہوں نے جواب دیے بغیر منہ کو دوپٹہ سے ڈھانپ لیا اور اب بات بھی نہیں کر رہیں۔ یوں دھیرے سے ان کا سفرِ آخرت طے ہو گیا۔ ساتھ ہی مجھے ایسا لگا جیسے میرے سر پہ دُہری یتیمی کا بادل چھا گیا ہو۔
اماں جی کی عمر وفات کے وقت 96سال تھی۔ ان کے شناختی کارڈ پہ تاریخِ پیدائش کا سال 1924ء درج تھا۔ 93سال تک اماں جی چلتی پھرتی رہیں۔ پھر ایک دن مجھے بتایا گیا کہ وہ کہتی ہیں کہ اب میں نے کمرے سے کہیں نہیں جانا۔ میں نے خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ کیوں اماں جی خیریت ہے؟ وہ کہنے لگیں کہ اب مجھے باہر نکلنے اور سیڑھیاں چڑھنے سے ڈر لگتا ہے۔ میں نہیں چاہتی کہیں گِر کر کوئی ہڈی توڑ لوں۔ جس پہ میں نے کہا کہ جیسے آپ مناسب سمجھیں۔ اللہ کی خاص مہربانی یہ ہوئی کہ وہ سماعت‘ بصارت سمیت ہر طرح سے بھر پور زندگی میں رہیں اور انہیں کوئی عارضہ لاحق نہیں ہوا۔ جنازے کے بعد گوجرانوالہ کے میرے خیرخواہ دوست‘ جن کے بیٹے بیرسٹر ہیں‘ کے ساتھ کالم نگار فاروق عالم انصاری صاحب کہوٹہ آئے۔ انہوں نے اس سفر پر دل میں اُتر جانے والا کالم لکھا۔ یہ کالم برادرم خورشید ندیم نے بھی پڑھا اور کئی مرتبہ اصرار کیا کہ آپ اماں جی پر کالم لکھیں۔ آج مجھے ان کی اماں جی بھی یاد آرہی ہیں‘ جو عرصہ پہلے سینٹرل گورنمنٹ ہسپتال مری روڈ میں داخل تھیں۔ مجھے خورشید ندیم نے بتایا کہ وہ آپ کو یاد کر رہی ہیں۔ میں فوراً پہنچا‘ ان کے بیڈ کے نزدیک جا کر ان کے پاؤں پر ہاتھ رکھا اور طبیعت کا پوچھنے لگا۔ اماں جی نے ہم دونوں کو پاس بلایا‘ اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کرمیرے ہاتھوں میں دیا‘ بولیں: میرے بعد آپ نے چھوٹے بھائی کا خیال رکھنا ہے۔ یاسمین کے بقول مائیں سفرِ آخرت کے وقت بھی اپنے بچوں کے راستے میں پھول بکھیرتی ہوئی جاتی ہیں۔ گاؤں میں ہمارے دو آبائی قبرستان ہیں۔ ایک ڈھوک بَن میں میرے دادا ذیلدار ناموں خان کے نام سے منسوب ہے جہاںوہ اپنے والد سردار سُرخرو خان کے پہلو میں آسودۂ خاک ہیں۔ دوسرا قبرستان ہماری رہائش گاہ ذیلدار ہاؤس بڑا گراں میں واقع ہے جہاں اماں جی کو میرے والد صاحب کا پڑوس نصیب ہوا۔
میرے اماں جی کا تعلق تحصیل گوجر خان کے پہلے ریلوے سٹیشن سے ملحقہ گاؤں کلیام اعوان سے ہے۔ کسی زمانے میں مرحوم مُنو بھائی کے والد یہاں کے سٹیشن ماسٹر تھے۔ مُنو بھائی نے اپنے دو کالموں میں میرے اماں جی کے گھرانے اور میرے نانا ملک گلاب خان کا ذکر کیا۔ جی ٹی روڈ پر روات قلعہ کا علاقہ تخت پڑی کہلاتا ہے جہاں پنڈ جھاٹلہ خطۂ پوٹھوہار کا بڑا تاریخی گاؤں ہے۔ میری نانی اماں پنڈ جھاٹلہ سے تھیں۔ یہاں سے آگے وادیٔ سواں چونترہ شروع ہوتی ہے۔ چونترہ میرا سسرالی گاؤں ہے جہاں اماں جی کے ایک بھائی ملک مقصود علی کی وجہ سے ان کی ہمیشہ خاص نسبت رہی۔
یوں تو ساری مائیں ایک جیسی مہربان اور مہان ہوتی ہیں لیکن اماں جی دو حوالوں سے پورے قبیلے میں ہمیشہ بہت جانی گئیں۔ انہیں بیٹیاں بہت اچھی لگتی تھیں۔ بیٹی نہ ہونے کی وجہ سے وہ کبھی کبھار کہتیں کہ ان ماؤں کی کیا زندگی ہے جن کی بیٹی نہیں۔ میں ہمیشہ پریشان ہو جاتا اور پوچھتا اماں جی کیا بات ہے‘ آپ ایسا کیوں کہتی ہیں۔ ان کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا کہ تم بیٹے ہو‘ ماں کے لیے بیٹی کیا ہوتی ہے نہیں سمجھ سکو گے۔ میری زندگی یا کیریئر میں جب بھی کوئی کڑا وقت آیا‘ مخالف حکومت نے پرچہ کیا‘ گرفتاری ہوئی۔ کبھی ایک دفعہ بھی انہوں نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا۔ ہمیشہ فرماتیں نظر آگے کو رکھنی چاہیے۔ اللہ انسان کے لیے سب اچھا کرتے ہیں۔
کچھ مہینے پہلے اماں جی خواب میں آئیں۔ ایک انجان سی جگہ ہے‘ کوئی اور دنیا کہہ لیں جہاں میں اکیلا ٹھنڈی ہواؤں میں ایسے راستے پر جا رہا ہوں جس پہ کوئی ذی روح ہے نہ آواز۔ تھوڑی سی بلندی پہ پہنچا تو بائیں جانب ایک کمرے میں سے اماں جی نے میرا نام لے کر مجھے اندر بلایا۔ وہاں کمرے کا کوئی دروازہ نہیں‘ صرف بڑی سی کھڑکی تھی جس میں کچھ نصب نہیں تھا۔ کمرے کا رنگ بھی راستے والی زمین سے ملتا جلتا تھا۔ اماں جی نے ہاتھ آگے بڑھایا اور کہا: بابر اندر آ جاؤ۔ ان کا لباس ہمارے لباس جیسا نہیں تھا۔ وہ اپنی رحلت والی عمر کے وقت سے بہت چھوٹی لگ رہی تھیں۔ مجھے یاد آیا کہ مارچ کے شروع میں مارگلہ کے دامن میں یخ بستہ ٹھنڈ ہوتی ہے۔ ایسے میں اماں جی نے ٹھنڈی ہوا آنے کا ذکر کیا تھا۔ اماں جی سے ٹھنڈی ہواؤں والے گھر میں اتنی سی ملاقات سے روح ابھی تک سرشار ہے۔