لگتا ہے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن نہیں جیتے بلکہ پی ٹی آئی کا کوئی امیدوار کامیاب ہوا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت بارے پی ٹی آئی کے دوست پُرامید بھی تھے‘ دعائیں بھی مانگ رہے تھے اور اپنے تئیں دوا بھی کر رہے تھے۔ دوا سے مراد ہے کہ امریکن پاکستانیوں کی اکثریت نے ٹرمپ کو ووٹ دیا اور اور فنڈز کے علاوہ مہم بھی اس کے حق میں چلا رہے تھے۔ اگر میں غلط نہیں کہہ رہا تو سولہ کروڑ امریکی رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔ ان میں سے بتایا جاتا ہے کہ تقریباً پچیس لاکھ مسلمان اور لگ بھگ پانچ لاکھ پاکستانی ہیں۔ اب سولہ کروڑ میں سے یہ اتنا بڑا نمبر نہیں کہ امریکی الیکشن کے نتائج پر کوئی بڑا اثر ڈال سکے لیکن ہمیں یوں لگ رہا تھا کہ جیسے سارے الیکشن کا نتیجہ ان پانچ لاکھ پاکستانیوں یا پچیس‘ تیس لاکھ مسلم ووٹروں کے ہاتھ میں ہے۔ یقینی طور پر الیکشن میں ایک ایک ووٹ شمار ہوتا ہے اور امیدوار اس ووٹ کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں‘ پھر انہوں نے یہ بھی دکھانا ہوتا ہے کہ انہیں ملک کے ہر مذہب‘ ہر نسل اور ہر رنگ کے لوگوں نے ووٹ دیا ہے لہٰذا وہ پورے ملک کے منتخب نمائندے ہیں نہ کہ ایک مخصوص کمیونٹی‘ رنگ یا مذہب کے لوگوں کے نمائندے ہیں۔
آپ دیکھیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو 2016ء کے الیکشن میں مسلم یا پاکستانی ووٹرز میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی کیونکہ وہ بائبل بیلٹ پر انحصار کر رہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اُن دنوں میں امریکہ گیا ہوا تھا‘ لگ بھگ سبھی امریکن پاکستانی ٹرمپ کے خلاف تھے۔ بعض پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی تو علم ہوا کہ انہیں ٹرمپ کا سوچ کر ہی راتوں کو نیند نہیں آتی کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد ان کی مشکلات بڑھ جائیں گی‘ بلکہ 2016ء میں اس ایشو پر میں نے امریکہ سے ایک کالم بھی لکھا تھا کہ کیسے پاکستانی ڈاکٹرز بھی ٹرمپ کی آمد سے خوفزدہ ہیں۔ یہ کالم آج بھی 'دنیا اخبار‘ کے آرکائیو سیکشن میں موجود ہے۔ ڈاکٹروں سمیت دیگر پاکستانیوں کو خوف تھا کہ ٹرمپ کے صدر بننے سے ان کی زندگیاں اور نوکریاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ انہیں یہ خدشہ تھا کہ ٹرمپ گورے امریکیوں کو خوش کرنے کیلئے انہیں امریکہ سے نکال دے گا‘ یا پھر وہ مسلم ملکوں سے امریکہ نقل مکانی بند کر دے گا اور امریکہ میں نسل پرستی بڑھ جائے گی۔ ٹرمپ کی زبان پر اس وقت ایک ہی نعرہ تھا کہ اس نے امریکہ کو عظیم بنانا ہے اور یہ کام اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک مسلم تارکینِ وطن کو واپس ان کے دیس نہیں بھیجا جاتا یا پھر ان کی امریکہ میں امداد روک نہیں دی جاتی۔
دنیا بھر میں مقامی اور باہر سے آنے والوں کے درمیان کشمکش ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ مقامیوں کو لگتا ہے کہ باہر سے آنے والے ان کی نوکریاں اور کاروبار کھا جاتے ہیں۔ تارکین وطن کسی بھی قیمت پر مزدوری پر تیار ہو جاتے ہیں کیونکہ بیرونِ ملک ان کا نہ کوئی رشتہ دار ہوتا ہے نہ دوست‘ جس کے گھر وہ رہ سکیں یا پیسے ادھار مانگ سکیں۔ لہٰذا ان لوگوں کو جہاں بھی‘ جیسا بھی کام مل جائے اور جس مزدوری پر ملے‘ وہ کر لیتے ہیں کہ ان کے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہوتی۔ پھر وہ اوور ٹائم بھی لگا لیتے ہیں اور کم قیمت پر زیادہ کام کر کے جہاں خود کو بیرونِ ملک مالی طور پر کچھ مستحکم کرتے ہیں‘ وہاں وہ فی گھنٹہ اجرت کا ریٹ کم کرنے کا بھی سبب بنتے ہیں‘ جس پر مقامی لوگ غصے میں آ جاتے ہیں۔ مقامی گورے اتنی کم مزدوری پر کام نہیں کرتے اور یوں ہوٹل‘ ریسٹورنٹس‘ سٹورز اور دیگر بزنس سنٹر ایسے لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں جو ہر کام کر لیتے ہوں‘ ان کے نخرے بھی نہ ہوں اور وہ مزدوری بھی کم لیتے ہوں۔
یہی وہ عناصر ہیں جو مقامی اور باہر سے آنے والوں کے درمیان مسئلہ پیدا کرتے ہیں۔ جہاں مذہبی اور کلچرل مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے سے عادتیں یا مزاج نہیں ملتا وہاں معاشی مسائل یا نوکریوں کا غیر ملکیوں کے پاس چلے جانا بھی بڑا سبب بن جاتا ہے اور لوگ امیگرنٹس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ بسا اوقات کچھ تارکینِ وطن غیرقانونی سرگرمیوں میں پڑ جاتے ہیں تاکہ زندہ رہ سکیں یا پھر وہ وہاں کے قوانین کا احترام نہیں کرتے۔ صفائی سے تو شاید تیسری دنیا کے لوگوں کو چڑ ہوتی ہے اور اکثریت گندا رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ یوں ٹرمپ ہو یا یورپ کے لیڈران‘ انہوں نے اس ایشو کو خوب اچھالا کہ ان کا ملک امیگرنٹس کی وجہ سے تباہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ غیر قانونی امیگرنٹس کے خلاف ہے لیکن مطلب وہی ہے کہ لوکل امریکی دھیرے دھیرے تنگ آ گئے ہیں۔ پھر امریکہ کی مسلم ملکوں میں جنگوں کی وجہ سے جو کشمکش شروع ہو چکی تھی‘ وہ الگ سے ایک مذہبی ٹکرائو کا سبب بن رہی تھی۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک لہر ابھری اور امریکی مسلمانوں کے خلاف ہو گئے۔ اس غصے کو دھیرے دھیرے ٹرمپ نے استعمال کیا۔ یہی وجہ تھی کہ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد سب سے پہلے جس حکم نامے پر دستخط کیے وہ چھ مسلم ملکوں سے فلائٹس پر پابندی تھی‘ جس پر ان کے ووٹرز خوش ہو گئے کہ ٹرمپ اب امریکہ کو ایسے لوگوں سے پاک کر دے گا جن کی وجہ سے ان کا معاشرہ خراب ہو رہا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جب نیویارک ایئرپورٹس پر لوگوں کو باہر نہیں جانے دیا گیا اور یہ خبر پھیلی تو ہزاروں لوگ احتجاج کرتے نیویارک کی سڑکوں پر نکل آئے۔ لیکن اس دفعہ دیکھا گیا ہے کہ اب تو وہ لوگ بھی ان غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف احتجاج کر رہے تھے جو خود کچھ عرصہ پہلے امریکہ آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان نئے امیگرنٹس کی وجہ سے ان کی زندگیاں بھی غیر محفوظ ہو گئی ہیں۔ سوا کروڑ لوگ غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوئے‘ اب مزید کی گنجائش نہیں۔ یوں جب تک ٹرمپ پچھلے دور میں صدر رہے تو پاکستانی امریکیوں کو دھڑکا لگا رہا کہ پتا نہیں کب وہ کیا ٹویٹ کر دیں۔ مجھے یاد ہے کہ خود امریکن پاکستانی مجھے بتاتے تھے کہ ٹرمپ کے صدارت سے ہٹنے کے بعد انہوں نے سکھ کا سانس لیا تھا۔
لیکن اب کی دفعہ مسلمانوں اور پاکستانیوں نے 180 درجے کا ٹرن لیا ہے اور اکثریت ٹرمپ کی حامی بن گئی ہے بلکہ اسے چندہ بھی دیا اور اس کے لیے لابنگ بھی کی۔ خود ٹرمپ بھی بدلا بدلا نظر آیا اور اب کی دفعہ اس نے مسلمانوں کو سیدھا ٹارگٹ کرنے کے بجائے غیر ملکی امیگرنٹس کو ٹارگٹ کیا۔ 2016ء میں اس کے پاس مسلمانوں والا کارڈ تھا‘ جسے اس نے خوب اچھالا اور الیکشن جیتا۔ اب کی دفعہ اس نے مسلمانوں کو کچھ نہیں کہا کیونکہ اب مسلمانوں سے بڑا ٹارگٹ اسے مل گیا تھا اور وہ ٹارگٹ تھا غیر قانونی تارکین وطن۔ یہ اکیلا ایشو اسے الیکشن جتوانے کے لیے کافی تھا اور اس کی الیکشن مہم نے بڑے شاندار طریقے سے عام امریکی کو ان غیر قانونی تارکین وطن سے ڈرا دیا کہ نوکریاں یا بزنس چھوڑیں‘ یہ تو ان کے پالتو کتے اور بلیاں تک کھا رہے ہیں۔
اس دفعہ وہی پاکستانی‘ جو پچھلے دونوں الیکشن میں ٹرمپ سے سہمے اور ڈرے ہوئے تھے‘ اب ٹرمپ کے بڑے سپورٹر تھے بلکہ الٹا ہم پاکستانیوں کو ڈرا رہے تھے کہ ذرا ٹرمپ کو صدر بننے دو‘ پھر دیکھنا آپ کا کیا حشر ہوتا ہے۔ انہیں اب کی دفعہ ٹرمپ سے امید ہے کہ وہ ان اوورسیز کے پیارے رہنما عمران خان کو جیل سے رہا کرانے کے بعد پاکستان میں نئے الیکشن کرا کے اپنے دوست کو دوبارہ وزیراعظم ہائوس لے جا کر بٹھا دے گا۔
اب عمران خان کا یہ نیا ٹرمپ کارڈ ہے جو 20 جنوری کے بعد استعمال ہوگا تو سوال یہ ہے کہ اگر 25 کروڑ لوگ عمران خان کو تمام تر کوششوں‘ ہنگاموں‘ مار دھاڑ اور ووٹ دے کر بھی جیل سے اب تک رہا نہیں کرا سکے یا دوبارہ وزیراعظم آفس میں نہیں بٹھا سکے تو کیا اکیلا ٹرمپ یہ کام امریکہ میں مقیم پاکستانیوں اور یہاں کے پاکستانیوں کیلئے کر سکے گا جن کی آخری امید اب ٹرمپ ہی رہ گیا ہے؟