پنٹاگون کی شدید مخالفت کے باوجود 78 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد امریکہ کے 47ویں صدر کے طور پر پھر سے وائٹ ہاؤس میں پہنچنے کی راہ ہموار کر چکے ہیں۔ ہر امریکی صدر چونکہ 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے لہٰذا ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدۂ صدارت کا حلف اٹھانے میں ابھی دو ماہ سے کچھ زائد وقت باقی ہے لیکن ٹرمپ کی جیت کا اعلان ہوتے ہی امریکی معیشت میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ جس دن ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی الیکشن جیتے‘ اسی دن بِٹ کوائن تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا‘امریکی سٹاک ایکسچینج میں بہتری آئی اور امریکی ڈالر مضبوط ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا میں جاری جنگوں کے خاتمے کے عزم کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں۔ اپنی وکٹری سپیچ میں بھی انہوں نے دنیا میں جاری جنگیں ختم کرنے اور نئی جنگیں شروع نہ کرنے کا عزم کا اظہار کیا۔
صدارتی الیکشن سے قبل مختلف میڈیا ہاؤسز کی جانب سے کیے گئے سرویز میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کی کامیابی کے پچاس‘ پچاس فیصد امکانات ظاہر کیے جا رہے تھے لیکن صدارتی انتخاب کے حتمی نتائج نے ٹرمپ کے مخالفین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف اپنی مد مقابل کملا ہیرس کو واضح مارجن سے شکست دی بلکہ ان کی ریپبلکن پارٹی سینیٹ اور کانگرس میں بھی برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ ٹرمپ کی کامیابی میں امریکہ کی سات معلق ریاستوں نے اہم کردارا دا کیا اور ٹرمپ کے الیکٹورل ووٹس کی تعداد کو 312تک پہنچا دیا جو 2016ء کے الیکٹورل ووٹوں سے بھی زیادہ ہیں۔ 2016ء میں ٹرمپ کو 304 الیکٹورل ووٹ ملے تھے۔ صدارتی انتخابات میں اتنی واضح کامیابی اور سینیٹ اور کانگرس میں برتری حاصل ہونے کی وجہ سے صدر ٹرمپ اپنے نئے دورِ صدارت میں مرضی کے فیصلے لینے میں مکمل آزاد ہوں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے سفارتی آداب کے تحت نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جبکہ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت بلا جواز خوشی کا اظہار کررہی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن شاید اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنا عہدہ سنبھالتے ہی پاکستان کی انتظامیہ پر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں گے لیکن شاید ان کویہ ادراک نہیں ہے کہ کسی مخصوص سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیت کے لیے کوئی بھی ملک دوسرے ممالک سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرتا۔ ایک مخصوص ٹولے کی طرف سے نئی امریکی انتظامیہ کی توجہ بانی پی ٹی آئی کے معاملے پر مرکوز کرانے کیلئے یہ خود ساختہ بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے۔ دراصل ہر سیاسی جماعت میں ایک ٹریڈ یونین ہوتی ہے جو اس طرح کی بیان بازی سے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ لہٰذا امریکی انتظامیہ بانی پی ٹی آئی کے لیے کوئی ایسا سفارتی خط نہیں لکھے گی جس کی اس سے توقع کی جا رہی ہے۔ امریکہ میں ہر سیاسی جماعت ایک طے شدہ سسٹم کے تحت چلتی ہے‘ وہاں موروثی سیاست کا کوئی تصور نہیں ہے۔ لہٰذا صدر ٹرمپ نے اگر اس حوالے سے کچھ سوچا بھی تو انہیں پنٹا گون کے مفادات کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ ویسے بھی امریکی انتظامیہ ابھی پی ٹی آئی کا امریکی سائفر کے حوالے سے تشکیل دیا جانے والا بیانیہ بھولی نہیں ہو گی جس میں پی ٹی آئی کی طرف سے پاکستانی سیاست میں امریکی مداخلت کو موضوع بنایا گیا تھا۔ اب ایسا کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے ٹرمپ پی ٹی آئی کے سائفر بیانیے کو بھی مدنظر رکھیں گے۔ لہٰذا تحریک انصاف سائفر بیانیہ کے تناظر میں صدر ٹرمپ سے کوئی امید نہ رکھے۔ امریکی تاریخ شاہد ہے کہ امریکی صدور کے نزدیک ریاست کا مفاد اوّلین حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے جو حکمران امریکہ کے ہاتھوں کھیلتے رہے ان کا انجام بڑا ہی عبرتناک ہوا۔
پاکستان کی اوّلین خارجہ پالیسی قائداعظم محمد علی جناح نے مرتب کی تھی۔ اس خارجہ پالیسی میں روس کے مقابلے میں امریکہ کو فوقیت دی گئی تھی۔ اگر ہمارے حکمران اُسی پالیسی پر قائم رہتے تو آج پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہت مضبوط ہوتے۔ سعودی عرب کی شاندار ترقی کا یہی راز ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اعتماد کا رشتہ برقرار ہے ۔ ایک ملاقات میں امریکہ کے سائوتھ ایشین افیئرز کے اسسٹنٹ سیکرٹری رچرڈ باؤچر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حکمران ناقابلِ اعتبار ہیں۔ خاص طور پر صدر مشرف کے بارے میں انہوں نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ امریکی سفیر ایملی پیٹرسن نے بھی ایک موقع پر ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے صدر مشرف کے متبادل کے طور پر بینظیر بھٹو کو آگے لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس امریکی پالیسی میں نواز شریف کا کوئی ذکر نہیں تھا‘ ان کو این آر او سعودی حکام نے دلایا تھا ۔20 جنوری 2025ء کو حلف لینے کے بعد صدر ٹرمپ سائوتھ ایشیا کے بارے میں جو پالیسی بیان دیں گے اسی سے اندازہ ہوجائے گا کہ عمران خان کے بارے میں نئے امریکی صدر کی سوچ کیا ہے۔
دوسری جانب اختر مینگل‘ فہمیدہ مرزا اور مصطفی نواز کھوکھر نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں مشترکہ درخواست دائر کی ہے جس کے بعد سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے۔ اختر مینگل اور دیگران کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں قراردادِ لاہور کو مرکزی نقطہ بنایا گیا ہے۔حکومتی ماہرین اور اٹارنی جنرل کے لیے اس درخواست کے اہم ترین پہلوئوں پر دلائل دینا کسی آزمائش سے کم نہیں ہوگا۔ اُدھر 26ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں بننے والے ملک کے پہلے آئینی بینچ کی تشکیل کو عدالتی نظام میں ایسی پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے جس سے ایک طرف اعلیٰ عدلیہ پر آئینی نوعیت کے مقدمات کا بوجھ کم ہو گا اور اسے دیگر اہم مقدمات کے جلد فیصلے کرنے میں مدد ملے گی اور دوسری طرف عدلیہ اور انتظامیہ کی بعض شکایتوں کا مداوا ہونے کی امید ہے۔ جمہوری نظام میں پارلیمان کو سب سے بڑے ادارے کی حیثیت حاصل ہے جو قانون سازی کا کام کرتی ہے‘ اور عدلیہ قانون کی تشریح کرتی ہے۔اس بارے میں کبھی کوئی اختلاف نظر آتا بھی ہے تو یہ فطری ہے‘ مگر عدلیہ اور پارلیمان سمیت تمام ادارے جس آئین کے تحت وجود میں آئے ہیں انہیں اسی کی پاسداری کرنی چاہیے۔
اُدھر مخصوص نشستوں کا کیس بڑی اہمیت کاحامل ہو چکا ہے۔ اس بارے میں مختلف آرا کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ چونکہ آئینی بینچ تشکیل پاچکا ہے ‘ لہٰذا یہ معاملہ اب آئینی بینچ کے سپرد کردیا جائے گا۔ جبکہ بعض دیگر ماہرین کی رائے یہ ہے کہ چونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نظر ِ ثانی کی درخواست دائر کی ہوئی ہے اور نظر ثانی کا کیس وہی عدالت سماعت کرتی ہے جس نے حتمی فیصلہ دیا ہو‘ لہٰذا یہ معاملہ آئینی بینچ کوریفر نہیں کیا جاسکتا۔ آئینی بینچ ابتدائی طور پر دو ماہ کے لیے تشکیل دیاگیا ہے۔
آخر میں کچھ بات بلوچستان میں ہونے والی تشویشناک دہشت گردی کے حوالے سے۔بلوچستان اور خیبرپختونخوا مسلسل دہشت گردی کے نشانے پر ہیں۔ صرف بلوچستان میں رواں برس اب تک 270 سے زائد افراد دہشت گردی کی وجہ سے جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ سکیورٹی اہلکار اس کے علاوہ ہیں۔ نو نومبر کو کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر ہونے والا خود کش حملہ‘ جس میں 27 افراد شہید اور 50 سے زائد زخمی ہوئے‘ اسی دہشت گردی کا تسلسل ہے۔ جب بھی ایسا کوئی افسوسناک واقعہ پیش آتا ہے تو حکومتی کارکردگی محض بیان بازی تک محدود رہتی ہے۔ حکومتی سطح پر سوائے مذمت کے کوئی عملی کارروائی نہیں ہوتی۔ دراصل بلوچستان حکومت کے پاس دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب وسائل موجود نہیں ہیں۔ دہشت گردی کے مستقل خاتمے کے لیے وفاق اور صوبائی حکومتوں کو مشترکہ حکومت عملی ترتیب دینا ہو گی۔