یہ کالم لکھوں یا نہ لکھوں؟ یہ بڑا سوال ہے۔ کئی بار لکھنے کا ارادہ کیا پھر کسی مصلحت نے روک دیا۔ مصلحت ذاتی تھی نہ سیاسی‘ نہ اخباری۔ بس دل کے اندر جو رجائیت ہمیشہ سے ڈیرے ڈالے ہوئی ہے وہ روکتی رہی کہ نہ کرو۔ لوگوں کی پریشانیاں پہلے ہی کم نہیں ہیں‘ تم ان میں کیا اضافہ کرنے چلے ہو اور زبان‘ ادب‘ شاعری‘ دیسی ثقافت‘ اب زندگیوں میں کہاں بڑی ترجیحات کے طور پر موجود رہ گئے ہیں جو ان کے بدل جانے سے قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ نہ کرو‘ ایسا نہ کرو۔ اس خیال کی کمک پر باکمال غزل گو جناب احمد مشتاق کا شعر بھی آ پہنچتا تھا:دل نہ میلا کرو‘ سوکھا نہیں سارا جنگل؍ ابھی اک جھنڈ سے پانی کی صدا آتی ہے۔
رجائیت کہتی ہے کہ ابھی گھنے پیڑوں کے ایک جھرمٹ سے پانی کی صدا آرہی ہے‘ لیکن دوسری طرف آنکھیں جو کچھ دیکھ رہی ہیں‘ دل جو کچھ جانتا ہے اور ذہن جو کچھ بتلاتا ہے‘ اسے کہاں لے جائیں؟ یاسیت کا کہنا تھا کہ ایک جھنڈ ہے نا؟ اور باقی جنگل جو زرد ہو چکا ہے اس کی بات نہیں کروگے؟ اور یاد رکھو! عام لوگوں کیلئے زبان‘ ادب‘ شاعری‘ ثقافت بدل جانا قیامت نہیں ہو گی۔ ان سے پوچھو جن کیلئے یہ پوری زندگی ہے۔ جس کی زندگی ختم ہو گئی‘ اس کی تو گویا قیامت آ چکی۔ آنکھوں‘ دل‘ دماغ اور اندیشوں نے مل کر ایک عرصے سے میری ہی نہیں‘ ہر اُس شخص کی نیندیں اڑا رکھی ہیں جن کی زندگی انہی عناصر سے مل کر بنی ہے۔ قیامت سر پر ہے۔ کتنے دن‘ کتنے سال‘ کتنے عشرے باقی ہیں‘ کچھ کہہ نہیں سکتے۔ جیسے بتا دیا جائے کہ زمین سے ٹکرانے کو ایک بڑا شہابیہ چل پڑا ہے‘ اگر کوئی معجزہ نہ ہوا تو بس کچھ سال آپ کی زندگیوں کے باقی ہیں۔ کیا کریں گے آپ اس بے بسی میں دعا کے علاوہ؟ بس انتظار کریں گے اور آنسو بھری آنکھوں سے اس گھر اور اس باغ کو دیکھیں گے جو نسل در نسل محنت سے بنائے گئے تھے۔
شاعری مر رہی ہے اور اسے مشاعرہ قتل کر رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ہندوستان میں مشاعرے نے برسوں پہلے اعلیٰ اردو شاعری کو قتل کیا تھا۔ دکاندار کے ہاتھ میں کوئی چیز آجائے تو اسے زیادہ منافع پر بیچنے کی کوشش ہی کرتا ہے اور اب مشاعرہ دکانداروں کے ہاتھ میں ہے۔ سب سے پہلے ہندوستان میں دکاندار کے ہاتھ میں مشاعرہ آیا تو اس نے اسے کارپوریٹ تفریح کی شکل دے دی۔ اسے معلوم تھا کہ لوگ ذوق و شوق سے مشاعرہ سننے آتے ہیں۔ جب ذوق و شوق زیادہ ہو تو اس پر ٹکٹ بھی تو لگایا جا سکتا ہے؟ اچھا ٹکٹ نہ سہی‘ اسے اشتہارات کا وسیلہ تو بنایا جا سکتا ہے۔ پھر یہ کہ دکاندار کو تو زیادہ سے زیادہ گاہک چاہئیں‘ تو مصنوعات وہ ہونی چاہئیں جن کیلئے زیادہ گاہک آسکیں۔ اس لیے مسئلہ شاعری نہیں‘ مسئلہ تفریح کو زیادہ سے زیادہ پُرکشش بنانا ہے۔ خوش شکل خاتون‘ مترنم بھی ہو تو سبحان اللہ۔ ہر شاعرہ میں یہ خصوصیات کہاں سے آئیں؟ تو کوئی بات نہیں‘ شاعری تو کسی سے بھی لی جا سکتی ہے‘ پڑھنے والی اپنی بتا کر پڑھ سکتی ہے۔ دوسرے مزاحیہ شاعر جو بیوی پر‘ ساس پر‘ حکومت پر‘ لوگوں کے جسمانی نقائص پر شاعری گڑھ کر سنا سکے اور لوگوں کو خوب ہنسا سکے۔ شاعری میں کچھ کمی ہو تو وہ اپنی جسمانی حرکات اور آواز سے پوری کردے۔ مخولیے اور مسخرے لوگوں کو زیادہ ہنسا سکتے ہیں اس لیے شاعر کے نام پر وہ لوگ بہتر رہیں گے۔ پھر مشاعرے کی ضرورت ایک ایسے شاعر کی تھی جو نوجوانوں کے جذبات کے مطابق شعر سنا سکے۔ محبت کی وہ شاعری سنا سکے جو فوراً سمجھ میں آجائے اور زیادہ سوچنے کی زحمت نہ کرنی پڑے۔ مشاعرے میں زیادہ گہری‘ مشکل اور پیغام والی شاعری نہیں چاہیے کہ یہ لوگوں کو مزا نہیں دیتی اور مشاعرہ تو مزے کا نام ہے۔ لوگوں کا مز ا نہیں تو خاک مشاعرہ ہو گا۔ کون آئے گا ٹکٹ لے کر؟ یہ سب مشاعرے کو کامیاب بنانے کی تاجرانہ کوششیں تھیں۔ ان سب فارمولوں میں شاعری یا اعلیٰ شاعر کہاں ہے؟ کہیں نہیں؟ یا بہت خوش قسمتی ہوئی تو کسی ایک آدھ جھنڈ سے پانی کی صدا آجائے گی۔
ہندوستان سے ان فارمولا مشاعروں کا آغاز ہوا‘ پھر یہ ہر اُس جگہ پہنچے جہاں دکانداراور گاہک موجود تھے۔ خلیجی ممالک اب انکی بڑی منڈی ہیں۔ پاکستان اعلیٰ شاعری اور شاعروں کی کہکشاں تھی۔ یہاں شعر شناس لوگ موجود تھے لیکن آہستہ آہستہ پاکستان میں بھی یہ جڑ پکڑنے لگے۔ سوشل میڈیا ان کا بڑا ہتھیار ثابت ہوا۔ پاکستان میں یہ فارمولا مشاعرے کالجوں‘ یونیورسٹیوں میں سب سے پہلے آئے اور بدقسمتی سے وہ کالج‘ یونیورسٹیاں جہاں اچھے شعر سنے اور سنائے جاتے تھے‘ اور جہاں نئی نسل اچھے شعر کہنا سیکھتی تھی‘ اب وہاں سطحی اور گھٹیا بلکہ لچر شعروں پر ہاؤ و ہو‘ سیٹیوں‘ چیخوں اور نعروں سے گونجنے لگے اور اب گھٹیا ترین شعر پڑ ھ کرسب سے زیادہ سیٹیاں حاصل کرنے والا شاعر فخر سے پھولا نہیں سماتا۔ وہ اساتذہ جنہیں طلبا کی رہنمائی کرنی تھی اور جو مشاعروں کے نگران تھے‘ یا تو خود بے علم تھے یا پھر رواج کے سامنے ہتھیار ڈالتے گئے اور طلبا بھی اسی شاعری کو بہترین سمجھنے لگے جو انکے اور تمام اساتذ ہ کے سامنے بار بار پیش کی جاتی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ فلاں شاعر تو اس قبیلے کا نہیں لیکن حضور! پورے جنگل کی بات ہے۔ اور اس تنہا جھنڈ میں پانی کب تک سرسرائے گا؟ یہ بھی یاد رکھیے کہ صلاحیت سے انکار ہرگز نہیں ہے۔ صلاحیت اس مٹی میں بہت ہے۔ بات اُس تربیت کی ہے جو کبھی مشاعرے کیا کرتے تھے۔
مستقبل کے بارے میں پیشگوئیاں آسان نہیں ہوتیں۔ لیکن وہ پوری ہوں یا نہ ہوں‘ ایک فائدہ ضرور ہو جاتا ہے۔ لوگ چوکنے ہو جاتے ہیں‘ خطرہ بڑا ہو تو احتیاطی تدابیر اختیار کر لیتے ہیں۔ صدیوں کی مسلسل ریاضت سے تعمیر کی ہوئی اس عمارت میں آج دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ اس وقت بھی 2024ء میں اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اعلیٰ اردو شاعروں کے نام بتاؤ جو لمحۂ موجود کی رونق ہیں تو میں بے شمار نام گنوا دوں گا۔ لیکن آج سے 30‘ 40سال پہلے یہ تعداد آج سے کہیں زیادہ تھی۔ آج اتنی تعداد نہیں رہ گئی۔ سو ایک سوال کوبرے ناگ کی طرح پھن کاڑھ کر میری طرف دیکھتا ہے اور میں اس سے ڈرتا ہوں۔ کیا آج سے 30‘ 40سال بعد بھی اعلیٰ شاعروں کے نام اسی طرح گنوائے جا سکیں گے؟ اور اگر 30‘ 40سال بعد کا خطرہ ہے تو سو سال کے بعد؟ آج سے سو سال پہلے یعنی 1924ء میں اقبال تھے اور اکبر تین سال پہلے ہی رخصت ہوئے تھے۔ حضور! 2124ء میں جب آپ ہم نہیں ہوں گے‘ کیا یہ زبان‘ یہ شعر‘ یہ شاعر زندہ ہوں گے؟
زبان‘ ادب‘ شاعری‘ دیسی ثقافت مر رہے ہیں۔ اور دکھ یہ ہے کہ طبعی موت نہیں مر رہے‘ انہیں قتل کیا جا رہا ہے۔ میں اور آپ کسی چھوٹی سی تقریب کیلئے جس کا بجٹ چند ہزار ہوتا ہے‘ کوئی مالی سرپرست ڈھونڈنے نکلیں تو تلاش کے باوجود نہیں ملتا۔ لیکن ہمارے ارد گرد یک‘ دو اور سہ روزہ بڑے بڑے اردو ادبی میلے منعقد ہو رہے ہیں جن کے بڑے بڑے بجٹ ہیں۔ بڑی بڑی اردو کانفرنسیں ہورہی ہیں۔ انہیں سرپرست کہاں سے مل رہے ہیں؟ اور ان کا مقصد کیا ہے؟ چار ہی صورتیں ممکن ہیں۔ اول یہ کہ یہ ادب کے فروغ کیلئے کیے جا رہے ہوں۔ دوم یہ کہ ذاتی تشہیر اور نام مقصد ہو‘ سوم یہ کہ اس سے مال کمانا مطمح نظر ہو اور چہارم یہ کہ یہ سب کسی ایجنڈے کا حصہ ہو۔ وہ ایجنڈا جس کا مقصد زبان‘ ادب‘ شاعری اور دیسی ثقافت تہس نہس کرنا ہو۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ ان چاروں میں مقصد کون سا ہے؟ مجھے پہلا مقصد تو بیشتر صورتوں میں دور دور نظر نہیں آتا۔ اگر یہ ہوتا تو انہیں اردو کے نفاذ کی فکر نہ ہوتی؟ ان کے بینروں اور دعوت ناموں پر اردو نظر نہ آتی؟ انہیں ادیبوں کے بنیادی مسائل کا ادراک نہ ہوتا؟ مجھے تو جو محسوس ہوتا ہے‘ یہ ہے کہ زبان کو زبان کے نام پر دفن کرو‘ ثقافت کو ثقافت نام کی قبر میں دبا دو‘ ادب کو ادب کے خنجر سے ذبح کرو‘ شاعری کو شاعری کی تلوار سے قتل کرو۔ اور ایسے کہ خون کی بوند تک نہ گرے۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ؍تم قتل کروہو کہ کرامات کرو ہو