آنکھیں اس ایپلی کیشن کی تفصیلات پڑھ رہی ہیں جس میں آپ بولتے جائیے اور کوئی نادیدہ قلم آپ کے سامنے سکرین پر حروف لکھتا جائے گا۔ آپ کو خود لکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ املا‘ سپیلنگ‘ حروف کی شکلیں‘ ان کے آپس میں جوڑ‘ کچھ بھی جاننے کی ضرورت نہیں۔ بس بولتے جائیے اور تحریر کی شکل میں پڑھتے جائیے۔ قلم کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ کی آواز ہی آپ کا قلم ہے۔ آنکھیں یہ سب تفصیلات پڑھ رہی ہیں اور ذہن دور‘ بہت دور تاریخ میں سفر کر رہا ہے۔
غار میں سوئے ‘ جسم پر کھال لپیٹے ہوئے آدمی کی آنکھ کھلی۔ سیاہ رات کا آخری پہر تھا۔ خاندان کے باقی لوگ ابھی سوئے پڑے تھے‘ ذرا دور لکڑیوں کا الائو جل رہا تھا۔ اسی الائو پر انہوں نے شکار کردہ جانور کاگوشت بھونا تھا اور شکم سیر ہو کر سوئے تھے۔ وہ اٹھا اور سیاہ پتھر کا وہ نوک دار ٹکڑا اٹھا لیا جس سے وہ آڑی ترچھی لکیریں کھینچا کرتا تھا۔ اس کی نظروں کے سامنے اس جانور کی تصویر متحرک تھی جسے اس نے گزشہ روز اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر شکار کیا تھا۔ اس نے دیوار پر اس کی چاروں دوڑتی ٹانگیں بنائیں‘ ان کے اوپر پورا جسم کا خاکہ کھینچا اور گردن‘ تھوتھنی اور آنکھ بنا کر تصویر مکمل کر دی۔ آدمی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک انقلابی قدم اٹھا کر دنیا کی پہلی تصویری تحریر کا آغاز کر رہا ہے اور سیاہ پتھر کا یہ نوکیلا ٹکڑا پہلا قلم ہے۔
دریائے فرات کنارے معبد میں ایک پروہت لکڑی کے ٹکڑے پر کانسی کے چاقو سے کچھ خطوط کھینچنے میں مصروف تھا۔ اس کے قریب وہ کسان بیٹھے تھے جن کے کھیتوں نے اس سال بھرپور فصل اگائی تھی۔اب یہ مسئلہ آن پڑا تھا کہ کس کسان کو کتنا حصہ ملے گا۔ بادشاہ کوکتنا اور معبد کو کتنا! وہ تصفیے کیلئے پروہت کے پاس آئے تھے جو اِن سب سے زیادہ علم رکھتا تھا۔ مسئلہ ایک بار کا نہیں‘ ہر سال کا تھا اور پروہت کچھ لکیروں‘ کچھ علامتوں اور کچھ تصویروں کے ذریعے حساب کرنے میں مصروف تھا۔ لکھائی چاقو سے ہو رہی تھی اور یہی اس کا قلم تھا۔ یہ انسان بولتے تھے لیکن اس بولی کو منجمد کرنا انہیں نہیں آیا تھا۔ ابھی زبان نہیں بنی تھی لیکن یہ لکیریں اور خطوط وہ ہندسے تھے جنہیں آگے چل کر زبان بننا تھا۔ ابھی حضرت عیسیٰ کی آمد میں پانچ ہزار سال باقی تھے۔ موجودہ عراق میں دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے بیچ وہ میدان بچھا ہے جسے عربی میں بین النہرین اور تاریخی زبان میں میسو پوٹیمیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں مختلف حد بندیوں کے ذریعے ریاستیں بنائی جا چکی تھیں اور یہ سب ریاستیں مل کر ایک مشترکہ سمیری تہذیب کو جنم دے رہی تھیں۔ سمیری تہذیب‘ جسے انسان کی اولین تہذیب سمجھا جاتا ہے اور گمان کیا جاتا ہے کہ تحریر نے سب سے پہلے یہاں جنم لیا۔
تانبے کے ٹکڑے پر نقوش کھودتے نوک دار اوزار کو ایک طرف رکھ کر گہرے سانولے انسان نے گردن اٹھائی اور سبز کھیتوں کے پار نیلے پانیوں کی طرف دیکھا۔ یہ دریا ان کی شہ رگ کی طرح ان کی بستیوں‘ کھیتوں اور مویشیوں کو زندہ رکھتا تھا۔ بعد کی نسلیں اس دریا کو سندھ کے نام سے یاد کریں گی اور ان بستیوں کو ہڑپہ اور موہنجودڑو تہذیب کہا جائے گا۔ ان کی تعمیرات کو حیرت سے دیکھا جائے گا اور انہیں نسل انسانی متمدن قوموں میں شمار کیا کرے گی۔ ہزار کوششوں کے باوجود یہ تحریر پڑھی نہ جا سکے گی اور اس کا مفہوم ایک راز کی طرح تاریخ کے سینے میں دفن رہے گا۔ لیکن اس راز کے باوجود اس تہذیب کی یہ فضیلت تانبے کی پلیٹوں پر ثبت ہو چکی ہے کہ وہ ہاتھ میں قلم رکھتی تھی‘ لکھنا پڑھنا جانتی تھی اور اس وقت جانتی تھی جب آمد مسیح میں ابھی ساڑھے تین ہزار سال باقی تھے۔
دریائے نیل کے کنار ے تھیبس کے شاہی محل میں وقت کا فرعون اونچی سنہری کرسی پر بیٹھا شاہی احکام لکھوا رہا تھا۔ پائپرس نامی درخت کی چھال کا ایک لمبا تنا کاتب کے سامنے دھرا تھا۔ تانبے کا قلم کاتب کے ہاتھ میں تھا اور وہ تندہی سے شاہی فرامین لکھنے میں مصروف تھا۔ وہ کہیں مگرمچھ‘ کہیں بگلا‘ کہیں سانپ بناتا ہے۔ ان کے معنی متعین ہیں۔ یہ تحریر ایک فن ہے اور فن شناس گنے چنے ہیں۔ اگر ان تصویروں کے رخ دائیں طرف ہیں تو یہ اشارہ ہے کہ یہ تحریر دائیں سے بائیں پڑھی جائے گی۔ یہ ہیروغلیفی کہلائے گی۔ اور اسی کا عجلت میں لکھا گیا یعنی شارٹ ہینڈ خط ہائراٹک (hieratic) کے نام سے جانا جائے گا۔ ہیروغلیفی خط بعد کی صدیوں کیلئے راز رہے گا اور ایک دن روزیٹا پتھر کی دریافت اس راز کو فاش کرے گی۔
کوہِ طور یا حورب پہاڑ سے ایک جلیل القدر پیغمبر بتدریج نیچے اتر رہے ہیں۔ ان کے سامنے پہاڑ کے دامن میں ایک وسیع میدان تھا جس میں کپڑے کے خیمے نصب تھے۔ ان پیغمبر کے ہاتھ میں پتھر کی تختیاں تھیں۔ وہ الواح جن پر ان کی قوم کیلئے احکامات لکھے ہوئے تھے۔ ان پیغمبر کو ہم موسیٰ علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں اور یہ تختیاں وہ ہدایات تھیں جنہیں تورات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ''اور ہم نے ان تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی سو انہیں مضبوطی سے تھام لو‘‘ (مفہوم‘ الاعراف: 145)۔ یہ آسمانی کتابوں کی ایک اہم کڑی تھی جو جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے اور اس سے قبل سے چلی آ رہی تھی۔
ہمالیہ کی ایک بستی میں لمبی سفید چگی داڑھی اور سفید بھنوئوں والا ایک بدھ راہب کچھوے کے خول اور لکڑی کے تختے پر عمودی نقش بنانے میں مستغرق تھا۔ اس کے ہاتھ میں بانس کا قلم تھا جس کے سرے پر بھیڑیے کے بال لگا کر برش سا بنا لیا گیا تھا۔ ایک قلم کے سرے پر خرگوش کے بال لگے ہوئے تھے۔ اس کے قریب ایک پیالے میں شنگرفی پتھر سے بنایا ہوا سرخ محلول تھا‘ دوسرے پیالے میں بجھے چراغوں کی راکھ پانی میں ملا کر سیاہی بنی ہوئی تھی۔ وہ کبھی سرخ اور کبھی سیاہ نقش بناتا تھا۔ یہ نقش ہندسوں کو ظاہر کرتے تھے اور انہیں اوپر سے نیچے پڑھا جاتا تھا۔ یہ خاص طرح کی تحریر تھی اور خاص طرز کے قلم۔ آمدِ مسیح میں اب بھی ڈیڑھ ہزار سال باقی ہیں۔ ابھی بطخ‘ راج ہنس اور دیگر خوبصورت پرندوں کے پر قلم کے طور پر استعمال ہونے میں ذرا وقت ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کو لگ بھگ چھ سو سال ہو چکے ہیں۔ صحرائے عرب میں آخری پیغمبر سیدنا محمدﷺ کا نزول ہو چکا ہے۔ مدینہ ان کے نور سے جگمگا رہا ہے۔ وہ پڑھے لکھے گرفتار قیدیوں کیلئے یہ فدیہ مقرر کرتے ہیں کہ وہ کچھ بچوں کو پڑھائیں اور آزاد ہو جائیں۔ وہ قلم اور حرف کی اہمیت کو جانتے ہیں۔ آخری آسمانی کتاب ان پر آیت آیت نازل ہو رہی ہے۔ وہ کتاب جس میں ایک سورت القلم کے نام سے ہے‘ جس میں قلم کی قسم کھائی گئی ہے۔ ''اور قلم کی قسم اور جو لکھنے والے لکھتے ہیں‘ اس کی قسم‘‘ (سورۃ القلم)۔ چرمی ٹکڑوں‘ ہڈیوں‘ کھجوروں کی چھال پر حروف ثبت ہوتے ہیں اور دنیا کے عظیم بادشاہوں‘ سربراہوں اور قبیلوں کی طرف مکتوب بھیجے جاتے ہیں‘ وہ مکاتیب جو دنیا کی تاریخ بدلنے والے ہیں۔
سمن آباد لاہور کے ایک چھوٹے سے سکول میں دھوپ میں کھڑی گاچنی سے لپی تختی سوکھ چکی ہے۔ یہ بیسیویں صدی کی ستر کی دہائی ہے۔ میں تختی پر سیدھی لکیریں کھینچتا ہوں۔ سرکنڈے کے قلم کو پہلے ہی ترچھا قط لگایا جا چکا ہے۔ پلاسٹک کی ایک دوات میں سیاہی گھولی اور جاذب سوتی کپڑے کی دھجی ڈالی جا چکی ہے۔ میں خوش خط لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ قلم گویم کہ من شاہِ جہانم (قلم کہتا ہے کہ میں دنیا کا بادشاہ ہوں)۔ آج جب میں اس ایپلی کیشن کے بارے میں پڑھ رہا ہوں جس میں آپ بولتے جائیے اور ایک نادیدہ قلم آپ کی آواز سمجھ کر اسے تحریر میں منتقل کردے گا تو میرا ذہن تاریخ کے ادوار میں گھوم رہا ہے۔ کیا ہماری آئندہ نسلوں کے وہ بچے‘ جو بول کر سکرین پر لکھا کریں گے‘ ان کے ذہنوں میں دور دور بھی یہ تفصیل ہو گی کہ قلم اور عبارت کا یہ سفر کتنے ہزار سال پر محیط ہے؟ کیا وہ اس خوشی کو محسوس کر سکیں گے جو ایک خوش خط لفظ لکھ کر ملا کرتی تھی۔ اس مصرع کو چھوڑیں ''قلم گویم کہ من شاہِ جہانم‘‘۔ کیا انہیں قلم کے معنی بھی معلوم ہوں گے؟