"SUC" (space) message & send to 7575

ٹرمپ کارڈ ز

تاش کے کھیل برج میں مہارت اور ذہانت سے پھینکا جانے والا ایک پتا‘ جو پھینکنے والے کھلاڑی کو جیت دلا دیتا ہے‘ ٹرمپ کارڈ کہلاتا ہے۔ زبان کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ لفظ ٹرمپ (Trump) دراصل لاطینی لفظ ٹرمفس (Triumphs) یعنی فتح اور جیت سے نکلا ہے۔ یہیں سے انگریزی میں وہ لفظ در آیا جسے اب Triumphیعنی فتح کہتے ہیں۔
بہت سی رکاوٹوں‘ مخالفتوں اور ناپسندیدگیوں کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر کے عہدے تک دوبارہ پہنچ گئے۔ مقتدر حلقوں خصوصاً امریکی اشرافیہ کی طرف سے ایسی مخالفت اور ناپسندیدگی کم ہی کسی کے حصے میں آئی ہو گی۔ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ کو دوبارہ صدر نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ اسی طرح سنجیدہ اور زیادہ پڑھا لکھا طبقہ بھی ٹرمپ کے حق میں نہیں تھا۔ لیکن داد دینی چاہیے امریکی نظام کو کہ اس میں بیشمار پیچیدگیوں کے باوجودکسی کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ وہ نتائج کو اپنی مرضی سے تبدیل کرے۔ امریکی ووٹرز کا فیصلہ سب نے تسلیم کیا۔ ٹرمپ کی سب سے بڑی مخالف کملا ہیرس نے بھی۔ کسی نے دھاندلی کا الزام نہیں لگایا۔ لیکن اگر معاملہ برعکس ہوتا‘ ٹرمپ ہار جاتے تو کیا وہ نتائج تسلیم کر لیتے؟ ان کا مزاج اور 2020ء کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے یہی جواب ملتا ہے کہ شاید نہیں۔ وہ اپنے حامیوں کو سڑکوں پر لاتے جیسا کہ جنوری 2021ء میں ہو چکا۔ اس لحاظ سے پُرسکون انتقالِ اقتدار عمل میں آ جائے گا۔ لیکن یہ کم پڑھا لکھا‘ ہنگامہ پسند عوامی مزاج اور دھول دھپا جو امریکی سیاست میں ٹرمپ نے داخل کر دیا ہے‘ اگلے امیدواروں تک بھی اپنے اثرات ضرور پہنچائے گا۔
حتمی انتخابی نتائج میں ٹرمپ اور ریپبلکنز نے حیرت انگیز برتری حاصل کی ہے۔ کملاہیرس اور ڈیمو کریٹس کا حامی میڈیا تو مسلسل کملا کے جیتنے کا تاثر پھیلاتا رہا تھا لیکن حتمی نتائج میں ٹرمپ کو 312 الیکٹورل ووٹ ملے جبکہ 226 کملا ہیرس کے حصے میں آئے۔ مقبول ووٹوں میں 50.5 فیصد ووٹ ٹرمپ کو اور 47.9 فیصدکملا ہیرس کو ملے۔ اس طرح فرق توقع سے زیادہ ہے۔ یہودی حلقوں اور خواتین ووٹروں کی بڑی حمایت کے باوجود ٹرمپ کے حق میں واضح عوامی لہر نظر آئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ان کے پاس کیا ٹرمپ کارڈ تھا جس کی بدولت وہ اس لہر کی سواری کرکے وائٹ ہاؤس تک پہنچے ہیں؟ کوئی عالمی معاملہ ووٹرز کو زیادہ پریشان کرتا رہا ہے یا کوئی داخلی مسئلہ ان کی ترجیح رہا ہے۔ عالمی مسائل میں فلسطین‘ اسرائیل تنازع بھی اہم تھا اور یوکرین روس جنگ بھی۔ نیٹو کا مستقبل ووٹر کیلئے زیادہ اہم تھا یا امریکہ میں مسلسل قانونی اور غیر قانونی آبادکاروں کی آتی ہوئی لہریں؟ کوئی شک نہیں کہ مسلم ووٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت میں اہم کردار ادا کیا لیکن کیا یہ اس جیت کی واحد وجہ ہے؟ میری رائے میں ایک عام امریکی کو عالمی مسائل سے اتنی زیادہ دلچسپی نہیں کہ وہ ان کی بنیاد پر سربراہ کا فیصلہ کرے۔ وہ روز مرہ زندگی‘ معاش‘ اور سہولتوں کے گرد گھومتا ہے‘ اور بہت بڑا طبقہ وہ ہے جو عالمی معاملات سے بے خبر رہتا ہے۔ میرے خیال میں دو معاملات نے ٹرمپ کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ پہلی وجہ بائیڈن دور میں ہونے والی غیر معمولی مہنگائی ہے اور دوسری وجہ امیگریشن یعنی نئے آباد کاروں کے مسائل ہیں۔ ٹرمپ نے ان معاملات میں عام لوگوں کی ترجمانی کرکے بڑی حمایت حاصل کی۔
کووڈ کا دور ختم ہونے سے پہلے ہی دنیا اس کے عالمگیر اثرات کی لپیٹ میں آ چکی تھی۔ امریکہ بھی اس کا بہت بڑا شکار تھا۔ وبائی دور میں غیر معمولی ہلاکتیں ایک طرف اور روزمرہ زندگی کا تعطل دوسری طرف۔ روزمرہ اشیا کی مہنگائی میں اضافہ شروع ہوا۔ یہی وہ وقت تھا جب ڈیمو کریٹ صدر جوبائیڈن نے اقتدار سنبھالا۔ انہی کے دور میں ضروری اشیا کی قیمتیں راکٹ کی طرح اوپر گئیں اور 2021ء میں مہنگائی 20 فیصد تک پہنچ گئی۔ امریکی حکومت نے کووڈ اور بعد کے دنوں میں لوگوں کو تنخواہیں اور الاؤنسزگھر بٹھا کر دیے تھے جو سرکاری خزانے کا ایک بڑا خرچ تھا۔ لیکن عام اشیا کی بیحد مہنگائی پر بائیڈن حکومت قابو پانے میں ناکام رہی۔ 2021ء اور 2022ء میں میرا بھی امریکہ دو‘ تین بار جانا ہوا اور مختلف ریاستوں میں غیر معمولی مہنگائی کا خود مشاہدہ کیا۔ دوسری طرف کووڈ ہی کے نتیجے میں بیروزگاری بہت زیادہ بڑھ گئی۔ مثلاً ٹریول ایجنسیاں‘ فضائی کمپنیاں اور ہوٹل بہت بُری طرح متاثر ہوئے اور ان کے ملازمین بیروزگار ہو گئے۔ ایک سروے میں 45 فیصد لوگوں نے کہا کہ بائیڈن کے چار سال ہمارے لیے بدترین تھے۔ اس کے برعکس صرف 24 فیصد کی رائے تھی کہ ان کے حالات بہتر ہوئے۔ اکثریت سمجھتی ہے کہ مہنگائی کے مقابلے میں تنخواہوں میں کم اضافہ ہوا۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی مہنگائی کم کرنے‘ معیشت بہتر کرنے اور ٹیکس اصلاحات کا وعدہ کیا ہے۔ دیکھیں وہ کیسے کرتے ہیں۔
امیگریشن اور آباد کاروں کا مسئلہ دیرینہ‘ پیچیدہ لیکن اہم ہے۔ خود امریکہ مختلف نسلوں‘ قوموں اور ثقافتوں کے آباد کاروں کا بسایا ہوا ہے اور اصولی طور پر ان کی تاریخ آباد کاروں کو جگہ دیتی رہی ہے لیکن اس دور میں امیگریشن کا مسئلہ بہت بڑھ چکا ہے۔ قانونی طریقے سے آباد ہونے والے بھی ہیں اور غیر قانونی طور پر امریکہ میں موجود لوگ بھی۔ دونوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ امریکہ کی سرحد میکسیکو سے ملتی ہے۔ یہاں سے غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کرکے آنے والوں کی بہت بڑی تعداد امریکہ میں ہے۔ یہ لوگ بہت کم پیسوں میں مزدوری کے کام کر لیتے ہیں۔ انہیں ملازمتوں پر رکھنے والے ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن دوسری طرف جو امریکی شہری ملازمت ڈھونڈتے ہیں انہیں ملازمت نہیں ملتی۔ کیونکہ وہ قانونی طور پر مقرر کردہ کم سے کم اجرت مانگتے ہیں۔ جبکہ اس سے کم میں میکسیکن مزدور دسیتاب ہیں۔ اس لیے روز بروز حکومتوں پر دباؤ بڑھتا رہا ہے کہ غیر قانونی مقیم لوگوں کو واپس بھیجے اور سرحد پر روک تھام کر کے مزید نقل مکانی ختم کرے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امیگریشن معاملات میں واضح پالیسی رکھتے ہیں۔ اپنے پہلے دور میں بھی انہوں نے میکسیکو بارڈر پر دیوار بنوائی تھی اور موجودہ انتخابی مہم میں بھی ان کا وعدہ رہا کہ وہ امریکہ میں غیر قانونی مقیم افراد کو ان کے ملکوں میں فوراً واپس بھیجیں گے۔ ڈیمو کریٹس نے امیگریشن کے معاملات میں جو بائیڈن کے آتے ہی ٹرمپ پالیسیوں پر عمل ختم کر دیا تھا۔ اب ٹرمپ کے حامیوں کی توقع ہے کہ وہ اقتدار میں آتے ہی اس مسئلے کو فوری حل کریں گے اور اسی توقع پر ٹرمپ کو ووٹ دیے گئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قانونی طور پر مقیم امیگرینٹس کا کیا ہوگا؟ اور اس سے بھی بڑا سوال یہ کہ آئندہ امیگریشن کیلئے درخواست دینے والوں کے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ ٹرمپ کا رجحان اور بیان تو یہی نظر آتا ہے کہ وہ مخصوص نسلوں اور ملکوں کے سوا باقی ممالک سے امیگریشن پر پابندیاں عائد کریں گے۔ یہ اس عوامی طبقے کا مطالبہ بھی ہے جنہیں Redneck کہا جاتا ہے۔ یہ طبقہ کم پڑھا لکھا اور ٹرمپ کا شدید حامی ہے۔ بظاہر یہ پابندیاں ٹرمپ کے آنے کے بعد عائد ہونا شروع ہو جائیں گی‘ اور مسلم ممالک سب سے زیادہ اس کی زد میں آئیں گے۔ دو اہم عالمی معاملات فلسطین‘ اسرائیل تنازع اور روس یوکرین جنگ ہیں۔ ایک اہم معاملہ نیٹو اشتراک کا بھی ہے۔ ٹرمپ نیٹو میں ان ممالک کے خلاف بات کرتے رہے ہیں جو اپنے ذمے مالی ادائیگیوں سے قاصر رہے۔
اپنے ٹرمپ کارڈ کھیل کر ڈونلڈ ٹرمپ بازی جیت چکے۔ وائٹ ہاؤس میں آنے کے بعد ان کی پالیسیاں کیا ہوں گی‘ ان کا انحصار اس پر بھی ہے کہ وہ اپنی ٹیم کون سی منتخب کرتے ہیں۔ کون سے شکرے کن شعبوں میں پہنچیں گے اور دنیا بھر کے بارے میں کیا پالیسیاں بنائیں گے۔ ان دو مہینوں میں سفارتکاریاں بھی اپنے عروج پر ہوں گی۔ حکومتیں آنے والی نئی حکومت سے تعلقات بہتر بنانے میں مصروف ہوں گی۔ ٹرمپ چاہے جنوری میں حلف اٹھائیں‘ جوبائیڈن کا ہونا نہ ہونا اب دو ماہ کے لیے برابر ہی رہے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں