پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سات ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ پروگرام کیلئے معاملات تقریباً ہو گئے ہیں اور امید ہے کہ 25ستمبر کو آئی ایم ایف بورڈ اجلاس میں پاکستان کو سات ارب ڈالر قرض کی منظوری مل جائے گی۔ ایک مرتبہ پھر چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستانی قرضوں کو رول اوور کرکے ہماری معیشت کو سنبھلنے کیلئے سہارا فراہم کیا ہے۔ تقریباً تین سال کیلئے 16 ارب ڈالر کی ادائیگی کو مؤخر کروانے کی یقین دہانی اور مزید دو ارب ڈالر قرض کا حصول ایک مشکل ہدف تھا جسے حکومت نے بہترسفارتی اپروچ کے ذریعے حاصل کیا ہے۔
حکومتی سطح پر تو معاشی استحکام کے اشارے مل رہے ہیں لیکن عوامی سطح پر حالات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف قرض کی منظوری عوام کیلئے ٹیکسوں کا نیا بوجھ بھی ساتھ لائے گی۔ اطلاعات ہیں کہ ٹیکس فائلرز پر مزید بوجھ ڈالا جا سکتا ہے۔ بالخصوص پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں‘ اے او پیز اور بغیر کمپنیوں کے بزنس کرنے والے افراد سے مزید ٹیکس لینے کیلئے انکم ٹیکس آرڈیننس کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں متعلقہ سرکاری اداروں اور کمرشل بینکوں کو فائلرز کی ٹیکس ریٹرنز تک رسائی دی جا سکتی ہے تاکہ ریٹرنز میں ظاہر کیے گئے کیش بیلنس اور آمدن سے زیادہ پراپرٹی خریدنے والوں اور بینک ٹرانزیکشن کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا سکے۔ یہ اپروچ مناسب نہیں‘ جو لوگ ٹیکس نیٹ میں ہیں اور ذمہ داری سے ٹیکس ریٹرنز جمع کروا رہے ہیں ان پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس بیس بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے‘ جس میں ایف بی آر مکمل ناکام ہو چکا ہے۔ زراعت کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ تاجروں کے دباؤ میں آکر انہیں بینک اکاؤنٹس ظاہر نہ کرنے جیسی شرائط پر ریلیف دیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی وڈیروں کو اور (ن) لیگ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے ہمیشہ گریزاں رہی ہے تاکہ ووٹ بینک کو بچایا جا سکے۔ اس اپروچ کے ساتھ ٹیکس اہداف حاصل کرنا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئے بجٹ کے بعد ایف بی آر ماہانہ ٹیکس اہداف حاصل نہیں کر پا رہا۔ جو لوگ ٹیکس ریٹرنز فائل کر رہے ہیں انہیں پہلے ہی کافی نچوڑا جا چکا ہے‘ مزید نچوڑا گیا تو وہ ٹوٹ جائیں گے اور جتنا ٹیکس ادا کر رہے ہیں اسے بھی بچانے کی کوشش کریں گے۔حکومت کو ماضی کے تجربات سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
اُدھر سٹیٹ بینک کی جانب سے شرحِ سود میں صرف دو فیصد کمی سے کاروباری طبقہ اور عوام زیادہ خوش دکھائی نہیں دے رہے۔ وہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ مہنگائی اور شرح سود ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں تو ملک میں اس وقت مہنگائی تقریباً نو فیصد ہے تو شرح سود اس سے دوگنا (17.5فیصد) کیوں ہے؟ تاجر تنظیموں نے حکومت سے اس بار شرحِ سود کم از کم پانچ فیصد کم کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسے نظر انداز کر دیا گیا۔ ایسا کیوں کیا گیا‘ حکومت کی طرف سے اس کی کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔ اس شرح سود پر کاروبار نہیں ہو سکتا۔ اس سے صرف اُن افراد اور کمپنیوں کو فائدہ ہو سکتا ہے جنہوں نے پہلے سے قرض لے رکھے ہیں لیکن نیا قرض لینے کی راہ ابھی ہموار ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ صرف شرح سود کم ہونا ناکافی ہے۔ ملک میں کاروبار کے فروغ اور بلا تعطل صنعتی پہیہ چلانے کیلئے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً برآمدات میں اضافے کیلئے بجلی کے نرخ بنگلہ دیش‘ بھارت اور چین کے برابر لانے کی ضرورت ہے۔ برآمدات سے جڑے کاروبار بینکوں سے قرض لیے بغیر تو چل سکتے ہیں لیکن مہنگی بجلی کے ساتھ کاروبار چلانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ ملک میں تقریباً 125سپننگ ملیں مہنگی بجلی کی وجہ سے بند ہوئی ہیں نہ کہ شرحِ سود زیادہ ہونے سے۔ اس وقت سب سے بڑا عوامی مطالبہ آئی پی پیز کے کپیسٹی چارجز ختم کرنے کا ہے۔ آئی پی پیز نے کپیسٹی چارجز ختم کرنے کی صورت میں عالمی ثالثی عدالت میں جانے کی دھمکی بھی دے دی ہے۔ اُن کا مطالبہ ہے کہ حکومت پہلے اپنے 52 فیصد پاور ہاؤسز کے بجلی نرخوں میں کمی کرے اور بجلی بلوں پر ناجائز 38 فیصد ٹیکسز واپس لے جو کہ جائز مطالبہ ہے اور حکومت کو اس پر عملدرآمد بھی کرنا چاہیے۔ شرح سود کم ہونے سے بینکوں میں پیسہ رکھ کر جو منافع کمایا جا رہا تھا اس میں کمی آئے گی اور عوام بینکوں سے پیسہ نکال کر ملک سے باہر لے جانے کو ترجیح دے سکتے ہیں‘ کیونکہ ملک میں نیا کاروبار کرنے کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ملک میں کاروبار کرنا مشکل اور ملک سے پیسہ باہر لے جانا زیادہ آسان بنا دیا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دبئی میں پاکستانی نئی کمپنیاں رجسٹرڈ کروانے میں سب سے آگے ہیں۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ رائے قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ شرح سود کم ہونے سے رئیل اسٹیٹ کا کاروبار چل سکتا ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ مشکل ہے کیونکہ اس سیکٹر پر بہت زیادہ ٹیکس لگا دیے گئے ہیں اور انکم ٹیکس آرڈیننس میں ممکنہ تبدیلی سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر مزید متاثر ہو سکتا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ شرحِ سود کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی یہ رہنمائی بھی کرے کہ وہ بینکوں سے پیسہ نکال کر کس بزنس میں لگائیں؟ اگر کاروبار کے حالات نارمل نہ کیے گئے تو بینکوں سے نکل کر پیسہ سونے کی خریداری میں لگ سکتا ہے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ سونے کی قیمت بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور اس پر چیک اینڈ بیلنس کا بھی کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ ڈالر ریٹ کنٹرول کرنا خوش آئند ہے لیکن اگر سونے کی قیمتوں پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے دنوں میں سرمایہ محفوظ کرنے کیلئے عوام کو سونے کی خریداری کے علاوہ کوئی آپشن نظر نہیں آئے گا۔ اس کے علاوہ ملک میں کاروباری طبقے کا اعتماد بحال کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
دوسری طرف سٹیٹ بینک حکام اس وقت جعلی کرنسی نوٹوں کے مسئلے کو لے کر کافی پریشان ہیں۔ بالخصوص پانچ ہزار اور ایک ہزار روپے کے جعلی کرنسی نوٹ مارکیٹ میں بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس میں اس مدعے کو کئی مرتبہ اٹھایا گیا ہے جس کے بعد سٹیٹ بینک نے پانچ ہزار کے جعلی نوٹ کی پہچان کیلئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خصوصی ویڈیوز بھی جاری کیں تاکہ عام آدمی کو دھوکے اور نقصان سے بچایا جا سکے۔ نئے کرنسی نوٹوں کا اجرا اس مسئلے کا بہتر حل ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے معیشت کو دستاویزی کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ مرکزی بینک کے مطابق ملک میں اس وقت تقریباً 7680 ارب سے زائد مالیت کے نوٹ گردش میں ہیں جو کہ مہنگائی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ نئے کرنسی نوٹوں کے اجرا اور پرانے کرنسی نوٹوں کی مربوط نظام کے ذریعے واپسی سے مہنگائی کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ نئے کرنسی نوٹ کاغذ کے بجائے پلاسٹک کے بنانے سے بجلی کی بچت ہو سکتی ہے کیونکہ انہیں بار بار پرنٹ نہیں کرنا پڑتا‘ پلاسٹک کرنسی کی لائف پیپر کرنسی سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ اس کا وزن بھی پیپر کرنسی کی نسبت کم ہوتا ہے۔ پیپر نوٹ کی لائف جب ختم ہو تی ہے تو اسے جلا دیا جاتا ہے یا زمین میں ڈال دیا جاتا ہے لیکن پلاسٹک نوٹ کی لائف ختم ہونے پر اس پلاسٹک کو ری سائیکل کیا جا سکتا ہے۔ نئے کرنسی نوٹوں کے حوالے سے چند روز قبل سٹیٹ بینک نے ایک مقابلے کے بعد کچھ ڈیزائنز فائنل کیے تھے لیکن بعدازاں یہ اعلان کر دیا گیا کہ جو ڈیزائن مقابلہ جیتے ہیں انہیں پرنٹ نہیں کیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی کمپنیاں جو ڈیزائن دیں گی وہ پرنٹ کیے جائیں گے۔ سٹیٹ بینک کو ملکی ٹیلنٹ کو نظر انداز کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔