پاکستانی معیشت اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ قرضوں کا بوجھ کم ہوتا‘ پنشن کا پہاڑ سر ہوتا اور توانائی بحران حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ان مسائل میں اگر درجہ بندی کی جائے تو توانائی کے بحران کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ تمام مسائل کی جڑ ہے۔ مہنگی انرجی کے باعث صنعتیں نہیں چل رہیں‘ صنعتیں بند ہونے سے برآمدات نہیں بڑھ رہیں اور ملک کو ڈالر کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چین ‘ بھارت اور بنگلہ دیش سمیت سبھی ابھرتی ہوئی صنعتی معیشتوں نے سب سے پہلے انرجی مسائل پر قابو پایا اور اس کے بعد ہی ترقی کا سفر شروع ہوا تھا۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت انرجی کے مسائل حل کرنے کی طرف زیادہ توجہ دے۔ اس حوالے سے قدرت پاکستان کو مختلف مواقع فراہم کرتی رہی ہے لیکن شاید حکمران ان مواقع سے مطلوبہ فوائد نہیں اٹھا سکے۔ انرجی مسائل کا حل تیل اور گیس کی وافر مقدار اور کم قیمت دستیابی میں ہے۔
2019ء میں عوام کو بتایا گیا کہ سمندر میں کیکڑا ون کے مقام پر تیل اور گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ اس وقت کے وزیراعظم اور کابینہ سمیت پوری حکومت نے عوام کو امیدیں دلائیں بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان کو پچاس سال تک تیل اور گیس درآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن چند ماہ بعد ہی تمام امیدیں اس وقت دم توڑ گئیں جب یہ معلوم ہوا کہ کیکڑا ون میں جسے تیل اور گیس کا بڑا ذخیرہ سمجھا جا رہا تھا وہ محض پانی تھا۔آج کل پھر ایک خبر زیرِگردش ہے کہ پاکستان کے سمندر میں دنیا کے چوتھے بڑے گیس اور تیل کے ذخائر کا انکشاف ہوا ہے۔ تقریباً تین سال کے عرصہ کی تحقیق کے بعد ان ذخائر کا علم ہوا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان ذخائر کے حوالے سے کوئی بھی دعویٰ کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔ یہ معاملہ ابھی ریسرچ کے مراحل میں ہے نہ کہ ذخائر کے تخمینے کے۔ آئل اینڈ گیس سیکٹر میں ریسرچ اور تخمینے میں بہت فرق ہوتا ہے۔پاکستان کے آئل اینڈ گیس سیکٹر میں دنیا کے بہترین انجینئرز موجود ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی آئل کمپنی آرامکو کو چلانے والے پاکستانیوں کی خدمات بھی حاصل کی جا رہی ہیں۔ اگر ریسرچ اور تخمینہ ایک ہی سمت میں چل رہے ہوں اور ذخائر ڈھونڈنے میں سو فیصد کامیابی مل جائے تب بھی ان سے فائدہ اٹھانے میں پانچ سے چھ سال لگ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان ذخائر کو بروئے کار لانے کے لیے کثیر وسائل کی بھی ضرورت ہے۔ ذخائر کا تعین کرنے کے بعد ڈرلنگ کے مرحلے تک پہنچنے کے لیے بھی چالیس سے پچاس کروڑ ڈالرز کی ضرورت پڑے گی۔ اس کے علاوہ ایک آف شور کنویں کے لیے پندرہ سے بیس کروڑ ڈالرز کا بجٹ درکار ہوتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس منصوبے میں ایک ارب ڈالرز کے فنڈ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لیے پاکستان نے سعودی عرب سے ایک ارب بیس کروڑ ڈالرز قرض کی درخواست کر رکھی ہے۔ پچھلا قرض واپس نہیں کیا جا رہا اور قرضوں کی ادائیگی مؤخر کرنے کی درخواست جمع ہے۔ لہٰذا تیل کے نئے ذخائر کی خبر کو بنیاد بنا کر پاکستان میں فوراً خوشحالی کی خبروں کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔
بسا اوقات حکومتی سطح پر اس طرح کی خبریں پھیلا کر سیاسی فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے بھی اس طرح کی خبریں لانچ کی جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے چند ماہ بعد ہی کیکڑا ون کی خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ اب موجودہ حکومت بننے کے چھ ماہ میں بعد سمندر میں نئے تیل و گیس ذخائر کی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ یہ سیاست ہے یا حقیقت‘ اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بڑے بڑے دعوے اور ان کے نتائج کے حوالے سے موجودہ حکومت کا ٹریک ریکارڈ بہتر نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب کوئی اچھی خبر بھی آتی ہے تو عوام کی اکثریت کوئی امید نہیں لگاتی۔ چند ماہ قبل سعودی سرمایہ کاروں کا ایک وفد پاکستان آیا تھا اور حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ بہت بڑی سرمایہ کاری ہونے والی ہے جبکہ نتائج مختلف رہے۔ پھر قطر اور متحدہ عرب امارات کی سرمایہ کاری کے دعوے ہوتے رہے لیکن کوئی مثبت نتیجہ ابھی تک سامنے نہیں آ سکا۔ گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے سو ارب ڈالرز کی بیرونی سرمایہ کاری کے دعوے کیے جارہے ہیں جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ سرمایہ کاری پچاس سال کی کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ حالات اس نہج پر آ چکے ہیں کہ پاکستان کی مثبت خبروں کو بھی بیرونی دنیا میں سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا‘ کیونکہ اعدادوشمار کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے حوالے سے ماضی کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے۔
اگر انرجی مسائل کی بات کریں تو اس کا فوری حل پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ایران نے پاکستان کو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے اٹھارہ ارب ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کا آخری نوٹس بھیج دیا ہے۔ ایران نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان یا تو گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرے یا معاہدے کے مطابق جرمانہ ادا کرے۔ اگر پاکستان دونوں کام نہیں کرتا تو ایران پیرس کی عالمی ثالثی عدالت میں اس معاملے کو اٹھا سکتا ہے۔ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ ایران بین الاقوامی عدالت میں کیس دائر کرنے جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر ایران اس ماہ عالمی ثالثی عدالت میں درخواست دائر نہیں کرتا تو پاکستان کے خلاف کیس دائر کرنے کا حق کھو دے گا۔ لہٰذا یہ معاملہ رواں مہینے ہی واضح ہو جائے گا۔ پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ امریکہ کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کرے اور بہتر ڈپلومیسی کے ذریعے گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنے کی راہ ہموار کرے۔ شاید پاکستانی حکام امریکہ کے سامنے اپنا کیس بہتر انداز میں پیش نہیں کر پا ئے۔ اگر پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل ہو جاتا ہے تو پاکستان کو روزانہ 750 ملین سے ایک بلین کیوبک فٹ تک گیس فراہم کی جا سکتی ہے۔ یہ گیس پاکستان کے انرجی مسائل کو بخوبی حل کر سکتی ہے اور ملک معاشی بحران سے نکل سکتا ہے۔ یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں ہے جتنا اسے بنایا جا رہا ہے۔ سابقہ نگران حکومت نے گیس پائپ لائن منصوبے کا پہلا فیز مکمل کرنے اور بلوچستان میں گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی تھی لیکن اس منصوبے پر پیشرفت نہیں ہو سکی۔ شاید حکومت یہ سوچتی ہے کہ اگر یہ منصوبہ شروع کیا تو امریکہ اور یورپ کی ناراضی مول لینا پڑ سکتی ہے جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف پاکستان کو قرض نہیں دے گا اور ڈیفالٹ کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ معاملہ عالمی ثالثی عدالت میں چلا جاتا ہے تو اس کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ ایران اس منصوبے پر تقریباً دو ارب ڈالرز سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے ایران کو زرمبادلہ مل سکے گا اور عالمی پابندیوں کے اثرات کم ہو سکیں گے۔ معاہدے میں جرمانے کی شق موجود ہے جس پر پاکستانی حکمرانوں نے دستخط بھی کر رکھے ہیں لہٰذا عالمی ثالثی عدالت سے اس کیس کا فیصلہ ایران کے حق میں آنے کے امکانات قوی ہیں۔ پہلے ہی ریکوڈک جیسے کیسز پاکستان کے گلے کی ہڈی بنے ہیں‘ اس کیس کا فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں مزیدمشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عالمی عدالت پاکستان کو جرمانہ کر دے۔یہ بھی ہو سکتا ہے ایران کسی سمجھوتے کے تحت جرمانہ لینے سے انکار کر دے لیکن اس کی بھی بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔ اگر یہ مسائل بہتر انداز میں یورپی ممالک اور امریکہ کے سامنے رکھے جائیں اور لابنگ کی جائے تو اس مسئلے کا بہتر حل سامنے آ سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے نیت کا صاف ہونا ضروری ہے۔