سعودی عرب اور پاکستان نے مختلف شعبوں میں 2.2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے 27 یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں۔ ایسا شاید پہلی مرتبہ ہوا کہ دونوں ممالک نے پاکستان میں ایک ہی تقریب میں 27 یادداشتوں پر دستخط کیے ہوں۔ اور ایسا بھی شاید پہلی مرتبہ ہوا کہ سرمایہ کاری سے تعلق رکھنے والے سعودی عرب کے 135 افراد اکٹھے پاکستان کے دورے پر آئے ہوں اور سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہو۔ اس لیے حکومت کی جانب سے اسے تاریخی سرمایہ کاری کہا جا رہا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سرمایہ کاری کے بعد پاکستان ترقی کی منازل طے کرنے لگے گا؟ تقریباً ایک سال کی کوششوں کے بعد پاکستانی معیشت کے اعداد وشمار مثبت آنا شروع ہوئے ہیں۔ مطلوبہ سیاسی استحکام تو نہیں آ سکا لیکن سیاسی صورتحال ڈیڑھ سال پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوئی ہے۔ اگر کسی چیز کی کمی تھی تو وہ بیرونی سرمایہ کاری کی تھی۔ معاشی اشاریے بہتر ہونے کی وجہ سے دوست ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کرنے لگے ہیں اور سعودی عرب اس سلسلے کی پہلی کڑی ثابت ہو سکتا ہے۔ سعودی سرمایہ کاری سے پاکستان ترقی کرے گا یا نہیں‘ اس بارے کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا البتہ جس طرح حکومت اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کام کر رہے ہیں‘ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ معیشت درست سمت میں چل پڑی ہے۔ سرکار جو دعوے کر رہی ہے انہیں پورا بھی کر رہی ہے۔ ڈالر کو کنٹرول کرنے‘ مہنگائی کم کرنے‘ شرح سود کم کرنے‘ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کے وعدے پورے کر دیے گئے ہیں اور اب سرمایہ کاری بھی آنے لگی ہے۔ شاید یہ کہنا چاہیے کہ اگر سیاسی سطح پر استحکام رہا تو پاکستان ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے کیونکہ معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے۔
سعودی عرب خانیوال میں دس ہزار ایکٹر رقبے پر کارپوریٹ فارمنگ میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس سے زراعت میں جدت لانے میں مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت کے پنجاب میں فی ایکڑ پیداوار پاکستان کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔ سعودی سرمایہ کاری کے نتیجے میں جدید مشینری اور بیجوں سے ملکی کسان بھی مستفید ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب کے تعمیراتی منصوبوں میں پاکستان کی خدمات لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ سعودی عرب تعمیراتی میٹریل کے لیے پوری دنیا کواگلے سالوں میں 1.8 کھرب ڈالر کے ٹھیکے دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پاکستان میں تیار کردہ تعمیراتی سامان سعودی عرب کو برآمد کیا جا سکتا ہے۔ سعودی سرمایہ کار پاکستان کے سرجیکل سامان کی تیاری سے بھی متاثر ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ شراکت داری کرکے سعودی عرب اور پاکستان میں سرجیکل سامان کی فیکٹریاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور ایک کمپنی کے ساتھ 60 لاکھ ڈالرز کا معاہدہ بھی کیا گیا ہے۔ اس سے سرجیکل سامان کی صنعت کو تقویت مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ آئی ٹی‘ ٹیکسٹائل‘ آئل اینڈ گیس سمیت دیگر شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے جس سے ملکی معیشت مضبوط ہو گی۔ دیگر ممالک سے بھی سرمایہ کاری اور تجارتی معاہدے ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں 60 افراد کا پاکستانی وفد روس گیا اور بارٹر تجارت کے معاہدے کیے۔ ملائیشیا کے وزیراعظم پاکستان آئے تو اس دوران بھی چار اہم تجارتی معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ اب چینی وزیراعظم پاکستان آ رہے ہیں اور تقریباً 30 سے زیادہ معاہدوں پر دستخط ہونے کی امید ہے۔ اگر ان معاہدوں پر عملدرآمد ہو جاتا ہے تو پاکستان کے لیے ترقی کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
بیرونی سرمایہ کاری کے ساتھ اب بنیادی مسائل کے حل پر کام ہوتا بھی نظر آ رہا ہے۔ ملک میں مہنگی بجلی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس حوالے سے پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کر دیے گئے ہیں‘ اوریہ ابھی ابتدا ہے۔ اس وقت ملک میں تقریباً 101 آئی پی پیز کام کر رہے ہیں‘ پانچ کے ساتھ معاہدے ختم کرنے سے باقی 96 آئی پی پیز رہ جائیں گے۔ جن پانچ کمپنیوں سے معاہدے ختم کیے گئے ان کے معاہدوں کی مدت دو‘ تین سال میں ختم ہو رہی تھی۔ اگر حکومت معاہدے ختم نہ کرتی تو آئندہ چند سال میں وہ خود ہی ختم ہو جاتے۔ البتہ اب موجودہ آئی پی پیز میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور ان کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے۔ ان معاہدوں کے ختم ہونے سے فی یونٹ تقریباً 70 پیسے کمی آ سکتی ہے۔ اس سے شاید عوام کو مطلوبہ ریلیف نہ ملے لیکن امید ہے کہ اس طرح کے مزید اقدامات کے لیے راستے کھل سکتے ہیں۔ اگر حکومت دس روپے فی یونٹ تک بجلی سستی کرنا چاہتی ہے‘ جیسا کہ وفاقی وزیر توانائی نے عندیہ دیا ہے‘ تو سب سے پہلے پاور ہولڈنگ لمیٹڈ کے 3.23 روپے فی یونٹ چارجز ختم کرے۔ آئی پی پیز کو ادائیگیاں کرنے کے لیے بینکوں سے سود پر قرض لیا جاتا ہے‘ اس سود کی ادائیگی کے لیے 3.23 روپے فی یونٹ عوام سے وصول کیا جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر سی پیک معاہدوں کی ری پروفائلنگ کی جائے تو تقریباً تین روپے فی یونٹ تک بچت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح سردیوں میں بجلی کا استعمال تقریباً 13 ہزار میگاواٹ تک ہوتا ہے‘ اگر اسے معمولی سا بڑھا دیا جائے تو کھپت بڑھنے سے کپیسٹی چارجز میں کمی آئے گی اور تین سے چار روپے فی یونٹ بچت ہو سکتی ہے۔ اس طرح تقریباً 10 روپے فی یونٹ تک بجلی سستی کی جا سکتی ہے۔ شنید ہے کہ اکتوبر کے آخر میں انڈسٹری کے لیے بجلی کا ریٹ کم کیا جا سکتا ہے جس سے مہنگائی کی لہر میں کمی آنے کی توقع ہے۔ تاہم ان حالات میں مہنگائی بڑھانے کے لیے مافیاز متحرک ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہر سال انہی مہینوں میں شوگر انڈسٹری والے آستین چڑھا لیتے ہیں اور غلط اعداد وشمار ظاہر کر کے چینی برآمد کر دی جاتی ہے اور پھر کرشنگ سیزن سے ڈیڑھ دو ماہ قبل چینی کی قلت ہو جاتی ہے‘ جس دوران ریٹ بڑھا کر پیسہ کمایا جاتا ہے۔ اس سال بھی ایسی کارروائی ڈالی جا سکتی ہے۔کابینہ نے پانچ لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ ایف بی آر‘ صوبائی کین کمشنرز اور پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں چینی کی ماہانہ کھپت پانچ لاکھ 64 ہزار ٹن ہے جبکہ برآمد کے بعد تین لاکھ 36 ہزار ٹن چینی بچے گی جس سے کرشنگ سے قبل دو ماہ کے لیے چینی کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔ یعنی حسبِ معمول چینی کو مہنگا کر کے پیسہ بنایا جائے گا اور ماضی کی طرح احتساب بھی نہیں ہوگا۔ وزیراعظم کو ان معاملات پر بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ مہنگائی کو دوبارہ بڑھنے سے روکا جا سکے۔
اس وقت ایف بی آر خاصا متحرک دکھائی دے رہا ہے۔ نئے چیئرمین ایف بی آر کے بیانات اور کچھ فیصلے متاثر کن ہیں اور ان کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ جولائی سے دس اکتوبر تک تقریباً دس لاکھ نئے ٹیکس فائلرز سسٹم میں داخل ہوئے اور پہلی مرتبہ ٹیکس فائلرز کی تعداد 42 لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔ پچھلے سال یہ تعداد 21 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ کئی برس پرانا مطالبہ مان لیا گیا ہے جس کے تحت پالیسی بنانا اور اس پر عمل درآمد کرانا اِن لینڈ ریونیو سروسز کے بجائے ٹیکس پالیسی آفس کی ذمہ داری ہو گی جو براہِ راست وفاقی وزارتِ خزانہ کو جوابدہ ہو گا۔ اپنے لیے خود ہی پالیسی بنانا‘ خود ہی اپنے اہداف طے کرنا اور خود ہی کارکردگی رپورٹ جاری کرنا ایک فرسودہ نظام کی علامت تھا۔ امید ہے اس سے آڈٹ‘ آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور دیگر سہولتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا کر ٹیکس نظام کو مضبوط کیا جا سکے گا۔ وزیر خزانہ کے مطابق کچھ بڑی کمپنیاں تقریباً 3400 ارب کے ٹیکس فراڈ میں ملوث ہیں۔ ان کی پکڑ وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ عام آدمی‘ خصوصی طور پر تنخواہ دار طبقے پر سے ٹیکس بوجھ کم کیا جا سکے۔