آئی ایم ایف کا وفد آج پاکستان پہنچ رہا ہے۔ جب آئی ایم ایف نے سات ارب ڈالر کے قرض پیکیج کی منظوری دی تھی تو اس وقت حکمران خوشیاں منا رہی تھیں لیکن معاشی ماہرین اس خدشے کا اظہار کررہے تھے کہ اصل امتحان قرض منظور ہونے کے بعد شروع ہو گا۔ ابھی قرض منظور ہوئے ڈیڑھ ماہ ہی ہوا ہے اور آئی ایم ایف ٹیم ہنگامی طور پر پاکستان پہنچ رہی ہے حالانکہ شیڈول کے مطابق اسے مارچ 2025ء میں آنا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے اپنی استطاعت سے بڑے وعدے اور معاہدے کر لیے تھے اور اب ٹیکس اہداف اور ڈھائی ارب ڈالر کا قرض حاصل نہ کر سکنے کی وجہ سے مالیاتی ادارے کے حکام ہنگامی دورے پر آ رہے ہیں۔ 13ہزار ارب روپے کا ٹیکس ہدف حاصل کرنا آسان کام نہیں۔ آئی ایم ایف یہ حقیقت بخوبی جانتا ہے‘ اس لیے عقاب کی نظر رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کے ساتھ بلند اہداف پر قرض معاہدہ کرنے کے بعد آئی ایم ایف بھی تنقید کی زد میں ہے اور اس کی کریڈیبلٹی پر سوال اٹھائے جانے لگے ہیں۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ آئی ایم ایف وفد اپنی ساکھ بچانے کیلئے آ رہا ہے۔ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا انحصار حکومت کی بہتر حکمت عملی پر ہے۔
رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں تقریباً 190 ارب روپے کم ٹیکس اکٹھا ہوا ہے؛چنانچہ تقریباً پانچ سو ارب روپے کا منی بجٹ آ سکتا ہے۔ اگرچہ ایف بی آر کو اس سال پانچ نومبر تک پچھلے سال کے مقابلے میں 76 فیصد زیادہ ٹیکس گوشوارے موصول ہوئے ہیں مگر اس ریکارڈ اضافے کے باوجود ٹیکس اہداف حاصل نہ ہونا ایف بی آر کی ناکامی ہے جس کا بوجھ عام آدمی پر ڈالنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ جمع کرائے گئے گوشواروں میں 38 فیصد نے صفر یعنی Nilریٹرنز فائل کی ہیں۔ اگر صرف ان 38 فیصد کا آڈٹ کیا جائے تو شاید منی بجٹ لانے کی ضرورت نہ پڑے۔ تنخواہ دار طبقہ اس وقت تاجروں سے تقریباً 1550 فیصد زیادہ ٹیکس ادا کر رہا ہے اور اس طبقے کی ٹیکس ادا کرنے کی شرح پاکستانی برآمد کنندگان سے بھی زیادہ ہے۔ انکم ٹیکس ریونیو کا تقریباً 40 فیصد تنخواہ دار طبقہ ادا کر رہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان امریکہ اور برطانیہ کے ٹیکس ریٹ سے بھی آگے بڑھ گیا ہے۔ ان حالات میں اگر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا مزید بوجھ ڈالا گیا تو ان کے مالی مسائل بڑھ سکتے ہیں اور شدید عوامی رد عمل بھی سامنے آ ئے۔
دوسرا اہم مدعا دوست ممالک سے ڈھائی ارب ڈالرز کا قرض حاصل نہ کرسکنا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق پاکستان کے بنیادی معاشی اشاریے بہتر ہونے کی وجہ سے بیرونی قرض کی ضرورت کم ہے۔ اب کتنا قرض حاصل کرنا ہو گا اس کا فیصلہ آئی ایم ایف ٹیم اور وزارتِ خزانہ مل کر کریں گے۔ پاکستان نے پہلے ہی سعودی عرب سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر ادھار تیل کے لیے درخواست کر رکھی ہے۔ یہ سہولت پہلے بھی موجود تھی اب اسے بڑھانے پر بات ہو رہی ہے۔ ایک اہم شخصیت نے چند دن قبل سعودی عرب کا دورہ کیا ہے‘ ممکنہ طور پر اس دورے میں بھی ادھار تیل کی سہولت پر بات ہوئی۔ اس کے علاوہ بیرونی کمرشل بینکوں سے بھی ایک ارب ڈالر قرض کی درخواست کی گئی ہے لیکن اب تک کامیابی نہیں مل سکی۔ قرض حاصل کرنے میں وزارتِ خزانہ کی خاصی مہارت ہے اور قوی امکانات ہیں کہ بیرونی قرض حاصل کر لیا جائے گا۔ البتہ چین سے مزید قرض لینے میں مشکلات آ سکتی ہیں کیونکہ پہلے بھی تین ارب 40 کروڑ ڈالرز کے قرض رول اوور کرنے کی درخواست کی گئی جو منظور کر لی گئی‘ اب مزید مدد ملنا مشکل ہے۔ دوسری جانب وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے بیان نے چینی حکام کو ناراض کر دیا ہے اور شنید ہے کہ وزیراعظم کو یہ معاملہ ٹھنڈا کرنے کے لیے چینی سفارتخانے جانا پڑا۔ وزیرخزانہ بھی یہ بیان دے چکے ہیں کہ دوست ممالک سے ہر بار قرض رول اوور نہیں کروا سکتے۔ اس معاملے کے بہتر حل کیلئے سفارتکاری ذرائع مضبوط کیے جانے کی زیادہ ضرورت ہے۔ ٹیکس اہداف عوام کیلئے زیادہ بڑا مسئلہ ہیں کیونکہ حکومت سیلز ٹیکس بڑھا کر یا تنخواہوں پر ٹیکس لگا کر اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرے گی‘ لیکن اس سے عوام مزید مہنگائی کی چکی میں پسیں گے۔
آئی ایم ایف وفد کے ہنگامی دورے کو امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے تناظر میں بھی دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ ڈیموکریٹ حکومت ہو یا ریپبلکن‘ امریکہ پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے کنٹرول کرتا رہا ہے۔ البتہ جو بائیڈن انتظامیہ نے آئی ایم ایف ڈیل میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ وزیراعظم نے اس پر امریکہ کا شکریہ بھی ادا کیا‘تاہم صدر ٹرمپ نے ماضی میں آئی ایم ایف ڈیل میں پاکستان کا ساتھ نہیں دیا تھا اور ان کے دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشیدہ رہے۔ اب ایک بار پھر ٹرمپ انتظامیہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے پاکستان پر دباؤ بڑھا سکتی ہے اور سخت مطالبات سامنے آ سکتے ہیں۔ چین اور ایران ڈونلڈ ٹرمپ کے ممکنہ بڑے اہداف ہیں۔ ڈونلڈٹرمپ بارودی جنگوں کے خلاف ہیں لیکن تجارتی جنگ کے بڑے حامی ہیں۔ ٹرمپ کی پالیسیوں میں چین اور ایران پر اقتصادی پابندیاں لگانا سرفہرست ہو گا۔ اگر پاکستان اس حوالے سے کچھ مدد کر سکا تو امریکی سپورٹ پاکستان کو مل سکتی ہے ورنہ معاشی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ فی الحال ملکی معاشی اشاریے مثبت ہیں مگر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے پاکستان کی مارکیٹ پر منفی اثر چھوڑا مگر جلد ہی مارکیٹ سنبھل گئی اور اب مارکیٹ مستحکم ہے۔ اگر پاکستان کے معاشی اشاریے یونہی بہتر ہوتے رہے تو امریکی دباؤ کو ہینڈل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اپنی الیکشن مہم میں صدر ٹرمپ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ چین کی درآمدات پر 60 فیصد اور دیگر ممالک کی درآمدات پر 10 فیصد ٹیکس لگائیں گے۔ اس کے علاوہ جن ممالک نے چین میں فیکٹریاں لگا رکھی ہیں ان پر اضافی ڈیوٹی بھی عائد ہو گی۔ پاکستان کی کُل برآمدات میں سے 20 فیصد امریکہ کو جاتی ہیں۔ اگر دس فیصد ڈیوٹی بڑھا دی گئی تو پاکستانی برآمد کنندگان کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ پہلے ہی مہنگی بجلی کے باعث فیصل آباد میں 125 ٹیکسٹائل ملیں بند ہو چکی ہیں۔ حکومت نے تین ماہ کے لیے بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کا اعلان تو کیا ہے مگر ایسے ریلیف سے وقتی فائدہ ہی حاصل کیا جا سکتا ہے‘ لانگ ٹرم پالیسی نہیں بنائی جا سکتی۔ البتہ چین پر اضافی ڈیوٹی لگنے کا فائدہ پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ہو سکتا ہے۔
جس دن ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن جیتے اس دن ایرانی کرنسی تاریخ کی کم ترین سطح پر آ گئی تھی۔ ایران کے معاملے پر پاکستان کو احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ امریکہ ایران پر مزید پابندیاں لگا سکتا ہے لیکن پاکستان ایران کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے ایران پاکستان کو 18 ارب ڈالر جرمانے کا آخری نوٹس بھیج چکا ہے۔ امریکہ میں بہتر لابنگ کر کے یہ معاملہ حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ پرویز مشرف اور آصف زرداری نے امریکہ کی رضامندی سے اس منصوبے پر کام آگے بڑھایا تھا۔ مالی سال 2024ء میں پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ) کا چار فیصد ہے۔ پچھلے نو ماہ میں یہ شرح برقرار رہی ہے۔ ٹرمپ دور میں کورونا کے لیے 80 کروڑ ڈالرز پاکستان کو دیے گئے تھے لیکن اُس وقت امریکی افواج افغانستان میں تھیں۔ اب حالات مختلف ہیں‘ لہٰذا مستقبل میں سرمایہ کاری یا امداد کے بارے میں کوئی دعویٰ کرنا قبل ازوقت ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی ہونے کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ جنگوں کو ختم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس سے دنیا میں امن آ سکتا اورتیل کی قیمتیں مزید کم ہو سکتی ہیں۔ مہنگائی کم ہونے کا فائدہ پاکستان کو پہنچ سکتا ہے۔