بالآخر وہ بخار اُتر گیا ہے جس میں کئی ہفتوں بلکہ مہینوں سے حکمران مبتلا تھے۔ اُنہوں نے اس تپ کی حدّت اور حرارت میں ساری قوم کو جلا رکھا تھا۔ باہر کی اقوام ہمارے حکمرانوں کو رشک بھری نگاہ سے دیکھتی ہوں گی کہ پاکستانی قوم کتنی خوش قسمت ہے کہ اسے جو حکمران ملے ہیں وہ شب زندہ داراور سحر خیز ہیں۔ ان اقوام کو کیا خبر کہ حکمرانوں نے راتوں کی نیند اور سکون کو خدمتِ عوام کے لیے نہیں بلکہ اپنے اقتدار کی مضبوطی اور طوالت کے لیے قربان کر رکھا تھا۔
ہفتوں پر محیط اس میراتھن کا مرکزی مقام جناب مولانا فضل الرحمن کی اسلام آباد والی رہائش گاہ تھی۔ مولانا کی ذات کئی روز تک مرجع خلائق بنی رہی۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے قائدین صبح و شام مولانا کے آستانے پر حاضری دیتے رہے‘ مگر یہ ساری حکومتی گھاتیں‘ ملاقاتیں اور مسکراہٹیں مولانا کو لُبھا نہ سکیں اور وہ اپنے مؤقف پر جم کر کھڑے رہے۔ مولانا نے نئے ترمیمی بل کے بارے میں 21اکتوبر کی اوّلیں ساعتوں میں قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس بل میں ہم نے کالے سانپ کے دانت توڑ کر زہر نکال دیا ہے۔ وہ زہر کیا تھا کہ جسے نکالنے کا مولانا نے دعویٰ کیا ہے؟
پہلی خفیہ آئینی ترمیم کو شب خون مارنے کے انداز میں پچھلی بار اسمبلی میں پیش کرنے کا حکومت نے دعویٰ کر رکھا تھا۔ وہ مولانا کی بلامشروط رضا مندی کیلئے تادیر کوشش کرتے رہے مگر مولانا کے فولادی عزم کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ لہٰذا رات گئے حکمرانوں کو قومی اسمبلی کا محاصرہ اٹھانا پڑا۔ اب ذرا اس زہر کی مختصر جھلک دیکھ لیجئے جس کا سراغ ہم نے گزشتہ خفیہ ترمیمی بل سے لگایا تھا۔
گزشتہ بل میں مخصوص اہداف کے حصول کیلئے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سے بڑھا کر 68 برس کر دینے کی تجویز تھی۔ دوسرا ایک نیا دستوری فیڈرل کورٹ بنایا جانا تھا۔ تیسرا‘ یہ کہ ججز کے تبادلے ایک سے دوسری جگہ ''حسبِ ضرورت‘‘ کرنے کی شق بھی شامل تھی تاکہ راہ پر نہ آنے والے ججز کو سبق سکھایا جا سکے۔ سب سے اہم دو باتیں تھیں‘ ایک الگ مستقل آئینی عدالت کا قیام۔ یہ ایک سات رکنی مجوزہ عدالت تھی جس کے چیف جسٹس کو وزیراعظم نے مقرر کرنا تھا۔ اسی طرح عام عدالت کے چیف جسٹس کی سینئر ججوں میں سے سلیکشن کا اختیار بھی وزیراعظم کو دے دیا گیا تھا‘ گویا پرانی آئینی ترمیم میں حکومت پاکستانی عدالتوں کو مصر اور ملوکانہ ریاستوں کی عدالتوں جیسا بنانا چاہتی تھی۔مولانا نے اس خفیہ ترمیمی بل کے کالے ناگ کے دانت توڑ دیے اور اس کا زہر نکال دیا ہے۔ مولانا نے نہ صرف زہر نکالا ہے بلکہ زہر کا تریاق بھی 20 اکتوبر اتوار کی شب کو ترمیمی بل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ آئینی عدالت کے قیام کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری بار بار دعویٰ کرتے تھے کہ یہ ضرور بنے گی جبکہ مولانا کا اصرار تھا کہ آئینی بینچ بنے گا۔ لہٰذا حکمرانوں کو مولانا کی بات ماننا پڑی اور اس طرح قوم نئی آئینی ترمیم کے زہر سے بچ گئی۔
شعر گوئی اور انہیں لہک لہک کر پڑھنا میاں شہباز شریف کا شیوہ رہا ہے مگر اتوار کو آخر شب جب تاروں کی لو پھیکی پڑ گئی تھی‘ میاں نواز شریف پر کچھ ایسا وجد طاری ہوا کہ انہوں نے بھی بڑے دکھ کے ساتھ ایوان میں عدلیہ کی عنایات کا تذکرہ اشعار کی زبانی کیا۔ میاں نواز شریف کے تصحیح شدہ اشعار سنیے اور سر دھنیے:
ناز و انداز سے کہتے ہیں کہ جینا ہو گا
زہر دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہو گا
جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں
جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہو گا
شب خون والی خفیہ ترمیم میں تو چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری خالصتاً وزیراعظم کی صوابدیدی بنا دیا گیا تھا مگر اب تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کا تین برس کیلئے تقرر وزیراعظم نہیں بلکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے 8 اراکینِ قومی اسمبلی اور چار سینیٹرز پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔ خفیہ ترمیم میں چیف جسٹس کی تعیناتی میں وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار بہت بڑا زہر تھا۔ حکومت کے جبڑوں سے عدالت کی رہائی کیلئے کئی ہفتوں پر مشتمل معرکہ آرائی کے دوران بعض قومی جماعتوں کا رویہ نہایت حیران کن رہا۔ جماعت اسلامی اور اس کے امیر حافظ نعیم الرحمن صاحب ہمیں بہت عزیز ہیں تاہم جب بقول حافظ صاحب کے آئینی ترمیم کی '' واردات‘‘ ہو رہی تھی اُس وقت وہ ہفتوں تک لاتعلق رہے اور اب ''واردات‘‘ کے بعد احتجاج کر رہے ہیں۔ چہ معنی دارد؟ پاکستان میں دستور سازی اور عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے جماعت اسلامی بہت بڑی سٹیک ہولڈر رہی ہے۔ 1948ء سے جماعت اسلامی نے دستور سازی اور نظامِ اسلام کے نفاذ کے لیے عوامی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا‘ اسی مہم کے نتیجے میں قراردادِ مقاصد بھی منظور ہوئی۔جماعت نے 1955ء تک اس مہم کو نہایت زور شور سے جاری و ساری رکھا۔ اسی جدوجہد کے نتیجے میں تمام رکاوٹوں‘ سازشوں اور بدنیتی کے باوجود اسمبلی نے 23مارچ 1956ء کو جمہوری آئین نافذ کر دیا۔ اسی آئین کے تحت 1959ء میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن ان انتخابات سے پہلے ہی 1958ء میں جنرل ایوب خان نے جمہوریت پر شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔
1973ء میں اسلامی و جمہوری متفقہ آئین بنوانے میں جماعت اسلامی کا قومی اسمبلی کے اندر اور باہر نہایت کلیدی کردار تھا مگر اب عدلیہ کے پَر کاٹنے کی مہم کے دوران جماعت اسلامی کی لاتعلقی اس کے لاکھوں مداحین کیلئے باعثِ حیرت ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کی مگر ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔ تاہم بیرسٹر گوہر نے برملا خفیہ آئینی ترمیم میں سانپ کے زہریلے دانتوں کو توڑنے میں مولانا فضل الرحمن کے کردار کی بہت تعریف کی۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق ممتاز وکلا حامد خان اور علی احمد کرد نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف وکلا تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے کہا: ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے ووٹ ڈلوا کر آئین کا حلیہ بگاڑا گیا ہے۔
یورپ و امریکہ سے میرے بعض دوست گاہے گاہے ہمیں اُس جمہوریت کا درس دیتے رہتے ہیں جو امریکہ و انگلستان میں بھی نہیں۔ آئینی ترامیم مہم کے دوران بلاول بھٹو زرداری ایک بات کی طرف کبھی جلی اور کبھی خفی انداز میں اہلِ نظر کی توجہ مبذول کرواتے رہے کہ ہمیں اُس سیاسی سپیس کے اندر رہنا ہوتا ہے جو یہاں میسر ہے۔ ہمارا بلاول صاحب کے پہلے خفیہ آئینی ترمیمی بل سے تو مکمل اختلاف تھا مگر اُن کی سیاسی سپیس والی بات کسی حد تک قابلِ غور ہے۔ آئینی ترامیم کی منظوری کیلئے دوسری پارٹیوں کے سینیٹروں اور اراکینِ اسمبلی کو توڑنے کیلئے جو حربے آزمائے گئے‘ وہ نہایت قابلِ مذمت ہیں۔
26ویںآئینی ترمیم میں یکم جنوری 2028ء تک سود کے مکمل خاتمے کا عہد کیا گیا ہے۔ دہائیوں سے حکمران پارٹیاں دعویٰ کرتی رہیں کہ مظلوم کو گھر کی دہلیز پر سستا اور فوری انصاف ملے گا مگر آج تک ایسا نہ ہو سکا۔ موجودہ آئینی ترمیمی بل میں سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کی فیس 50 ہزار سے بڑھا کر 10لاکھ کر دی گئی ہے۔ اس زہریلی شق کا ترمیمی بل سے فوری اخراج بہت ضروری ہے۔ اگرچہ یہ منظور ہونے والا بل کسی اعتبار سے بھی آئیڈیل نہیں مگر خفیہ ترامیم والے بل کے ناگ میں موجود زہر کو بڑی حد تک نکالنے میں مولانا فضل الرحمن کا کردار لائقِ تحسین ہے۔