وزیراعظم شہباز شریف نے ایک حالیہ خطاب میں‘ جس نے فوری طور پر قومی اور بین الاقوامی حلقوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی‘ یہ اعلان کیا کہ ہمیں اب عالمی مالیاتی فنڈ سے مزید قرض لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بیان‘ جو میڈیا اور مختلف مالیاتی فورمز پر زیر بحث رہا‘ پاکستان کی اقتصادی سمت میں ایک اہم تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگرچہ یہ اعلان پاکستان کی مالی آزادی کی امید کا احساس لاتا ہے لیکن اس کے اثرات بہت دور رس ہیں جس میں مثبت اور منفی دونوں پہلو شامل ہیں۔
تاریخی طور پر دیکھیں تو پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ تعلق کافی پرانا ہے کیونکہ پاکستان مختلف معاشی بحرانوں کے دوران آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیجز پر انحصار کرتا رہا ہے۔ آئی ایم ایف اُن ممالک کو قلیل مدتی مالی امداد فراہم کرتا ہے جنہیں ادائیگیوں کے شدید توازن کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے‘ اور پاکستان کا مالیاتی خسارے اور زرِمبادلہ کے کم ذخائر کے ساتھ ان ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ تاہم یہ قرضے سخت شرائط کے ساتھ آتے ہیں جن میں حکومتی اخراجات میں کمی‘ ٹیکسوں میں اضافہ اور سرکاری اداروں کی نجکاری جیسی شرائط شامل ہوتی ہیں۔ ان شرائط کا مقصد ملک میں معاشی استحکام لانا ہے لیکن ان میں سے اکثر مقامی آبادی کیلئے تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔
وزیراعظم کے بیان کو آئی ایم ایف کے قرض کے چکر سے نکلنے کا باضابطہ اعلان کہا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود کیا پاکستان واقعی اب آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیجز سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہے‘ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ اس طرح کی تبدیلی کے اثرات کا زیادہ تر انحصار حکومت کی معاشی اصلاحات کو نافذ کرنے کی صلاحیت پر ہوگا جو ملکی محصولات کو مضبوط کرسکیں‘ برآمدات کو بڑھاسکیں اور افراطِ زر کو کنٹرول کرسکیں۔ آئی ایم ایف پر انحصار ختم ہونے کا امکان قومی فخر اور خود انحصاری کے مضبوط احساس کو ظاہر کرتا ہے جس کا مقصد ملک کو ایک آزاد معاشی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ لیکن یہ راستہ غیرمعمولی مالیاتی نظم و ضبط اور خاطر خواہ معاشی اصلاحات کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ قرضوں کے جال اور مالیاتی عدم استحکام سے بچا جا سکے‘ جن سے اب تک ملکی معیشت دوچار ہے۔ لیڈر شپ کے مطابق یہ ملک کی معاشی آزادی کا سوال ہے جس کی ملک کو اشد ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کے قرضوں کے بغیر ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے حکومت کو ملکی وسائل کو متحرک کرنے‘ صنعتی ترقی اور برآمدی نمو کے ذریعے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اس میں ممکنہ طور پر ٹیکس پالیسیوں میں اصلاحات شامل ہیں تاکہ ٹیکس نہ دینے والے شعبوں سے آمدنی حاصل کی جا سکے‘ مالیاتی خسارے کو کم کیا جا سکے اور مقامی اور غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے۔ ایک اور اہم چیلنج آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنا ہو گا۔ پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرض اس کی جی ڈی پی کے تقریباً 74فیصد کے برابر ہے‘ جس کی وجہ سے حکومت کے پاس ترقیاتی منصوبے پر خرچ کرنے کی گنجائش مزید محدود ہو گئی ہے۔ اس قرض کی ادائیگی کا بوجھ کسی حد تک آئی ایم ایف کے پہلے قرضوں سے کم ہو چکا ہے‘ جو قرض کی ادائیگی اور کرنسی کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر حکومت کو اخراجات کو کنٹرول کرنے‘ برآمدات کو بڑھانے اور ترسیلاتِ زر کی حوصلہ افزائی کے لیے سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ بصورت دیگر ڈیفالٹ اور مالی عدم استحکام کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ سکتا ہے۔علاوہ ازیں پاکستان کے آئی ایم ایف کے قرض پروگرام سے نکلنے سے مقامی مالیاتی منڈیوں میں غیریقینی کی لہر پیدا ہو سکتی ہے۔ سرمایہ کار‘ ملکی اور غیر ملکی‘ دونوں اکثر آئی ایم ایف کی حمایت کو کسی ملک کی اقتصادی پالیسیوں کیلئے منظوری کی مہر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس تصدیقی مہر عدم موجودگی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو کم کر سکتی ہے جس سے سرمائے کا اخراج اور کرنسی کی قدر میں کمی واقع ہو سکتی ہے‘ یہ دونوں ہی پاکستان کی کمزور معیشت پر فوری اثر ڈال سکتے ہیں۔ ایک اور فوری نتیجہ پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے افراطِ زر کے دباؤ کو روکنے کے لیے مالیاتی پالیسی کو سخت کرنا ہو سکتا ہے۔ مرکزی بینک کرنسی کو مستحکم کرنے کے لیے شرح سود میں اضافے پر مجبور ہو سکتا ہے جس سے کاروبار اور صارفین کے لیے قرض مزید مہنگا ہو جائے گا۔ اس سے معاشی نمو پر اثر پڑ سکتا ہے‘ خاص طور پر چھوٹے کاروباری حضرات کے لیے جو اپنے کاروباروں کو بڑھانے کیلئے سستے قرضوں پر انحصار کرتے ہیں۔پھر بھی آئی ایم ایف کے قرضوں کے بغیر معیشت کو مستحکم کرنے کا جرأت مندانہ اقدام مالیاتی احتساب میں بھی نئے سرے سے عوامی دلچسپی کو جنم دے سکتا ہے۔ شہری حکومتی اخراجات کی مضبوط نگرانی کا مطالبہ کر سکتے ہیں‘ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ عوامی فنڈز کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ یہ اقدام حکومت کو فضول اخراجات میں کمی کرنے کی بھی ترغیب دے سکتا ہے جو طویل مدتی معاشی استحکام کے حصول کے لیے ایک ضروری قدم ہے۔ آئی ایم ایف کے بغیر ابتدائی انتظامی مدت ہنگامہ خیز ہو سکتی ہے لیکن اگر اچھی طرح سے انتظام کیا جائے تو طویل المدتی انعامات عارضی تکلیف سے کہیں زیادہ ہیں۔
پاکستان کی معیشت برآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے‘ خاص طور پر ٹیکسٹائل اور زراعت کے شعبوں میں۔ آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر ان صنعتوں کو تقویت دینے کے لیے پاکستان کو ان شعبوں کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہو گا‘ اپنے بنیادی ڈھانچے کو جدید بنانا ہوگا اور سازگار تجارتی معاہدے کرنا ہوں گے جبکہ حکومت تاریخی طور پر کم برآمدی نمو کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں سے ہٹنے سے برآمدی تنوع کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے‘ پاکستان کا تجارتی توازن بہتر ہو سکتا ہے اور اس کے غیر ملکی ذخائر میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
معاشی خود انحصاری کی خاطر اٹھایا جانے والا یہ پہلا قدم انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے اعلیٰ نمو والے شعبوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی اور سیاحت جیسے ترقی کی اعلیٰ صلاحیت کے حامل شعبوں میں وسائل کی منتقلی سے پاکستان روایتی برآمدی شعبوں پر انحصار کو کم کر سکتا ہے اور اپنی معیشت کو اندر سے مضبوط کر سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے کافی سرمایہ کاری اور ہنر مند افرادی قوت کی ضرورت ہے جو اضافی مالی امداد کے بغیر مشکل ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کی عدم موجودگی میں پاکستان اپنی مالیاتی پالیسیاں زیادہ آزادی سے تشکیل دے سکتا ہے تاہم‘ موجودہ بلند افراطِ زر کی شرح کو دیکھتے ہوئے خوراک اور توانائی کی قیمتوں کا انتظام ایک پیچیدہ کام ثابت ہو گا۔
آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر حکومت کو افراطِ زر پر قابو پانے کے لیے مزید سخت اقدامات کی ضرورت پڑ سکتی ہے جیسے زرعی پیداوار میں اضافہ کرکے اور درآمدات پر انحصار کم کرکے غذائی تحفظ کو بڑھانا۔ کامیاب ہونے کی صورت میں یہ حکمت عملی خوراک کی قیمتوں کو مستحکم کر سکتی ہے لیکن اس پر عملدرآمد میں وقت لگ سکتا ہے‘ اس دوران مہنگائی عام پاکستانیوں کی قوتِ خرید کو متاثر کرتی رہے گی۔
آئی ایم ایف پر انحصار کم کرنے کو پاکستان میں اس وقت ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے لیکن یہ فیصلہ سماجی بہبود کے پروگراموں پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگراموں میں اکثر صحت‘ تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈنگ شامل بھی ہوتی ہے۔ ان فنڈز کے بغیر حکومت کو اپنے اخراجات کو میں کمی کرکے کے ان شعبوں پر خرچ کرنا ہو گا۔ قرض کی ادائیگی یا کرنسی کو مستحکم کرنے کے لیے فلاحی پروگراموں کے فنڈز میں بھی کمی کرنا ہو گی۔ (جاری)