حیرت انگیز اتحادوں اور غیر روایتی سفارت کاری کے اس دور میں کوئی ایسے منظر نامے کا تصور کر سکتا ہے جہاں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘ جو اَب امریکی سیاسی سٹیج پر دوبارہ اُبھر چکے ہیں‘ پاکستان کے مشکلات میں گھرے سابق وزیراعظم کے لیے مدد کا ہاتھ بڑھانے پر غور کریں؟ سابق وزیراعظم عمران خان‘ جنہیں پاکستان میں نمایاں عوامی حمایت حاصل تھی‘ اس وقت قید میں ہیں اور نو منتخب امریکی صدر کی غیر روایتی سیاسی تاریخ اور عالمی سطح پر بعض رہنماؤں کے ساتھ ان کے منفرد تعلق کو دیکھتے ہوئے کچھ لوگ اس توقع کا اظہار کر رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ حلف اٹھانے کے بعد اس حوالے سے کوئی قدم اٹھائیں گے‘ مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ بانی پی ٹی آئی کو مشکل سے نکالنے میں مدد فراہم کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟ یہ توقع بطور امریکی صدر غیر روایتی ضرور ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ کی افتادِ طبع کے عین مطابق بھی ہے۔
صدر ٹرمپ اور خان صاحب میں کئی مشترک خصوصیات ہیں۔ پاپولسٹ اپیل‘ خود ساختہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاسی بیانیہ اور قوم پرستانہ بیان بازی کی طرف جھکاؤ۔ ہر ایک نے اپنے حامیوں میں پُرجوش وفاداری کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اکثر ددنوں رہنما اپنے آپ کو اپنی قوم کے ''حقیقی‘‘ محافظ کے طور پر پیش کرتے رہے‘ جو اشرافیہ کے خلاف ہے۔ ٹرمپ کی میڈیا قابلیت اور غیر روایتی اندازِ بیان‘ خان صاحب کے 'کرشمے‘ اور خودمختاری‘ آزادی اور شفافیت پر زور دینے سے اچھی طرح میل کھاتا ہے۔ تاہم‘ صدر ٹرمپ کے برعکس‘ جنہوں نے اپنی دولت اور سیاسی روابط سے کافی اثر ورسوخ حاصل کیا ہے‘ خان صاحب کی موجودہ پوزیشن کہیں زیادہ کمزور ہے۔ مقتدر حلقوں کے ساتھ ان کے تعلقات اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں اور ان کی وجہ سے ان کو قانونی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا اور قید بھی ہوئی جو ابھی تک جاری ہے۔ اگر صدر ٹرمپ رضامند ہوتے ہیں تو پاکستان جیسے پرانے اتحادی سے ان کی اپیل یا ان کا وسیع تر سفارتی اثر ورسوخ‘ پاکستان کی داخلی سیاسی صورتحال میں ایک نیا طاقتور عنصر متعارف کرا سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ کا سفارتی ٹول باکس کیا ہے‘ اس بات کا دار ومدار اس بات پر ہو سکتا ہے کہ عالمی تعلقات میں ان کی ترجیحات کیا ہیں اور ان کی خارجہ پالیسی کیا ہو گی۔ بین الاقوامی معاملات پر ان کا اثر ورسوخ آنے والے مہینوں میں تیز ہو گا۔ ایک سابق صدر اور نمایاں سیاسی شخصیت کے طور پروہ اب بھی مختلف امریکی اداروں میں اپنا اثر ورسوخ رکھتے ہیں اور سفارتی ذرائع سے حکومتِ پاکستان پر دباؤ ڈال کر یا بعض اتحادیوں کی لابنگ کر کے اپنے اثر ورسوخ کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے لیے ایک راستہ مقتدرہ کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے لیے اپنے کاروبار پر مبنی سفارتی انداز کو استعمال کرنا ہو سکتا ہے۔ وہ یقین دہانی کرا سکتے ہیں کہ خان صاحب کی رہائی کی صورت میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو فائدہ ہو سکتا ہے‘ خاص طور پر اگر یہ اقدام جنوبی ایشیا میں وسیع تر استحکام کی کوششوں سے ہم آہنگ ہو۔ پاکستانی قیادت کے ساتھ ٹرمپ کے ماضی کے تعلقات انہیں سیاسی عملیت پسندی اور علامتی اشاروں کے درمیان ایک منفرد توازن قائم کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ اس میں اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ نجی بات چیت بھی ہو سکتی ہے‘ جس سے خان صاحب کو ملک کے اندر سیاسی تقسیم کو تیز کرنے کے بجائے زیادہ فعال اور کنٹرولڈ سیاسی کردار کی اجازت دینے کے فوائد مل سکتے ہیں۔
لیکن یہ سب اس صورت میں ہے جب بطور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خان صاحب کی رہائی کے لیے عملی کوشش کریں۔اصل سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اور ٹرمپ کے درمیان مفاہمت ہو بھی سکتی ہے یا نہیں۔ صدر ٹرمپ اور بطور وزیراعظم‘ خان صاحب کے مابین تعلق افغان جنگ کے پس منظر میں تھا۔ افغانستان کا مسئلہ طوالت اختیار کر چکا تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے قوم پرست سیاستدان اس حوالے سے فکرمند تھے۔ سوال یہ ہے کہ اب باہمی تعلق کی صورتحال کیا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ صدر ٹرمپ کی مداخلت سے ملکی سیاسی صورتحال بدل سکتی ہے۔ صدر ٹرمپ کی شمولیت سے بات چیت کا آغاز ہو سکتا ہے‘ لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا موجودہ ملکی انتظامیہ یہ سب قبول کرے گی؟ پاکستان میں طاقت کا ڈھانچہ کافی پیچیدہ ہے اور بہت سے طاقتور دھڑے‘ ممکنہ طور پر بیرونی اثر ورسوخ کے خلاف مزاحم ہوں گے‘ خاص طور پر اُس وقت جب اس سب کو اندرونی معاملات میں مداخلت سمجھا جائے۔ ٹرمپ کی ''سب سے پہلے امریکہ‘‘ کی ساکھ اور تنہائی پسند رجحانات اس کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔ اس کے باوجود‘ پاکستان کے لیے علاقائی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ایک چانس کے طور پر ٹرمپ کے زیر اثر ایک ممکنہ پلان تیار کیا جا سکتا ہے۔ خان صاحب کی مقبولیت نے سیاسی سٹیج پر ان کی موجودگی کو نمایاں کیا ہے‘ اور محدود آزادیوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے رہائی عوامی مایوسی کو ختم کر سکتی ہے‘ جو اُس داخلی بدامنی کو بھی کم کر سکتی ہے جس نے خان صاحب کی نظر بندی سے جنم لیا۔ اس طرح کے معاہدے میں خان صاحب کے اثر ورسوخ کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ حکمران اشرافیہ کے پالیسی کے اہم شعبوں پر کنٹرول کو یقینی بنانے کی شرائط شامل ہو سکتی ہیں۔ اس میں ایسی شرائط بھی شامل ہو سکتی ہیں جن سے آزادیٔ اظہار رائے پر اعلانیہ و غیر اعلانیہ پابندیوں اور جو حقوق پاکستان کے آئین نے دے رکھے ہیں‘ ان پر کوئی قدغن نہ لگے۔ اس میں جلسے‘ جلوس کی آزادی سمیت تمام حقوق کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ ٹرمپ کے لیے یہ منظرنامہ غیر معمولی ہوگا لیکن منفرد نہیں ہو گا۔ ان کی سفارت کاری کا برانڈ اکثر غیر روایتی ہوتا ہے اور شمالی کوریا کے کم جونگ آن سمیت عالمی رہنماؤں کے ساتھ منفرد تعلقات استوار کرنے کی ان کی ڈرامائی اور غیر متوقع کوششیں اس شوق کی عکاسی کرتی ہیں۔ خان صاحب کی رہائی کے لیے ایک عالمی ثالث کے طور پر مداخلت ٹرمپ کے امیج کو نمایاں کر سکتی ہے‘ اور انہیں ادارہ جاتی رکاوٹوں کا سامنا کرنے والی پاپولسٹ عالمی شخصیات کے اتحادی کی پوزیشن حاصل کر نے میں مدد کر سکتی ہے۔ لیکن اس معاملے میں یہ محض قیاس آرائی ہے کہ آیا ٹرمپ کسی ایسی تجویز پرعمل کریں گے یا نہیں‘ جس کا نتیجہ بلاشبہ ارتعاش پیدا کرے گا۔ ایک کامیاب مداخلت ٹرمپ کے امریکہ اور بیرونِ ملک ''ڈیپ سٹیٹ‘‘ کے بیانیے کو چیلنج کرنے والی شخصیات کی حمایت کرنے کے بیانیے کو تقویت اور عالمی توجہ اور عزم کو واضح کر سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ کا سابق وزیراعظم کے ساتھ ایک ذاتی تعلق بھی ہے۔ دونوں سابق سیلیبرٹی ہیں۔ آنے والے مہینوں میں اس بات کا دارومدار اس بات پر ہو گا کہ پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟ خان صاحب کی رہائی کے لیے صدر ٹرمپ کی ثالثی سے ایک دلچسپ منظر نامہ تشکیل پائے گا۔ یہ ممکنہ مداخلت اس بات کی یاددہانی بھی ہو سکتی ہے کہ سفارتکاری کی دنیا میں کس طرح سیاسی مشکلات کے وقت باہمی فائدے حاصل کر سکتے ہیں۔ خان صاحب کے لیے‘ اس کا مطلب پاکستان کے سیاسی سٹیج پر اپنا کردار دوبارہ شروع کرنے کا ایک موقع ہو گا۔ ذاتی فائدے کے علاوہ اس کے کچھ سیاسی اور سماجی فوائد بھی ہو سکتے ہیں۔ دنیا کے اس خطے میں امن وسکون کی ضرورت ہے تاکہ لوگ غربت اور بیروزگاری سے نکل سکیں‘ ترقی اور خوشحالی کی طرف قدم بڑھا سکیں۔ یہ واحد خطہ ہے جو دنیا کی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے‘ اور اس پسماندگی کے پس منظر میں یہی تاریخی حقائق کارفرما ہیں۔ ہماری تاریخ میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی سیاسی قیدی رہا ہے‘ جو بہت سنگین حقائق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ ہمارا نظام کس قدر غیر منصفانہ ہے۔ اب اس روایت کو ٹوٹنا چاہیے۔