یہ جنوبی ایشیا میں گونجنے والی ایک پُرجوش آواز تھی۔ اس تقریر میں‘ پاکستانی رہنما نے بھرے ایوان کے سامنے ایک ایسے موضوع پر خطاب کیاجو طویل عرصے سے خطے کے لیے ایک کانٹے کی حیثیت رکھتا ہے: افغانستان کی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی بے لگام سہولت کاری۔ اپنی تقریر میں انہوں نے مغربی پڑوسی ملک سے تشدد اور انتہا پسندی کی ذمہ داری قبول کرنے کا مطالبہ کیا‘ جس نے خطے کو دہائیوں سے غیر مستحکم کر رکھا ہے۔ ان کا لہجہ سیدھا تھااور پیغام غیر مبہم۔ یہ اس بات کا علان تھا کہ عسکریت پسندی کو پراکسی وارفیئر کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کا دور ختم ہو چکا ہے۔ یہ پاکستان کی جغرافیائی سیاسی تاریخ کا ایک اہم لمحہ تھا۔ یہ خطاب محض ڈانٹ ڈپٹ نہیں تھا بلکہ اُس خطے میں امن کی التجا تھی‘ جس نے بہت زیادہ خونریزی دیکھی ہے۔
''ہماری سرزمین کو پراکسی جنگوں کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ یہ آواز کشش اور امید‘ دونوں سے گونج رہی تھی۔ ''اور نہ ہی افغانستان سمیت کسی بھی سرزمین کو جہاد کی آڑ میں دہشت گردی کی افزائش گاہ کے طور پر کام کرنا چاہیے‘‘۔ ان الفاظ میں تاریخ کا وزن ہے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں قومیں طویل عرصے سے قبائلی‘ سیاسی اور مذہبی وابستگیوں کے ایک پیچیدہ جال میں جکڑی ہوئی ہیں‘ جن میں اکثر بیرونی طاقتوں کے ذریعے ہیرا پھیری ہوتی رہی ہے۔ پاکستان خود افغان تنازع میں ملوث ہونے کی وجہ سے شدید دبائو اور دھچکے کا شکار رہا ہے‘ اسی سبب انتہاپسندانہ تشدد کا خمیازہ بھگت رہا ہے جو بم دھماکوں‘ اغوا اور قتل کی صورت میں سرحدوں کو پار کر چکا ہے۔ ''ہم اپنے ماضی کا شکار ہیں‘‘۔ ان الفاظ میں ایک اعتراف ہے اور پاکستان کی جانب سے سرد جنگ کے دوران جہادی تحریکوں کو سہولت فراہم کرنے میں کئی دہائیوں پر محیط ماضی کے کردار کا حوالہ‘ جب افغان مجاہدین کو سوویت قبضے کے خلاف آزادی کے مجاہدین کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ ''لیکن آج ہمیں پُرامن مستقبل کا معمار ہونا چاہیے‘‘۔ یہ الفاظ ماضی سے واضح رخصتی کی درخواست اور ان دنوں کا محور تھے‘ جب جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کے نام پر انتہا پسندی کو برداشت کیا جاتا تھا‘ حتیٰ کہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی تھی۔
یہ تقریر صرف ایکشن کا مطالبہ نہیں تھی۔ یہ مستقبل کے لیے ایک بلیو پرنٹ تھا‘ جس نے اقدامات کا ایک سلسلہ ترتیب دیا جس کا مقصد دہشت گردی کی جڑوں سے اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ سب سے پہلے‘ افغانستان کو تربیتی کیمپوں کو بند کرنے اور سرحد پار سے حملے کرنے والے عسکریت پسند گروپوں کو پناہ دینے کے عمل سے مکمل طور پر دستبردار ہونا ہو گا۔ دوم‘پاکستان‘ افغانستان اور بین الاقوامی شراکت داروں کے درمیان انٹیلی جنس کے اشتراک کے ایک نئے معاہدے کی بات کرنا ہو گی۔ دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے‘ فنڈنگ کے ذرائع کا پتا لگانے اور تشدد سے فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے باہمی تعاون پر مبنی کوشش کو بروئے کار لانا ہو گا۔
''ہم تنہا دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘ یہ صرف پاکستان یا افغانستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے نیٹ ورک سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ بین الاقوامی تعاون پر ان کا زور قابلِ ذکر تھا‘ جو اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے وسیع تر اتحاد کے بارے میں مثبت انداز میں سوچ رہا ہے۔ ''افغانستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ عسکریت پسندوں کی حمایت کرنے سے نہ تو آزادی آئے گی اور نہ ہی استحکام‘ یہ حمایت تباہی لائے گی‘ جیسا کہ اس نے پہلے کیا ہے‘‘۔ لیکن یہ تقریر صرف مطالبات کے بارے میں نہیں تھی۔ زیتون کی ایک شاخ تھی جو احتیاط مگر خلوص کے ساتھ پھیلی ہوئی تھی۔
''ہم امن کے بوجھ کو بانٹنے کے لیے افغانستان کی تعمیرِ نو میں مدد کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن افغانستان کو پہلے دہشت گردی کو خارجہ پالیسی کے ایک آلے کے طور پر ترک کرنے کا جرأت مندانہ قدم اٹھانا چاہیے‘‘۔ اس خطاب میں افغانستان کے لوگوں کو بھی براہِ راست مخاطب بنایا گیا اور ان میں بھائی چارے کے احساس کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی اور پاکستان کے ساتھ تاریخ کا حوالہ دیا گیا۔ ''آپ کے بچے بھی جنگ سے پاک مستقبل کے مستحق ہیں‘ جیسے کہ ہمارے بچے ہیں‘‘۔ آواز نرم پڑ گئی جب جنگ اور نقل مکانی کے چکر میں پھنسے عام افغانوں کی تکالیف کو تسلیم کیا گیا۔ ''ہم دشمن نہیں ہیں‘ ہم پڑوسی ہیں‘ اور ہمیں امن سے رہنا سیکھنا چاہیے‘‘۔ اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے افغانستان کے اندر ان لوگوں کو سخت انتباہ جاری کیا جو شدت پسندی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں ''آپ بے گناہوں کا خون بہاتے ہوئے اس کو مذہب کے نام پر جہاد کانام نہیں دے سکتے۔ دہشت گردی میں کوئی عزت نہیں ہوتی۔ افغانستان کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ انتخاب کرے‘ امن کا یا ایک دائمی تنازع‘‘۔ اس تقریر نے ابہام کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔
پاکستان‘ ایک ایسی قوم ہے جو خود بھی دہشت گردی کے نتائج سے نبرد آزما ہے‘ اور اسی ریت میں ایک لکیر کھینچ رہاہے۔ اب اس کی جانب سے کارروائی کا مطالبہ ایک یاد دہانی ہے کہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ صرف ایک فوجی محاذ نہیں ہے بلکہ یہ دلوں اور دماغوں کی جنگ ہے‘ اس خطے کی روح کی جنگ ہے جس کی تعریف طویل عرصے سے تشدد سے کی گئی ہے۔ جیسے ہی تقریر ختم ہوئی‘ ردعمل تیز تھا۔ کچھ نے دلیری کی تعریف کی‘ جبکہ دیگر نے سوال اٹھایا کہ کیا افغانستان اپنی اندرونی تقسیم اور انتہا پسند دھڑوں پر انحصار کے ساتھ‘ کبھی بھی امن کی طرف چھلانگ لگا سکتا ہے؟ اس کے باوجود‘ یہ واضح تھا کہ پاکستان نے اپنا مؤقف ظاہر کر دیا ہے۔ اب یہ اس لمحے سے یہ پیچھے نہیں ہٹے گا۔ دنیا اب دیکھ رہی ہے کہ افغانستان کو ایک اہم فیصلے کا سامنا ہے۔ کیا یہ امن کی پکار پر دھیان دے گا یا یہ تباہی کی قوتوں کو پناہ دیتا رہے گا؟ اس کا جواب پورے خطے کے مستقبل کا تعین کر سکتا ہے۔
ایک ایسی دنیا میں جہاں انتہا پسندی کی کوئی سرحد نہیں ہے‘یہ تقریر اور اس کے الفاظ پاکستان اور افغانستان کے معاملے سے کہیں زیادہ بلند تھے اور یہ گونج صرف ایک علاقائی درخواست نہیں بلکہ یہ دہشت گردی کے خاتمے‘ مذہب کو ہتھیار بنانے اور تشدد کو انسانیت پر ترجیح دینے کے خلاف ایک عالمی کال تھی۔ کیا دنیا اس پر کان دھرتی ہے‘ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان اور افغانستان دو دشمن نہیں‘ بلکہ دو پڑوسی ملک ہیں۔ ان کے مابین پہچان کا رشتہ ان دونوں ملکوں کے عوام نے ایک فطری بہائو کے اندر رہ کر فطری انداز میں طے کرنا ہے۔ ہم لوگ اب جس عہد میں قدم رکھ رہے ہیں‘ یہ امن کا عہد ہے‘ جس میں رجعت پسند انسان دشمن قوتیں اپنی فطری موت مر رہی ہیں۔ دونوں ملکوں کے کروڑوں عوام نے طے کرنا ہے کہ وہ جنون زدہ ہجوم کی زد میں آکر خود کشی پر مجبور ہوں گے یا عقل وخرد سے کام لے کر اپنے اپنے عوام کو امن اور خوشحالی کا راستہ دکھائیں گے۔ حکمران اشرافیہ کی فرسودہ‘ امن دشمن پالیسیاں اب اپنے عوام سے خراج وصول کر رہی ہیں۔ اس کا اظہار اب پاکستان کے اندر بالخصوص سرحدی علاقوں میں نظر آ رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس عفریت کو مزید پھلنے پھولنے سے روکا جائے اور فرسودہ پالیسیوں کو ترک کر کے عوام دوستی اور انصاف کی شاہراہ پر سفر کا آغاز کیا جائے۔ اس کے لیے امن کی محض خواہش ہی کافی نہیں بلکہ ایک مضبوط اور مربوط کوشش اور صلاحیت بھی ناگزیر ہے۔