اقبال میرے فکری مرشد ہیں۔ کبھی کبھی اُن کی شاعری میں جھانکتا رہتا ہوں۔ علامہ اقبالؒ کے فارسی کلام اور فلسفیانہ اُردو نظموں کی حقیقی روح سے کسبِ فیض کے لیے قوموں کا فلسفۂ عروج و زوال‘ قرآن و حدیث‘ عربی و فارسی ادب اور تاریخِ اسلام پر گہری نظر کا ہونا ضروری ہے وگرنہ بقول ڈاکٹر صفدر محمود مرحوم‘ علامہ دامن بچا کر پاس سے گزر جاتے ہیں۔
ہمیں مذکورہ بالا علوم سے شناسائی پیدا کرنے کے مواقع تو قدرت نے وافر عطا کیے تھے مگر اُن کی تحصیل اور ان پر دسترس کے لیے جس قدر ریاضت کی ضرورت تھی وہ شاید ہمارے مزاج کا حصہ نہ تھی۔ تاہم قدرت اس سہل پسند طالب علم پر بہت مہربان رہی ہے۔ ہماری ایک دو اساتذہ تک رسائی ہے جن کی عربی و فارسی ہی نہیں انگریزی‘ اردو کے ادب اور قرآن و حدیث کے علوم اور فلسفۂ تاریخ کے امور سے گہری شناسائی ہے۔ وہ جب کبھی میرے اندر کلامِ اقبال کے بارے میں سچی تشنگی محسوس فرماتے ہیں تو ازراہِ کرم میری رہنمائی فرما دیا کرتے ہیں۔استادِ محترم ڈاکٹر خورشید رضوی نے چند روز قبل اقبالؒکو یاد کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ علامہ جب کسی مسئلے پر غور و فکر فرمایا کرتے تو اپنے دیرینہ خادم علی بخش سے قرآن پاک منگاتے اور پھر کلامِ ربانی میں غوطہ زن ہو جایا کرتے تھے۔ اپنے ایک شعری مجموعے ''رموزِ بے خودی‘‘ میں وہ فرماتے ہیں:
آں کتاب زندہ قرآنِ حکیم؍ حکمتِ اولایزال است و قدیم
نسخۂ اسرار تکوینِ حیات؍ بے ثبات از قوتش گیرد ثبات
وہ زندہ کتاب کہ جس کا نام قرآنِ حکیم ہے‘ اس میں حکمت و دانائی کی باتیں لازوال و قدیم ہیں۔یہ زندگی کے ہونے یا نہ ہونے کے اَسرار کا نسخہ ہے۔ بے ثبات کو بھی اس سے ثبات حاصل ہو جاتا ہے یعنی فانی بھی اس نسخۂ کیمیا سے امر ہو جاتا ہے۔
دیکھئے علامہؒ عظمتِ قرآن کے بارے میں اردو میں کیا فرماتے ہیں:
قرآں میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
اسی لیے تو انہوں نے اپنی نظم جوابِ شکوہ میں کلام الٰہی کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
علامہ اقبالؒ بیسویں صدی میں مسلمانوں کے زوال پر بہت متفکر رہا کرتے تھے۔ وہ امتِ مسلمہ کے اتحاد کے متمنی تھے۔ علامہ کے دل کا جلترنگ مسلمانوں کے درخشندہ ماضی کے تذکروں سے بج اٹھتا۔ دیکھئے اپنی طویل نظم بلادِ اسلامیہ میں علامہؒ کیا فرماتے ہیں:
یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے لیے سامانِ ناز ؍ لالۂ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیبِ حجاز؍ خاک اس بستی کی ہو کیونکر نہ ہمدوشِ ارم؍ جس نے دیکھے جانشینانِ پیغمبرؐ کے قدم؍ جس کے غنچے تھے چمن ساماں‘ وہ گلشن ہے یہی؍ کانپتا تھا جن سے روما‘ اُن کا مدفن ہے یہی؍ ہے زمینِ قرطبہ بھی دیدئہ مسلم کا نور؍ ظلمتِ مغرب میں جو روشن تھی مثلِ شمعِ طور
ہمیں مدتوں زمینِ حجاز میں رہ نوردِ شوق ہونے کی سعادت حاصل رہی ۔ہمیں خاکِ مدینہ کے آنکھوں سے بوسے لینے کا سرور بھی عطا ہوا۔زمینِ قرطبہ تک جانے اور مسجد قرطبہ میں نماز ادا کرنے کا موقع بھی ملا۔ قرطبہ سے غرناطہ تک میں اپنی بیگم کے ساتھ گاڑی ڈرائیو کر کے گیا تھا‘ یہ ایک نہایت یادگار سفر تھا۔ان دونوں مقامات پرحاضریوں اور مکہ و مدینہ میں حضوریوں کی کیفیات کی کہانی پھر کبھی تفصیل کے ساتھ عرض کروں گا۔ سردست یہ دیکھئے کہ حجاز و قرطبہ کا ایمان افروز تذکرہ کرنے کے بعد یکایک علامہؒ مغموم ہو کر فرماتے ہیں:
بجھ کے بزمِ ملتِ بیضا پریشاں کر گئی؍ اور دیا تہذیبِ حاضر کا فروزاں کر گئی
علامہؒ زندگی کے آخری سانس تک مسلمانوں کے فکری و عملی انتشار سے بہت رنجیدہ خاطر رہے۔آج اگر علامہؒ زندہ ہوتے تو وہ اہلِ غزہ پر گزشتہ ایک برس سے صہیونی غاصبوں اور دہشت گردوں کی طرف سے روزانہ ڈھائی جانے والی قیامتوں‘ لاکھوں افراد کو بے دردی سے ٹنوں وزنی بموں سے کچلنے‘ دودھ اور خوراک کے لیے بلکتے بچوں‘ اپنے جواں بیٹوں کے لاشوں کو نظروں کے سامنے پا کر تڑپتی ماؤں کو دیکھتے تو وہ کتنے غمزدہ اور رنجیدہ خاطر ہوتے۔ یہ حقیقت علامہ کے لیے کتنی روح فرسا ہوتی جب وہ غزہ کے شہیدوں اور پانی کی بوند بوند کو ترستے فلسطینیوں اور سارے غزہ کے گھروں کو اوندھے منہ پڑا دیکھتے۔ ساری ریاست کو کھنڈرات بنا ہوا دیکھتے تو یہ خیال علامہ کو اور بھی تڑپا جاتا کہ غزہ کے شب و روز کی ہر ساعت میں خوش الحانی سے تلاوت کرتے ہوئے بے گھر‘ بے چھت اور بے در مسلمانوں کے ''روحانی اور ایمانی‘‘ بھائیوں کی دنیا میں کمی نہیں۔
57 ممالک میں آباد امتِ مسلمہ کی تعداد تقریباً دو ارب ہے‘ وہ دنیا کی آبادی کا چوتھا حصہ ہیں۔ ان میں ایسے ممالک بھی شامل ہیں کہ جن کے پاس مال و دولت کے انبار ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں کہ جن کے پاس لاکھوں کی تعداد میں جرأت مند بّری و بحری اور فضائی افواج ہیں۔ ان مسلم ممالک میں سے اکّا دکّا کے پاس تو ایٹم بم بھی ہیں۔ مگر ایک سال اور ٹھیک ایک ماہ کے بعد آج تک ان ممالک میں سے کوئی اپنے اُن دینی بھائیوں کہ جنہیں ارشادِ نبویؐ کے مطابق ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے‘ کی مدد کو کوئی نہیں پہنچا۔
مڈل ایسٹ مانیٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے خلاف کئی یورپی ممالک نے اسرائیلی تجارتی مقاطعہ کیا ہے تاہم زبانی طور پر غزہ میں ظلم و ستم کا خاتمہ کرانے والے کئی مسلم ممالک کی غاصب اسرائیل کے ساتھ تجارت میں گزشتہ نو ماہ کے دوران کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ان ممالک میں مصر اور بحرین سرفہرست ہیں۔بیشتر مسلم ممالک اسرائیل کے سرپرست اور اس کے سب سے بڑے حامی امریکہ کے لیے کئی اعتبار سے ناگزیر ہیں مگر کسی مسلم یا عرب حکمران کو یہ ہمت اور توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنے مغربی اتحادی ممالک پر کوئی معاشی‘ سیاسی یا سفارتی دباؤ ڈال سکے اور اپنے بھائیوں کو اس عذابِ مسلسل سے نجات دلا سکے۔جبکہ یورپ اور امریکہ میں مختلف مذاہب اور مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے کروڑوں شہری اپنی انسانی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ہر ہفتے کئی کئی بار صہیونی ریاست اور اسرائیل نواز مغربی طاقتوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں اور نیتن یاہو کی نسل کشی کی پالیسی کی پُرزور مذمت کر رہے ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنی دلی تمنا کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
ملتِ اسلامیہ کے غمخوار کی دلی تمنا پوری ہوئی۔ عرب ممالک کودوسری عالمی جنگ اور اس کے اختتام پر ملتِ اسلامیہ کی بڑی حکومت کا شیرازہ بکھیر کر عرب دنیا کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ یورپ سے انہوں نے آزادی حاصل کر لی مگر اب ان کی زمامِ اقتدار ڈکٹیٹروں اور بادشاہوں کے ہاتھ میں آ گئی۔ آزادی کے بعد ''خود مختاری‘‘ حاصل کرنے والی ان مملکتوں کی سرپرستی کا فریضہ امریکہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔اسی لیے تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی) اور عرب لیگ تو ہیں مگر عوام کی نمائندہ حکومتیں نہ ہونے کی بنا پر اُن کے پاس آزادیٔ عمل ہے اور نہ ہی آزادیٔ اظہار ۔