اگر کسی خطۂ زمین پر‘ ایک ایسی بالفعل (de facto) حکومت قائم ہو جس کی شرعی‘ اخلاقی اور جدید اصطلاح میں آئینی حیثیت‘ آپ کی نظر میں متنازع‘ مشتبہ یا غیر ثابت شدہ ہو تو پھر آپ کو کیا کرنا چا ہیے؟ ''آپ کی نظر‘‘ سے مراد یہ ہے کہ یہ کوئی اجماعی رائے نہ ہو‘ ایک گروہ کا موقف ہو۔
یہ علمِ سیاسیات کا اہم سوال ہے۔ یہ ہماری فقہ کا موضوع ہے اور جدید قانون کا بھی۔ مسلّم علمی روایت میں ہمارے فقہا نے بہت تفصیل کے ساتھ اس کو بیان کیا ہے۔ حکمرانوں کے عزل و نصب کے احکام بتائے ہیں۔ مغرب میں بھی‘ جب جدید قومی ریاست وجود میں آئی تو جمہوریت کو سیاسی نظم کا اصل الاصول مان کر‘ اس کے جن اجزا کو اس کا ناگزیر حصہ مانا گیا‘ ان میں ایک آئین پسندی (Constitutionalism) ہے۔ اس کے تحت‘ جہاں حکومت سازی کا طریقہ بیان کیا گیا‘ وہاں اس کے خلاف احتجاج اور اقدام کی حدود کا بھی تعین کیا گیا۔ جیسے پارلیمانی جمہوریت میں تحریکِ عدم اعتماد۔
یہ سوال غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ساتھ انسانوں کی موت و حیات اور ان کا مستقبل وابستہ ہے۔ ریاست کی ضرورت بھی اس لیے محسوس کی گئی کہ عام شہریوں کے جان و مال کو تحفظ ملے۔ دنیا میں جرم و سزا کا تصور اور اس باب میں ہونے والی قانون سازی بھی اس لیے کی گئی کہ ایک پُرامن معاشرہ‘ اسی طرح انسان کی بنیادی ضرورت ہے جس طرح ہوا اور پانی۔ اس لیے کسی فرد یا گروہ کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ انسانی جان و مال سے کھیلے۔ ریاست اسی لیے وجود میں آئی۔ اب اگر نظمِ اجتماعی اپنی حدود سے تجاوز کرے یا کسی کے نزدیک‘ ریاست ہی عوام کے جان و مال کے درپے ہو جائے تو پھر کیا کیا جائے؟ ایسی حکومت سے نمٹنے کا ایک طریقہ تو وہ ہے جو جدید ریاست کے وجود میں آنے سے پہلے رائج تھا۔ انسانوں کا کوئی گروہ اٹھتا‘ ایک جتھے کی صورت میں منظم ہوتا اور ہتھیاروں سے لیس ہو کر برسرِ اقتدار گروہ پر چڑھ دوڑتا۔ اب جس کے پاس تلواریں اور بازو زیادہ ہوتے‘ وہ غالب آ جاتا۔ مسلمانوں کی تاریخ ہو یا غیرمسلموں کی‘ سب میں یہی ہوا۔ اس سے قطع نظر کہ کون فاتح رہا‘ ایسے معرکوں میں بلامبالغہ ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ زمین فساد سے بھر جاتی۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی کہ انسانوں کے مابین‘ اقتدار کے جھگڑے سے نمٹنے کے لیے کوئی پُرامن طریقہ ہونا چاہیے۔ غیر الہامی روایت میں یہ طریقہ جمہوریت کہلاتا ہے۔ یہ حق انسانوں کو دے دیا گیا کہ ان کی اکثریت یہ فیصلہ کرے گی کہ کون سا گروہ اقتدار پر فائز ہو گا۔
جنگ کے علاوہ‘ انقلاب کو بھی تبدیلی کا طریقہ مانا گیا۔ جمہوریت نے دونوں کا خاتمہ کر دیا۔ جمہوری نظاموں میں جب ریاست نے حدود سے تجاوز کیا تو سماج کے اجتماعی شعور نے احتجاج کے ایسے طریقے دریافت کیے جن سے انسانی جان و مال کو‘ ممکن حد تک نقصان پہنچائے بغیر‘ ریاست کو ظلم سے روکا جا سکے یا برسرِ اقتدار گروہ کو معزول کیا جا سکے۔ اس کے لیے سیاسی جد وجہد کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ صبر اس کا لازمہ ہے۔ اس جد وجہد میں بعض اوقات لوگوں نے کئی عشرے صرف کر ڈالے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ صرف ریاست نہیں‘ اس لیڈر کی بھی ذمہ داری ہے‘ لوگ جس کو پیشوا مان کر اس کے پیچھے چلتے ہیں۔
مسلم روایت کو دیکھیے تو فقہا نے ایسی ریاست کے ساتھ تصادم سے گریز کا درس دیا جس کی اخلاقی یا شرعی اساس ثابت نہ ہو۔ یہ فقہ چونکہ اس دور میں مرتب ہوئی جب جدید ریاست وجود میں نہیں آئی تھی‘ اس لیے اس دور میں حکومت کے خلاف اقدام کو خروج سے منسوب کیا جاتا تھا۔ فقہا نے ناپسندیدہ یا غیراخلاقی حکومت کے خلاف اقدام کے لیے‘ انتہائی سخت شرائط بیان کیں۔ انہی شرائط کی وجہ سے‘ انہیں ملوکیت کا طرفدار قرار دیا گیا‘ درآں حالیکہ اس میں ایک حکمت پوشیدہ تھی۔ وہ حکمت کیا تھی جس میں ایسے نظامِ حکومت کے خلاف بغاوت سے منع کیا گیا جو غیر شرعی ہو؟ یہی سوال جدید نظمِ حکومت کے خلاف جدوجہد کے بارے میں بھی اٹھتا ہے۔ وہ کیا حکمت تھی کہ انقلاب کا راستہ چھوڑ کر‘ نیلسن منڈیلا جیسے لوگوں نے بندوق پر سیاسی جد وجہد کو ترجیح دی مگر طاقت سے حکومت کو بدلنے کی کوشش نہیں کی؟
اس حکمت کو فقہائے اسلام نے عقل و نقل اور حکمائے مغرب نے عقلی دلائل کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ہم کسی حکومت یا نظام کو کیوں بدلنا چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ بہتری کے لیے۔ مطلوب یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں خیر غالب ہو۔ انسانی جان و مال کی حفاظت ہو۔ اس سے یہ بات بدیہی طور پر ثابت ہے کہ تبدیلی کی ایسی کوشش انسانوں کے مفاد میں نہیں ہو سکتی جس کے نتیجے میں انسانی جان و مال کا ضیاع ہو۔ معاشرے کا نقصان ہو۔ امام ابن تیمیہ نے‘ مثال کے طور پر اپنی کتاب 'منہاج السنہ‘ میں اس کو موضوع بنایا ہے کہ مسلم تاریخ میں حکومتوں کے خلاف جو خروج ہوئے‘ ان کا انجام کیا ہوا اور ان سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے۔ ابن تیمیہ کا شمار صاحبانِ عزیمت میں ہوتا ہے۔ وہ سیاسی معاملات سے کنارہ کش کوئی صوفی نہیں تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں جہاد کا جذبہ پیدا کیا۔ انہوں نے لکھا: ''پس ایسا کوئی کام اگر سامنے آتا ہے جس میں صلاح و فساد‘ دونوں پہلو پائے جاتے ہوں تو اہلِ سنت یہ دیکھتے ہیں کہ فساد کا پہلو غالب ہے یا اصلاح کا۔ اور پھر جو پہلو غالب آتا ہے‘ اسی کے مطابق اس پر حکم لگا دیتے ہیں‘‘۔ یعنی اگر فساد کا پہلو غالب ہے تو اسے ترک کر دیتے ہیں۔ ابن تیمیہ نے مسلم تاریخ کے بہت سے واقعات نقل کر کے یہ بتایا ہے کہ طاقت سے حکمرانوں کو بدلنے کی کوشش سے فساد پیدا ہوا۔ ریاست کے ساتھ ٹکراؤ سے‘ موجود ظلم سے بڑا ظلم وجود میں آتا ہے۔
ریاست کے خلاف اقدام یا اسے طاقت سے ہٹانے کی کوشش‘ بہت کم امکان ہے کہ کامیاب ہو۔ یہ مذہبی عالم ہوں یا جدید ریاست کا تصور پیش کرنے والے اہلِ علم‘ سب متفق ہیں کہ تشدد پر ریاست کو اجارہ داری حاصل ہے۔ یہ واحد قوت ہے جو یہ حق رکھتی ہے کہ وہ ضرورت محسوس کرے تو طاقت استعمال کر سکتی ہے۔ اس کے تحت وہ مجرموں کو سزا دیتی اور نظم و ضبط کو برقرار رکھتی ہے۔ سلامتی کے اداروں کو ہتھیار رکھنے کا قانونی حق حاصل ہوتا ہے اور ریاست انہیں بوقت ضرورت استعمال کرنے کا اذن دیتی ہے۔ یہ حق کسی دوسرے گروہ کو حاصل نہیں ہوتا‘ وہ تعداد میں کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو۔ اس میں شبہ نہیں کہ ریاستیں اس حق کو ناجائز استعمال بھی کرتی ہیں۔ اس کے باوجود قانون صرف ریاست ہی کا یہ حق تسلیم کرتا ہے۔
جو لیڈر کسی حکومت کو بدلنا چاہتا ہے یا اس سے بزور کوئی بات منوانا چاہتا ہے‘ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کی کوئی ریاست کسی کو یہ حق نہیں دیتی۔ اس کے باوصف اگر وہ اپنے پیروکاروں کو ریاست کے ساتھ تصادم کی طرف لے جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ مخلص نہیں۔ اگر آپ پارلیمان میں اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے عوام تک اپنا نقطہ نظر پہنچا سکتے ہیں۔ جلسے کر سکتے ہیں۔ عدالتوں میں جا سکتے ہیں تو پھر آپ کو یہ حق نہیں کہ آپ ریاست کو غیرفعال بنا کر فساد پیدا کریں۔ جب ایسا کریں گے‘ ریاست لازماً مزاحمت کرے گی۔ آپ موجود مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی بات کہتے رہیں۔ اگر آپ کے مقدمے میں جان ہے تو اگلے انتخابات میں آپ کو موقع مل سکتا ہے۔ اگر نہ ملے تو بھی‘ آپ کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے پیروکاروں کو ریاست کے ساتھ تصادم میں جھونک کر ان کے جان و مال کو خطرے میں ڈالیں۔رہا ریاست کی اخلاقی اور قانونی حدود کا مسئلہ‘ تو اس پر اگلے کالم میں بات ہوگی‘ ان شاء اللہ۔