امریکہ اس وقت غیریقینی صورتحال سے دوچار ہے‘ ان دنوں منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی اور سفارتی انداز موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ ان کی پالیسیوں کا مرکز ایسے جرأت مندانہ وعدے‘ قوم پرستانہ بیان بازی اور بین الاقوامی تعلقات کیلئے ایک ایسا نقطۂ نظر ہے جو ہم نے دیگر امریکی رہنماؤں میں کم ہی دیکھا ہے۔ وعدوں اور بیان بازی کا یہ سلسلہ مضبوط سرحدوں اور عالمی سطح پر رسائی کے مطالبات کے درمیان بٹی ہوئی قوم کیلئے خطرات اور مواقع‘ دونوں میں ایک ممکنہ تبدیلی کی پیشگوئی کرتا ہے۔ خاص طور جب اس تناؤ کو عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے معاشی اتار چڑھاؤ کا سامنا ہے‘ جس کی وجہ سے دنیا بھر میں عوامی جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس گلوبلائزڈ دنیا میں امریکہ کو اولین ترجیح بنانا ٹرمپ کا ہمیشہ سے نعرہ رہا ہے۔ یہ نعرہ‘ جو ٹرمپ کی انتخابی مہم کا مرکز تھا‘ موجودہ امریکی انتظامیہ کی کثیرالجہتی پالیسیوں میں ایک بنیادی تبدیلی کی تجویز پیش کرتا ہے۔ روایتی طور پر‘ امریکہ نے عالمی سطح پر اتحاد بنانے اور انہیں برقرار رکھنے میں ایک رہنما کا کردار ادا کیا ہے‘ اس نے ان عالمی اتحادوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے جس کیلئے اکثر سفارتی چالاکی اور اقتصادی استحکام کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم‘ ٹرمپ کی بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اُن اتحادوں کو دوبارہ ترتیب دینے کے خواہاں ہیں جو دو طرفہ تجارت کی حمایت کرتے ہیں‘ وہ ایسے اتحادوں کے خواہاں نظر آتے ہیں جن سے امریکہ بین الاقوامی اخراجات کا بوجھ اٹھانے کے بجائے واضح طور پر متعین فوائد حاصل کرے۔ سفارت کاری کی تناظر میں یہ ایک خود غرضانہ نقطۂ نظر ہے جو امریکہ کے دیرینہ اتحادیوں کو دبا سکتا ہے۔ ایسا کوئی اقدام ممکنہ طور پر امریکہ کو ایک زیادہ غیرمتوقع اور شاید الگ تھلگ سپر پاور کے طور پر تبدیل کر سکتا ہے۔
سرد جنگ کی بازگشت اور موجودہ اقتصادی تناؤ میں ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے سب سے زیادہ نتیجہ خیز عناصر میں روس اور چین کے بارے میں ان کے خیالات ہیں‘ دو ایسی قومیں جن کیساتھ امریکہ کے تعلقات پیچیدہ‘ بلکہ زیادہ تر متنازع رہے ہیں۔ اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران‘ ٹرمپ خاص طور پر روس کیلئے گرمجوشی کا مظاہرہ کر رہے تھے‘ ان کی تعریف اور تنقید دونوں نے روس کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ نقطۂ نظر ماسکو کیساتھ کشیدگی کو کم کر سکتا ہے‘ اور انسدادِ دہشت گردی اور جوہری تخفیفِ اسلحہ جیسے مسائل پر تعاون کو فروغ دے سکتا ہے۔ تاہم‘ ناقدین خبردار کرتے ہیں کہ روس کیساتھ دوستانہ تعلقات سے امریکہ کو یورپ میں اپنے روایتی اتحادیوں کیساتھ تعلقات پر سمجھوتہ کرنا پڑ سکتا ہے اور یہ اقدام عالمی سطح پر آمرانہ پالیسیوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بن سکتا ہے۔روس کے برعکس چین کے بارے میں ٹرمپ کا مؤقف نمایاں طور پر کم دوستانہ رہا ہے۔ انہوں نے چین کے تجارتی طریقۂ کار کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ چین کیساتھ تجارت کو غیرمتوازن اقتصادی تعلقات کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تاہم‘ امریکہ کی چین کے ساتھ تجارتی جنگوں سے عالمی معیشت کے غیرمستحکم ہونے کا خطرہ ہے جو پہلے ہی خاصی کمزور ہے۔ ایک ایسے ملک کیلئے‘ جس نے چین کی وسیع مینوفیکچرنگ صلاحیتوں سے بے پناہ فائدہ اٹھایا ہے‘ ٹرمپ کا تصادم کو ہوا دینے والا لہجہ امریکی صنعتوں اور صارفین کو یکساں طور پر متاثر کر سکتا ہے۔ اگر چین کے ساتھ تجارتی جنگ کے لیے کوئی غلط حکمت عملی اپنائی گئی تو یہ غیرمتوازن عمل امریکی عوام کی اُس خوشحالی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے جسکی حفاظت امریکی انتظامیہ کرنا چاہتی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی امریکہ کی اشد ضرورت ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے روایتی امریکی پالیسی میں تبدیلی اور سٹریٹجک ابہام دور کرنا ناگزیر ہے۔ اس وقت مشرقِ وسطیٰ امریکی خارجہ پالیسی کا ایک مرکزی نقطہ بنا ہوا ہے۔ ٹرمپ ایسے وقت پر اقتدار سنبھال رہے ہیں جب مشرقِ وسطیٰ تنازعات‘ انسانی بحرانوں اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے۔ اس تناظر میں امریکہ کے لیے عسکری مصروفیات پر نظرثانی‘ انٹیلی جنس کی بہتر کوششیں اور علاقائی شراکت داری میں اضافہ ضروری ہے۔ امریکی دانشور اپنی حکومت کو عراق اور افغانستان میں استعمال کی جانے والی حکمت عملیوں سے دستبردار ہونے کی تجویز دیتے ہیں تاکہ دنیا میں پائیدار امن قائم ہو سکے‘ اورجنگوں اور خوں خرابے سے جان چھڑائی جا سکے۔
ایران کے بارے میں ٹرمپ کا مؤقف‘ جو ایران کے جوہری معاہدے کی مخالفت پر مبنی ہے‘ نئے سرے سے امریکہ ایران دشمنی کو جنم دے سکتا ہے۔ اس معاہدے کو ختم کرنے سے اسرائیل اور سعودی عرب جیسے امریکی اتحادیوں کو قلیل مدتی یقین دہانیاں مل سکتی ہیں لیکن یہ اقدام خطے میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کو بھڑکا سکتا ہے۔ اگر امریکی انتظامیہ پہلے سے ہی غیرمستحکم منظر نامے میں مزید کشیدگی کو ہوا دیے بغیر خطے میں استحکام کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتی ہے تو اس حوالے سے سفارتی عملیت پسندی ضروری ہو گی۔
نیٹو اور یورپی اتحادیوں کے بارے میں ٹرمپ کے نقطۂ نظر نے اس اتحاد کے لیے امریکہ کے روایتی وعدوں میں دستبرداری کا اشارہ دیا ہے۔ انہوں نے کھلے عام نیٹو کے ارکان کی مالیاتی شراکت پر سوال اٹھائے ہیں‘ اور یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ امریکہ کی دفاعی سرمایہ کاری دیگر ارکان کے مقابلے میں غیرمتناسب حد تک زیادہ ہے۔ ان کے تبصروں نے یورپی رہنماؤں میں تشویش پیدا کی‘ خاص طور پر اُن لوگوں کیلئے جو روس کی طرف سے سخت سکیورٹی خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کا مؤقف یورپی ممالک کو دفاعی اخراجات میں اضافے کی ترغیب دے سکتا ہے‘ لیکن اس سے موجودہ نازک صورتحال میں امریکہ یورپی اتحاد کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ ایک کمزور نیٹو‘ مخالفین کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہے جس سے نہ صرف یورپ بلکہ عالمی سکیورٹی فریم ورک میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے‘ جو کئی دہائیوں سے امریکی قیادت پر انحصار کر رہے ہیں۔ اگر ٹرمپ مالی ذمہ داریوں کی دوبارہ تقسیم کے دوران ان اتحادوں کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں تو اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ یورپی اتحادی امریکہ کی تنقید کو اس کی نیٹو سے علیحدگی سے تعبیر نہ کریں۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی سمت غیرمتوقع اور عملیت پسندی کے امتزاج کو ظاہر کرتی ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک تاجر کی جانب سے قابلِ پیمائش فوائد پر مرکوز ہے۔ اگر ٹرمپ کے یہ منصوبے کامیاب ہو جاتے ہیں‘ تو وہ قوم پرستانہ عزائم اور عالمی سفارت کاری کی اہم حقیقتوں کے درمیان ایک غیرمعمولی توازن کا مطالبہ کریں گے۔ اندرون ملک تقسیم اور بیرونِ ملک انتشار کے دور میں ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ممکنہ طور پر نہ صرف امریکہ کے مستقبل کا تعین کرے گی بلکہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ایک سپر پاور کے طور پر اس کی نئی حیثیت کا تعین کرے گی۔ اگر اس نقطۂ نظر کو سوچ سمجھ کر عمل میں لایا جائے تو یہ ایک نئی طاقت کا راستہ پیش کر سکتا ہے‘ یا یہ قوم کو مزید تنہائی اور تنازعات میں دھکیل سکتا ہے۔ یہ صورت بہت خطرناک ہو گی۔ پہلے ہی سپر پاورز کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ امن کی ضرورت ہے۔ ہزاروں‘ لاکھوں لوگ جنگوں کی وجہ سے اپنے علاقوں سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کے لاکھوں لوگ پہلی دنیا کے ممالک میں مزدوری کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ معاشی بحران کا نتیجہ ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک سے برین ڈرین ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے ان ملکوں کے اندر فیصلے کون کر ے گا‘ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ خوفناک بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کے لوگوں نے بھی اب ان تارکینِ وطن کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ہے جو اُن کی روایات کا حصہ نہیں ہے۔ وہاں پر بھی روزگار کے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ان حالات میں امن دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔