"KNC" (space) message & send to 7575

سیاسی کارکن

پاکستان جیسے نیم خواندہ اور نیم جمہوری معاشرے میں سیاسی کارکن بھی کیا عجیب جنس ہے۔ مرید کی طرح سادہ اور مخلص۔ لیڈر کی چالاکیوں سے بے خبر یا لاتعلق۔ آنکھ اور دماغ بند کرکے اعتبار کرنے والا اور دل و جاں سے قربان ہو نے والا۔ فنا فی الشیخ کی طرح فنا فی الزعیم۔ کروڑوں کی گاڑی اور ٹھاٹ باٹ سے مرعوب ہونے والا۔ کوئی اسلام یا سوشلزم کا تڑکا لگا دے تو پھر وارفتگی میں مرید سے بھی دو ہاتھ آگے۔
مولانا اشرف علی تھانوی کے حوالے سے کہیں یہ روایت پڑھی یا سنی کہ انہوں نے اپنے ایک مرید سے کسی کام کے لیے کہا۔ وہ حکم بجا لایا مگر سادہ لوحی اور ارادت مندی میں معاملہ پیر کی طلب سے مختلف ہو گیا۔ اس پر مسکرائے اور فرمایا: 'بعض لوگوں کے دماغ میں بھی عقل کے جگہ اخلاص بھرا ہوتا ہے‘۔ سیاسی کارکن کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اخلاص کا یہ عالم کہ سیاسی لیڈر کی گاڑی کے بونٹ پر سوار ہے جو شیشہ بند کیے بیٹھا ہے اور کارکن اپنی اس سعادت پر نازاں ہے۔ اس سے بے خبر ہے کہ عشق میں جان بھی جا سکتی ہے۔ لیڈر اس کی موجودگی سے بے نیاز یہ سوچ رہا ہے کہ ان کارکنوں کے استحصال سے وہ کیا کیا سیاسی فوائد اٹھا سکتا ہے۔ ایسے اگر دو چار اور ہاتھ آجائیں تو کیا کہنے۔
یہ بے چارہ کارکن کبھی نہیں جان سکتا کہ سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کے لیے قائم ہوتی ہیں۔ ان کا ساتھ دیتے وقت اسے یہ دیکھنا ہے کہ ان کی سیاست میں ایک عام آدمی کے مفاد کا بھی کچھ لحاظ ہے یا نہیں؟ یہ عقیدت و محبت کا نہیں‘ مفاد کا تعلق ہے۔ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک دکاندار اور گاہک کا تعلق ہے۔ دکاندار سے محبت نہیں کی جاتی۔ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے پاس سودا گاہک کے مطلب کا ہے یا نہیں؟ دکاندار مہذب اور دیانتدار ہو تو گاہک اس کا احترام کرتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس کے سابقہ رویے کی بنیاد پر اس کے کہنے پر کوئی مال خرید لے۔ یہ مال اگر عیب دار نکل آئے تو پھر یہ محبت قائم نہیں رہتی۔ ہمارا سیاسی کارکن یہ نہیں جان پایا کہ ایک سیاسی لیڈر سے اس کا تعلق اصلاً دکاندار اورگاہک کا تعلق ہے۔
کیا ایک عام صحابی نہیں جانتا تھا کہ خدا کے حضور اور بارگاہِ نبوت میں ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا کیا مقام ہے؟ یہی ابوبکرؓ اور یہی عمرؓ جب ایک سیاسی راہنما اور حکمران کے طور پر سامنے آتے ہیں تو اس کا رویہ بدل جاتا ہے۔ وہ عقیدت کو ایک طرف رکھتا اور اپنے لیڈر کے اقدامات کو تنقیدی نظر سے دیکھتا ہے‘ یہاں تک کہ اس کے لباس کو بھی۔ کوئی بات معمول سے ہٹ کر دکھائی دے تو سرِ بزم سوال کرتا ہے۔ صحابہ کی جماعت‘ عقیدت مندوں کا کوئی اجتماع نہیں تھا جو سیاسی راہنماؤں سے کسی روحانی رشتے میں باندھے ہوئے تھا۔ بات تعلق بالرسول کی ہے تو بلالؓ بھی سردار ہیں اور سر آنکھوں پر۔ اگر معاملہ حکمرانوں کا ہے تو پھر دوسری بات ہے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے اپنے پہلے ہی خطبے میں انہیں اسی رویے کی تلقین کی تھی۔ سیدنا عمرؓ نے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ عام شہری ان کو سیدھا رکھنے میں ایک سخت ناقد کی نگاہ رکھتا ہے۔ ریاستِ مدینہ اسی طرح وجود میں آئی۔
جدید جمہوری ریاست بھی اسی اصول پر قائم ہوئی ہے۔ مغرب میں لوگ اپنے راہنماؤں پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ ان سے دل کا نہیں‘ دماغ کا تعلق قائم رکھتے ہیں۔ وہ اپنے راہنماؤں پر اندھے اور بہرے ہو کر اعتماد نہیں کرتے۔ ان کے تضادات کا دفاع نہیں کرتے۔ ان سے وضاحت مانگتے اور اگر اطمینان نہ ہو تو الگ ہو جاتے ہیں۔ وہ سیاسی اخلاقیات کو اہم جانتے ہیں مگر مذہب کو سیاست سے علیحدہ رکھتے ہیں۔ مذہب اور مذہبی شخصیات سے تعلق عام طور پر محبت و عقیدت کا ہوتا ہے۔ مذہب چونکہ مابعد الطبیعیاتی اساسات رکھتا ہے اور اس کی بنیاد پر قائم ہو نے والا کوئی رشتہ جوہری طور پر مادی نہیں ہوتا‘ اس لیے ایسے رشتوں میں عقیدت اور محبت کا پیدا ہو جانا فطری ہے۔ سیاسی راہنماؤں سے ہمارے تعلق کی بنیاد مادی ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا میں ہمیں کوئی خیر پہنچا سکتے ہیں یا نہیں۔
نظریاتی سیاست چونکہ ایک رومانوی تصور ہے‘ اس لیے نظریاتی جماعتوں میں بھی اس رومانویت کے زیرِ اثر عقیدت کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔ یہ ہمیں اشتراکی جماعتوں میں نظر آتا ہے اور مذہبی جماعتوں میں بھی۔ تاہم یہ اب دنیا بھر میں متروک ہوتا جا رہا ہے‘ اگرچہ ہمارے ہاں قائم ہے۔ جب لوگوں پر یہ کھلتا ہے کہ مذہبی سیاست کرنے والی شخصیت بھی عام سیاسی راہنما جیسی ہے تو ان کو نفسیاتی دھچکا لگتا ہے اور وہ اس کے نتیجے میں بدگمان بھی ہو جاتے ہیں۔ ہمیں آئے دن ایسے لوگ ملتے ہیں‘ اگرچہ ان کی تعداد کم ہے۔ اگریہ اقتدار کی سیاست کو جان پائیں تو کبھی ایسے نفسیاتی المیے سے دوچار نہ ہوں۔
پاکستان کی سیاست اگر فی الجملہ سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نہیں کر سکی تو اس کا ایک سبب سیاسی کارکن بھی ہے۔ اس نے سیاسی راہنما سے تعلق قائم کرتے وقت یہ پہلو پیشِ نظر نہیں رکھا کہ سیاست کا تعلق دل سے نہیں‘ دماغ سے ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ معاملہ مزید سنگین صورت اختیار کر چکا ہے کہ لوگ سیاسی راہنماؤں میں اب سماجی مصلح بھی تلاش کر رہے ہیں۔ وہ اقتدار کی سیاست کے سادہ عمل کو سماجی تبدیلی کا ایک ہمہ جہتی عمل سمجھ رہے ہیں۔ بظاہر معقول لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ سیاسی راہنما کے بھیس میں انہیں مسیحا مل سکتا ہے یا مل گیا ہے۔
جس طرح مرید کی سادہ لوحی نے مذہبی استحصال کے ایک وسیع کاروبار کو جنم دیا ہے‘ اسی طرح سیاسی کارکن کی سادگی نے بھی سیاسی استحصال کے ایک نظام کو جنم دیا ہے۔ وہ اپنی سادگی کے باعث کبھی زندگی جیسا قیمتی اثاثہ بھی گنوا دیتا ہے۔ جب کبھی کوئی سیاسی تحریک اٹھتی ہے تو مجھے سب سے زیادہ اس کارکن کی فکر ہوتی ہے جسے اقتدار کے اس آتش کدے کا ایندھن بننا ہوتا ہے۔ لیڈر صرف اس کو بھڑکانے کا کام کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو بھی اس آگ سے دور رکھتے ہیں۔ کارکن‘ پروانے کی طرح‘ اس میں جل کر خاک ہو جاتا ہے۔
سیاسی کارکن کو اس انجام سے محفوظ رکھنے کے لیے سیاسی کلچر کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام ان لوگوں کا ہے جو رائے ساز ہوتے ہیں۔ میڈیا سب سے اہم ہے مگر اس پر ان کا غلبہ ہے جو کاروبار کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا ہدف دیکھنے والوں (Subscribers) کی تعداد میں اضافہ ہے۔ انہیں اس سے دلچسپی نہیں کہ معاشرے کو اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ اسے اگر اس کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا پڑے تو یہ میڈیا اس سے بھی گریز نہیں کرتا۔ سیاسی کارکن اتنا سادہ لوح ہے کہ ایک سوراخ سے بار بار ڈسا جاتا ہے۔ خبر کے ایک ذریعے سے بار بار جھوٹ سنتا ہے اور بدمزہ نہیں ہوتا۔ اس ماحول میں کون سی تعلیم اور کیسی تربیت؟
جس طرح پیری مریدی کا کاروبار سدا بہار ہے‘ اسی طرح اقتدار کی سیاست کا یہ کاروبار بھی سدا بہار ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب تک لوگ استحصال کرانے پر آمادہ ہیں‘ ان کا ستحصال ہوتا رہے گا۔ اہلِ سیاست کے لیے لاشیں محض اعداد و شمار ہیں۔ سیاسی کارکن کا لہو کہانی میں صرف رنگ بھرنے کے لیے ہے۔ مصطفی زیدی یاد آئے:
وہ داستاں تھی کسی اور شہزادے کی
مرا لہو تھا فقط زیبِ داستاں کے لیے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں