کسی سیاسی شخصیت یا منصِب کا ایک اعتبار ہوتا ہے‘ بھرم ہوتا ہے‘ ورنہ سارے قول وقرار اور وعد و وعید بے معنی ہو جاتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے سابق دور میں اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے ساتھ پختہ وعدہ کیا تھا کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹیز ایکٹ کے تحت ہو گی اور اس کیلئے پارلیمنٹ سے بل پاس کرا کے ایکٹ بنایا جائے گا۔ اُس وقت مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم حکومت کے ایک مؤثر اتحادی تھے اور جب حکومت پر سپریم کورٹ کی طرف سے دبائو آیا تو انہوں نے ہی عوامی سطح پر اس دبائو کی بھرپور مزاحمت کی تھی۔ لیکن حکومت کے آخری دن پارلیمنٹ سے 24گمنام یونیورسٹیوں کے چارٹر منظور کرا لیے گئے‘ مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر وعدے کے باوجود اس بل کو دونوں ایوانوں میں پیش کرنے سے روک دیا گیا۔ پھر چھبیسویں آئینی ترمیم ایک اہم مرحلہ تھا‘ اس کے پاس کرانے میں مقتدرہ کی خواہش بھی شامل تھی‘ وزیراعظم اور حکومتی اتحاد کے زُعماء مولانا فضل الرحمن کے آستانے کے چکر لگاتے رہے‘ جنابِ بلاول بھٹو زرداری بھی متعدد مرتبہ گئے۔ مولانا سے وعدہ کیا گیا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے ساتھ پارلیمنٹ میں یہ بل بھی پاس کرا کے صدر کے دستخطوں کے بعد ایکٹ کی صورت میں نافذ کر دیا جائے گا۔ مگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہونے کے باوجود اسے مؤخر کیا جاتا رہا اور آخرکار یہ بتایا گیا کہ صدر نے کہا ہے: ''اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی مسئلہ ہے‘‘۔ ہمیں اس پر شدید حیرت ہے‘ کیونکہ 2004ء میں مدارس کی رجسٹریشن کیلئے سوسائٹیز ایکٹ میں سیکشن 21 کا اضافہ کرنے کی خاطر پہلے بل پارلیمنٹ سے پاس کرا کے ایکٹ بنا اور بعد میں چاروں صوبائی اسمبلیوں اور آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے پاس کرا کے ایکٹ بنایا گیا اور اس پر عمل درآمد بھی ہوا۔ وفاقی دارالحکومت میں قائم مدارس کیلئے تو بہرحال ایکٹ پارلیمنٹ ہی سے پاس کرانا ہو گا۔
سول حکمرانوں‘ سیاسی قائدین بالخصوص وزیراعظم کے وقار واعتبار پر یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ ماضی میں ایم کیو ایم صوبائی حکومت میں پیپلز پارٹی کی شریکِ اقتدار تھی‘ وہ کہا کرتے تھے: ''ہم حکومت میں شریک ہیں‘ اقتدار میں نہیں‘‘، تو کیا جنابِ شہباز شریف کے سپرد بھی صرف حکومت ہے‘ اقتدار نہیں ہے‘ جبکہ ساری ناکامیاں تو سول حکمرانوں کے کھاتے میں آتی ہیں اور انہیں آنے والے انتخابات میں اس کی قیمت بھی چکانا ہوتی ہے۔
اچانک پیر کو اسلام آباد میں ہلچل شروع ہوئی‘ علماء ومشایخ کے نام سے ایک اجتماع منعقد کرکے دعویٰ کیا گیا کہ اٹھارہ ہزار مدارس محکمۂ تعلیم کے ساتھ رجسٹرڈ ہو چکے ہیں اور ہم اسے رول بیک نہیں کرنے دیں گے۔ اس طرح کی سرگرمیاں عالَمِ غیب کی اشیرباد پر اچانک منظرِ عام پر آتی ہیں‘ ان کے سب کردار اور ان کا جھکائو ہر ایک کو معلوم ہے‘ یہ کوئی سربستہ راز نہیں ہے۔ اٹھارہ ہزار مدارس کی حقیقت ہمیں معلوم ہے‘ اٹھارہ ہزار مدارس اور لاکھوں طلبہ کا امتحانی ریکارڈ ہی کوئی ہمیں بتا دے‘ ہماری تنظیمات کے دفاتر میں امتحانی ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ شکل میں ہر وقت دستیاب ہے۔ اول تو یہ کہ کس نے کہا ہے: ان مدارس کو رول بیک کیا جائے‘ محکمۂ تعلیم کے ساتھ منسلک رہنا ان کی اپنی ترجیح ہے‘ اس پر ہمیں کوئی اعتراض ہے اور نہ ہم نے کبھی یہ مطالبہ کیا ہے کہ ان کی محکمۂ تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کو ختم کر دیا جائے۔ ہماری دعا ہے: آپ جہاں رہیں خوش رہیں‘بلکہ اگر کوئی اور مدارس بھی ان کے ساتھ جڑنا چاہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سوسائٹیز ایکٹ کے تحت مدارس رجسٹریشن کی بابت بل میں یہ امر واضح کر دیا گیا ہے کہ جو مدارس محکمۂ تعلیم کے ساتھ رجسٹرہونا چاہیں‘ وہ آزاد ہیں‘ ان پر کوئی قدغن نہیں ہو گی‘ تو پھر اس اضطراب کا سبب کیا ہے۔ہماری معلومات کے مطابق تو کرایہ نامہ کی طرح مدارس نے ایک رجسٹریشن فارم پُر کر کے محکمۂ تعلیم میں جمع کرا دیا ہے‘ اُس میں بھی کافی ثنویت ہے کہ اُن میں سے کئی محکمۂ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہماری تنظیمات کے ساتھ بھی ملحق ہیں‘ اُن کے طلبہ ہمارے نیٹ ورک میں شامل ہوکر امتحانات دے رہے ہیں اور اسناد وشہادات حاصل کر رہے ہیں۔ جب سب حقائق منظرِ عام پر آئیں گے تو اصل حقیقت سامنے آجائے گی۔
حال ہی میں نجم سیٹھی نے کہا ہے: ''اداروں میں سربراہان تبدیل ہو جاتے ہیں‘ ان کے ذاتی مفادات کی حد تک تبدیلیاں آ جاتی ہیں‘ لیکن باقی اندرونی پالیسیاں حسبِ سابق رہتی ہیں‘ فائلیں اسی حالت میں برقرار رہتی ہیں اور ورثے کے طور پر جانشینوں کو منتقل ہوتی رہتی ہیں‘‘۔ ورنہ کیا سبب ہے کہ ایک طرف سابقین کے خلاف کارروائیاں اور دوسری طرف اُن کی پالیسیوں کا تسلسل‘ اسے کیا نام دیا جائے۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید تو ریٹائرڈ ہو چکے ہیں‘ لیکن ان کی روح اداروں کے اعصابی نظام میں رواں دواں ہے‘ اُن کی ''بدروحیں‘‘ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کے مناظر ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ ورنہ کیا بات ہے کہ فیض حمید صاحب تو معتوب قرار پائیں اور اُن کی فیض رسانیوں سے فیض یاب ہونیوالے بدستور متحرک رہیں۔
ہم نے محکمۂ تعلیم کے ساتھ رجسٹرڈ ہونے والے مدارس سے کبھی کوئی سروکار رکھا ہے‘ نہ انہیں موضوعِ بحث بنایا ہے اور نہ اُن کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی ہے‘ تو اُن کا اضطراب سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسا مطالبہ تو کسی نے نہیں کیا کہ اُن کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے یا موقوف کر دی جائے‘ ہم ان کے مقاصد کی بار آوری کے لیے دعاگو ہیں۔ ایک بزرگ نے کہا: ''مولانا فضل الرحمن کو دس ہزار بندے لانے دیں‘ ہم اسلام آباد کے مدارس سے تیس ہزار بندے لے آئیں گے‘‘۔ ان کی خدمت میں بصد ادب گزارش ہے: ''حضور! مولانا کو چھوڑیے‘ آپ اپنے تیس ہزار بندے کل ہی لے آئیے‘ آپ کیلئے تو ہر طرف ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں‘ میڈیا آپ کے آگے دست بستہ کھڑا ہے‘ پس دیر کس بات کی! ہاتھ کنگن کو آرسی کیا‘ بشرطیکہ ریکارڈ سے ثابت ہو جائے کہ یہ طلبہ فلاں فلاں مدرسے کے ہیں جو محکمۂ تعلیم کے پاس رجسٹرڈ ہے۔
جس پر عالَمِ غیب کا ظلِّ عاطفت ہو‘ اس کیلئے ٹی وی چینلوں کی سکرینوں کا وقف ہونا حیرت کی بات نہیں ہے‘ یہ مناظر تو ہم 2014ء سے مسلسل دیکھ رہے ہیں‘ یہ اتنا بڑا قومی مسئلہ تھا کہ ٹی وی چینلوں کو اپنے پرائم ٹائم پروگرام اس کیلئے وقف کرنا پڑے‘ جب کسی خاص مسئلے کو مین سٹریم الیکٹرانک میڈیا اپنی خصوصی توجہات کا مرکز بنا لے‘ تو اس کا سبب جاننا ہر ایک کیلئے آسان ہو جاتا ہے۔ ہم کئی مرتبہ واضح کر چکے ہیں کہ فیٹف کا مسئلہ صرف 'منی لانڈرنگ‘ ہے اور اس کے معنی ہیں: ''رقوم کی غیر قانونی ترسیل‘‘ تو جب دینی مدارس وجامعات کے اکائونٹس بند کر دیے جائیں گے اور نئے اکائونٹس کھولنے کا راستہ مسدود کر دیا جائے گا تو رقوم کی آمد وخرچ شفاف کیسے ہو گی۔ شفافیت تو بینک اکائونٹ سے آتی ہے کہ سب کچھ سٹیٹ بینک کی کھلی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے اور جب اس کا راستہ بند کر دیا جائے تو غیر قانونی راستے خود کھل جاتے ہیں۔ فارسی کا محاورہ ہے: ''بریں عقل ودانش بباید گریست‘‘ یعنی ایسی عقل ودانش پر رویا ہی جا سکتا ہے کہ دعویٰ کچھ ہو اور نتیجہ اس کے برعکس برآمد ہو‘‘۔
ایک سوال یہ کیا جاتا ہے: ''دینی مدارس تعلیمی ادارے ہیں‘ ان کا وزارتِ صنعت سے کیا واسطہ‘‘۔ گزارش ہے کہ سوسائٹیز ایکٹ کے تحت ہزاروں نہیں‘ بلکہ لاکھوں خیراتی‘ رفاہی‘ فلاحی اور تعلیمی ادارے رجسٹرڈ ہوتے ہیں‘ انجمن یا ہیئتِ انتظامیہ رجسٹرڈ ہوتی ہے‘ ادارے وزارتِ صنعت کے تحت کام نہیں کرتے‘ بلکہ اس قانونی انجمن یا ہیئت ِ انتظامیہ کے تحت کام کرتے ہیں۔ کئی سکول‘ کالج ایسی ہی انجمنوں کے تحت قائم بھی ہوئے اور کام بھی کرتے رہے ہیں۔ ایسے تبصرے وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں حقائق کے بارے میں سرے سے معلومات ہی نہیں ہوتیں‘ بس ''کاتا اور لے دوڑی‘‘ کے مصداق زبان وقلم قینچی کی طرح چلتے ہیں‘ خواہ اس کے پیچھے معنویت ہو یا نہ ہو۔