چھ ماہ کے وقفہ کے بعد مجھے اکتوبر‘نومبر میں تین ہفتے اپنے آبائی وطن میں گزارنے کا موقع ملا۔ بسم اللہ حسبِ معمول لاہور سے ہوئی۔ لاہور میں جن سمجھدار اور باخبر حضرات سے ملاقات ہوئی اُن میں خرم نواز گنڈاپور‘ میجر جنرل (ر)زاہد مبشر‘ قیوم نظامی‘ فرخ سہیل گوئندی‘ ڈاکٹر راؤ منظر حیات‘ انوار الحق (سابق چیف جسٹس)‘ ڈاکٹر خالد رانجھا‘ خورشید محمود قصوری‘ سرفراز چیمہ‘ ممتاز وکیل اور سابق سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار سینیٹر حامد خان‘ اسد منظور بٹ (صدر لاہور ہائیکورٹ بار) اور عابد ساقی (سابق رکن پاکستان بار کونسل) شامل ہیں۔ میں فیصل آباد‘ جوہر آباد‘ اسلام آباد اور گوجر خان میں بار ایسوسی ایشنز کا مہمان بنااور ان چاروں مقامات پر پاکستان کے مسائل کا حل بتایا اور وہ تھا موجودہ فرسودہ‘ گلے سڑے‘ بوسیدہ اور عوام دشمن نظام کی جگہ ایک ایسا نظام قائم کرنا جو عوام دوست ہو‘ جس کی بنیاد سلطانیٔ جمہور‘ احتساب‘ شفافیت اور اقتدار و اختیارات کی عدم مرکزیت پر ہو۔ اگر 130 اضلاع میں 130 ضلعی حکومتیں قائم کی جائیں‘ جو خود مختار ہوں تو سال بھر میں ہمارے نصف سے زیادہ مسائل حل ہو جائیں گے۔
اس موقع پر میں نے وکلا کی توجہ عدالتوں میں لاکھوں زیر التوا مقدمات کی طرف بھی مبذول کرائی۔ میری تجویز یہ تھی کہ ہم برطانوی عدالتوں کے جیوری سسٹم اور ہزاروں اعزازی مجسٹریٹ کے نہایت کامیاب اور فعال نظام کی طرز پر پاکستان میں بھی ہزاروں ریٹائرڈ سرکاری افسروں‘ جج صاحبان‘ اساتذہ‘ ڈاکٹروں‘ وکلا‘ مزدور اور کسان رہنماؤں پر مشتمل نمائندہ ٹریبونل (جرگہ) بنائیں۔ جس کے اجلاس مساجد میں منعقد ہوں اور وہ دیوانی اور فوجداری مقدمات سننے کے مُجاز ہوں۔ میں نے ہر جگہ اور ہر فورم پر عوام دوست محاذ بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس وقت خلقِ خدا کا کوئی پُرسان حال نہیں‘ ان کا کوئی ترجمان نہیں۔ لمحۂ موجود کا تقاضا یہ ہے کہ خلقِ خدا کے مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کی جائے۔
گزشتہ دنوں یہ خبر آپ نے پڑھی ہو گی کہ ملتان نشتر ہسپتال میں ڈاکٹروں اور عملے کی غفلت کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں لوگ ایڈز کا شکار ہو گئے۔ لاہور کے ایک ہسپتال میں کھلے مین ہول کے اندر ایک بچہ گر کر جاں بحق ہو گیا۔ وکلا کا یہ فرض ہے کہ وہ مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا اور متاثرین کو معاوضہ دلائیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت نے ان دو بڑے سیکنڈلز پر ایک لفظ تک نہیں کہا۔ ان کے نزدیک ان مسائل کی اتنی بھی اہمیت نہیں کہ ہمارا حکمران طبقہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کا روا دار ہو۔ لاہور اور ملتان تو بڑے شہر ہیں‘ ان میں رونما ہونے والے واقعات تو اخباروں کے صفحۂ اوّل پر جگہ پاتے ہیں۔
میں نے اپنی تقاریر میں سامعین کو پاکپتن کی تحصیل عارف والا کے ایک دور افتادہ اور گمنام گاؤں (چک163/EB) میں ہونے والی ایک غیرمنصفانہ کارروائی کی تفصیل بتائی۔ جہاں 3979 کنال زمین‘ 1928ء سے وہاں کاشتکاری کر رہے کسانوں سے لے کر‘ انگریز راج کے بنائے ہوئے ایک قانون (Colonisation of Government Land Act) کے تحت محض ایک لاکھ روپے کی حقیر رقم کے عوض لیز پر دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ کاشتکاروں کے وکلا نے مذکورہ اقدام کی روک تھام کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ میں 19نومبر تک پاکستان میں رہا مگر مجال ہے کہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت نے کاشتکاروں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا ہو۔ بھولے سے ہمدردی کا ایک لفظ بھی ان کی زبان سے ادا نہیں ہوا۔ نہ اب ہوا اور نہ آئندہ کبھی ہو گا۔
اسلام آباد میں میرے دو کام تھے۔ ایک تھا SPDI کی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت اور لوکل گورنمنٹ کے موضوع پر ہونے والے مذاکرہ کی صدارت۔ دوسرا کام تھا قومی مجلسِ مشاورت کے عوام دوست محاذ کے اجلاس میں برطانوی ہم خیال دوستوں کی نمائندگی‘ جس میں جاوید حفیظ (سابق سفیر)‘ کنور دلشاد (سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن)‘ امتیاز گل ‘ عدنان چوہان اور رضا کھوکھر صاحبان بھی شریک تھے۔ میں فیصل آباد گیا تو ایک ایسا تجربہ ہوا جو اپنی طویل زندگی میں انوکھا اور ناقابلِ فراموش تھا۔ لطیف انصاری صاحب (پاکستان لیبر تحریک کے بانی ) میرے میزبان تھے۔ میں وقتِ مقررہ پر غلام محمد آباد نامی بستی میں اس اجلاس میں تقریر کرنے پہنچا جو لیبر تحریک کے جنم دن کی خوشی میں منعقد ہونا تھی۔ میں جلسہ گاہ میں پہنچا تو میری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میں سٹیج کی طرف جانے لگا تو منظر یہ تھا کہ میرے اور لطیف انصاری کے آگے آگے دو عوامی فنکار بڑے جوش و خروش سے ڈھول پیٹتے چل رہے تھے۔ مکانوں کی چھتوں سے ہم پر گل پاشی کی جا رہی تھی۔ یقین جانیے کہ اگر میں صرف اس تقریب میں حصہ لے کر برطانیہ واپس آجاتا تو مجھے یہ دورہ بے حد کامیاب لگتا۔ مزدوروں کی بے پایاں محبت کے اس والہانہ اظہار نے مجھے نہال کر دیا۔ میں نے یہ جانا کہ مجھے مزدوروں کے ساتھ 66 سالہ دوستی کا وہ کمال انعام ملا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میں فیصل آباد کے محنت کشوں کا شکر گزار اور احسان مند ہوں کہ انہوں نے اپنے ایک گمنام ساتھی اور دوست کی اتنی عزت افزائی کی جس کا وہ ہر گز مستحق نہ تھا۔
پاکستان میں میرے قیام کو ابھی ایک ہی دن گزرا تھا کہ قیوم نظامی صاحب کے توسط سے مجھے ایک فورم سے خطاب کرنے کی دعوت ملی جس کا نام تعمیرِ پاکستان فورم ہے۔ اس فورم کے منتظم جناب ایس ایم اشفاق تھے۔یہ فورم محض گفتار کا غازی نہیں بلکہ اس نے افکارِ تازہ پر مشتمل ایک کتاب بھی شائع کی ہے جس کا نام ہے ''تعمیرِ وطن کی راہیں‘‘۔ کرنل (ر) مقصود مظہر راٹھور ایوانِ علم و فن کے روحِ رواں نے بکمالِ مہربانی مجھے کلیاتِ اقبال کا ایک بڑا خوبصورت نسخہ کا تحفہ دیا جو لندن میں میری لائبریری کی زینت بن چکا ہے۔ میں اس کالم کے ذریعے ہر شہر میں اپنے میزبان (خصوصاً اسلام آباد میں راشد اعوان کا) تہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اسلام آباد میں تبسم نورین نے میری معاونت کی‘ ان کا بھی خصوصی شکریہ۔ میں خوش ہوں کہ میں حسبِ معمول لاہور اور اسلام آباد سے بہت سی اچھی کتابیں (جن میں پنجابی ادب کے شاہکار شامل ہیں) خریدنے اور برطانیہ ساتھ لانے میں کامیاب رہا۔ میرا فرض ہے کہ میں فراز صاحب کا بھی شکریہ ادا کروں کہ وہ وقت نکال کر مجھے مرکزی لاہور میں شالامار باغ کی نواحی بستی میں لے گئے تاکہ میں وہاں اُردو زبان کے سب سے بڑے ادیب محمد سلیم الرحمن سے مختصر مگر یادگار ملاقات کر سکوں۔ جس کمرے میں اُن سے ملاقات ہوئی‘ وہ کتابوں سے اٹا پڑا تھا۔ معلوم ہوا کہ کتابوں کے اس شاندار ذخیرہ کے مالک سلیم الرحمن کے قریبی عزیز اقبال صاحب ہیں۔ میں نے پنجابی‘ اُردو لغات کی دو ضخیم جلدوں میں دلچسپی ظاہر کی تو انہوں نے بصد مہربانی مجھے وہ دونوں جلدیں بطور تحفہ دے دیں۔ میں اپنی بقیہ عمر ان ضخیم کتابوں کے علاوہ یہ تحفہ دینے والے عزیز کے احسان کا وزن اٹھا کر گزاروں گا۔
لاہور میں سموگ کی وجہ سے میں واپسی کی مقررہ تاریخ سے نو دن پہلے برطانیہ واپس آگیا۔ گھر پہنچ کر پہلا کام یہ کیا کہ آئندہ برس ماہِ اپریل میں (عید الفطر کے بعد) پاکستان جانے کے پروگرام کی تفصیلات مرتب کیں۔