اُٹھے گا جب جمِّ سرفروشاں

آج کے کالم کا عنوان فیض صاحب کی ایک کمال کی انقلابی نظم سے مستعار ہے۔ قارئین کی اکثریت یقینا اس نظم کے ہر شعر سے اور ہر شعر کے ہر لفظ سے اور ہر لفظ کے (خون کی گردش کو تیز کر دینے والے) معنی سے بخوبی آشنا ہوگی۔ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ یاددہانی کے لیے اس نظم سے کالم شروع کیا جائے۔
ہر اک اولی الامر کو صدا دو کہ اپنی فردِ عمل سنبھالے
اُٹھے گا جب جمِ سرفروشاں‘ پڑیں گے دار و رسن کے لالے
کوئی نہ ہوگا کہ جو بچالے‘ جزا سزا سب یہیں پہ ہو گی
یہیں عذاب و ثواب ہوگا‘ یہیں سے اٹھے گا شورِ محشر
یہیں پہ روزِ حساب ہو گا
کچھ ہفتے قبل بحیرئہ عرب کے اُس پار مشرقی افریقہ کے ساحلی ملک کینیا سے ایک ولولہ انگیز خبر موصول ہوئی۔ خبر کیا تھی‘ سرفروشوں کے اُٹھنے‘ ایک زبردست عوامی تحریک شروع ہو جانے‘ پارلیمنٹ پر حملہ آور ہو کر اس کے ایک حصہ کو نذرِ آتش کر دینے‘ لاٹھی‘ گولی اور واٹر کینن کی پروا نہ کرنے‘ 27 نہتے اور غیر مسلح مظاہرین کی اپنی جان کی قربانی دینے‘ صدرِ مملکت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دینے‘ آقائوں کے خیموں کی (بقول اقبال) طنابیں توڑ دینے اور اپنے ملک (جہاں اشرافیہ اور حکمران طبقہ ہمارے ملک کی طرح مراعات یافتہ ہے) کے اُمرا کے درو دیوار ہلا دینے کی خبر۔ایک لمحہ کے توقف کے بغیر میں نے دیگر موضوعات کو ایک طرف رکھ کر مندرجہ ذیل سطور لکھیں کہ یہ نئے سنگ میل اور اُفق پر چمکتے ہوئے ایک نئے روشن ستارے کی خوشخبری سناتی ہیں۔
وسط جون سے وسط جولائی تک کینیا کے دارالحکومت نیروبی کو افتادگانِ خاک کے زبر دست مظاہروں نے اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ ان کا احتجاج بجٹ میں لگائے گئے عوام دشمن‘ ناقابلِ توضیح‘ سراسر بے جواز اور ناقابلِ برداشت نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک بار مظاہرین (طاقتوروں کے ہاتھوں) اپنے بہائے گئے خون کی لکیر عبور کر جائیں تو (بقول فیض) خاکِ نشینوں کا بہتا ہوا لہو ہمیشہ رزقِ خاک نہیں بنتا بلکہ وہ کئی بار پرانے نظام کی چُولیں ہلا دینے کا کارنامہ سرانجام دیتا ہے۔ محنت کش اور نچلے متوسط طبقے کے لوگ (خصوصاً نوجوان جو کینیا کی آبادی کا 70 فیصد ہیں) پکار اُٹھے ہیں کہ بس بہت ہو چکا۔ Enough is enough۔ یہ بپھرے ہوئے نوجوان جانتے ہیں کہ کینیا کی کل سرکاری آمدنی کا نصف سرکاری افسروں کی تنخواہوں اور مراعات پر صرف ہو جاتا ہے۔ (بنگلہ دیش میں ہونے والے زبردست عوامی ہنگاموں کو بھی اس میں شامل کر لیں)
کالم یہاں تک پہنچا تھا کہ بجلی کی طرح یہ خیال ذہن میں کوندا کہ کینیا اور پاکستان میں بڑا فرق یہ ہے کہ ہمارے ہاں Jomo Kenyatta کے پائے کا کوئی انقلابی رہنما (ماسوائے عبیداللہ سندھی‘ حسرت موہانی اور سبھاش چندر بوس کے جو یکے بعد دیگرے ناکام رہے) پیدا نہیں ہوا۔ کینیا میں برطانوی راج کے خلاف Mau Mau نامی انقلابی اور مسلح جدوجہد کرنے والی انقلابی تنظیم سرگرمِ عمل ہوئی تھی۔ ہمارے ہاں یہ کام ایک سیاسی جماعت (مسلم لیگ) نے کیا جو بڑے زمینداروں‘ بابوئوں‘ انگریزوں سے زیادہ ہندوئوں کے دشمنوں‘ سرمایہ داری اور جاگیرداری کو عین اسلام سمجھنے والوں‘ بیک وقت کانگریس اور خاکساروں‘ احراریوں سے لڑنے والوں اور برطانوی سامراج کے بڑے مخالفین اور سالہا سال سے عقوبت خانوں میں سزائیں بھگتنے والے دیانتدار اور حق گو رہنمائوں مثلاً خان عبدالغفار خان‘ کی دل و جان سے عزت نہ کرنے والوں اور انہیں انگریز سے بھی زیادہ ذلیل و خوار کرنے والوں پر مشتمل تھی۔ یہ تو قائداعظم کی فراست‘ تدبر‘ یقینِ محکم اور بے داغ کردار کی خوبیوں اور قوتِ اُخوتِ عوام کا مجموعہ تھا جس کی بدولت قیامِ پاکستان کا معجزہ رونماہوا۔ اس معجزے کی بدولت ہماری بڑی بڑی خامیوں پر پردہ پڑ گیا مگر قیام پاکستان کے بعد ہماری ہر حکومت کی عوام دشمن اور سامراج پرور حکمت عملی سے یہ پردہ چاک ہوتا گیا۔ ہم روبہ زوال ہوتے ہوئے اتنی پست سطح تک گر چکے ہیں کہ اب ہمارے نئے مالی سال کے بجٹ کا نصف حصہ سرکار اور اس کے افسران کی مراعات میں ہی خرچ ہو جاتا ہے۔ 2011 ء میں (صرف 13 برس قبل) پاکستان کی وفاقی حکومت کو چلانے کا سالانہ خرچ 202 ارب روپے تھا جواب بڑھتے بڑھتے 839 ارب روپے یعنی چار گنا زیادہ ہو چکا ہے۔ سرکاری افسروں (وہ وفاقی ہوں‘ صوبائی یا اضلاعی) کی کارکردگی پہلے سے کم از کم چار سو فیصد زیادہ ناقص‘ کھوکھلی‘ عوام دُشمن اور کرپشن کی غلاظت میں لتھڑی ہوئی ہے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ آج جو بحیرہ عرب کے مشرقی ساحل پر ہو رہا ہے وہ کل کو اس کے مغربی ساحل پر بھی ہو سکتا ہے۔ یہ تاریخی عمل ہے۔ یہ تقدیر کے قاضی کا ازل سے فتویٰ اور نوشتۂ دیوار ہے۔ خطرے کی گھنٹی ہمارے ہاں بھی بج رہی ہے۔ بھلے ہم کانوں میں رُوئی ٹھونس لیں مگر وہ بدستور بجتی رہے گی۔
کیا ہم نے 1971ء سے کوئی سبق سیکھا؟ قائداعظم کے بنائے گئے ملک کو دولخت ہوئے 53 برس گزر گئے مگر ہم نے آج تک یہ بنیادی سبق نہیں سیکھا کہ سیاسی مسائل‘ دشواریاں اور چیلنجز بزورِ شمشیر حل نہیں ہوتے۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کو 20 سال کی جنگ میں بے سرو سامان طالبان کے ہاتھوں عبرتناک شکست نہ ہوتی۔ اس سے قبل 1975ء میں شاہِ ایران اپنی مٹھی میں ایرن کی مٹی لے کر ملک سے فرار نہ ہوتا اور جنابِ خمینی کی قیادت میں نہتی اور غیر مسلح عوامی انقلابی قوت ایران کی بہت بڑی سپہ پر غالب نہ آجاتی۔ آج پاکستان میں شمال سے لے کر جنوب تک‘ گلگت سے لے کر کراچی تک‘ بدامنی اور لاقانونیت کا ایک سیلابِ بلا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ تندو تیز ہوتا جا رہا ہے۔ حبیب جالب نے کہاتھا :
اک ستم اور میری جاں کہ ابھی جاں باقی ہے
اسی طرح فیض کی یہ نظم یقینا سب نے پڑھی ہوگی کہ
حذر کرو مرے تن سے یہ سم کا دریا ہے
حذر کرو کہ مرا تن وہ چوب ِصحرا ہے
جسے جلائو تو صحنِ چمن میں دہکیں گے
بجائے سرو سمن میری ہڈیوں کے ببول
اسے بکھیرا تو دشت و دمن میں بکھرے گی
بجائے مشکِ صبا مری جانِ زار کی دھول
حذر کرو کہ مرا دل لہو کا پیاسا ہے
اگر اس کا مطلب اور پاکستان کے موجودہ حالات سے گہرا تعلق سمجھ میں نہ آئے (جس کا زیادہ خدشہ ہے) تو براہِ مہربانی نیم تعلیم یافتہ سیاسی افراد سے رجوع کرنے کے بجائے اظہار الحق صاحب یا خورشید ندیم صاحب جیسے عالم فاضل کالم نگاروں یا لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کریں۔ قوت کی بجائے قوتِ اُخوتِ عوام پر انحصار کریں۔ کالم نگار ماہِ خزاں میں وطن عزیز آئے گا تو اپنے ساتھ بہت سے پھول بھی لائے گا۔ ہم گرداب سے نکلیں گے تو اندھیرے کی جگہ روشنی لے گی۔ فصلِ خزاں میں سوکھ جانے والی ٹہنی سحابِ بہار کی برکت سے پھر ہری ہو جائے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں