یاد پڑتا ہے کہ 1985ء سے پہلے پاکستان میں تقریباً ہر برائی اور پسماندگی کا ذمہ دار جاگیرداروں‘و ڈیروں اور زمینداروں کو سمجھا جاتا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ بہت سی خرابیاں اس کلاس میں تھیں جو ترقی اور جدیدیت کی راہ میں رکاوٹ سمجھی جاتی تھیں‘ زمینداروں نے کہیں سکول نہیں بننے دیا تو کہیں سڑک کی راہ میں رکاوٹ ڈالی۔ چودھراہٹ کے نام پر غریب مزارعوں پر ظلم و ستم کی کہانیاں لوگوں کو دہلا دیتی تھیں۔ نہلے پر دہلا یہ کہ جاگیردار اور وڈیرے سیاست کو بھی کنٹرول کیے ہوئے تھے‘ لہٰذا تھانہ‘ کچہری اور ضلع کا نظام بھی وہ چلاتے تھے۔ اپنی رعایا کو ہر طرف سے جکڑا ہوا تھا۔ جنرل ضیا دور میں پی ٹی وی پر جو بھی ڈرامے چلے اور مقبول ہوئے اکثر فیوڈل اور زمیندار کلاس کے خلاف تھے۔ ان وڈیروں کے ظلم و ستم پر لکھے گئے ڈراموں نے عام لوگوں کے ذہن میں اس کلاس کے خلاف نفرت پیدا کی۔ کراچی پی ٹی وی سٹیشن سے ''جنگل‘‘اور ''دیواریں‘‘ جیسے مقبول ڈرامے وہ تھے جو سندھی وڈیرہ شاہی کے ظلم و ستم کے پس منظر میں لکھے گئے تھے۔ ''جنگل‘‘ڈرامہ جو میری پسندیدہ رائٹر نورالہدیٰ شاہ کا لکھا ہوا تھا‘رات کوجب پی ٹی وی پر چلتا تھا تو گلیاں سنسان ہو جاتی تھیں۔ میں 1980ء کی دہائی میں اپنے گائوں میں تھا اور ''جنگل‘‘ ڈرامہ کی اس سنسنی کو آج تک محسوس کرتا ہوں۔ ایک دفعہ سردیوں میں ماموں کے گھر جا کر قسط دیکھنے کی چکر میں اماں سے کُٹ بھی کھائی تھی‘ لیکن میں نے بھی سوچ رکھا تھا کُٹ کھا لوں گا لیکن ''جنگل‘‘ کی قسط مس نہیں کروں گا۔
اس بیک گراونڈ میں عام لوگوں کے ذہن میں یہ تاثر ابھرا کہ یہ دیہاتی ایلیٹ ملک و قوم کی ترقی کی دشمن ہے۔ یہ کلاس اپنی چودھراہٹ کے چکر میں ملک کو پیچھے لے جارہی ہے۔ کراچی میں اُردو سپیکنگ کلاس کا ایم کیو ایم کی شکل میں عروج اس سلسلے کی پہلی بڑی کامیابی تھی جو اس جاگیردارانہ ایلیٹ کے خلاف بولنا شروع ہوئی۔پنجاب کے جاگیردارنہ کلچر کو کراچی ہی سے چھپنے والے 'سب رنگ ڈائجسٹ‘ میں شوکت صدیقی نے ''جانگلوس‘‘ جیسے ناول کی شکل دی۔یوں پہلی دفعہ یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ اگر اس ملک نے ترقی کرنی ہے تو آپ کو شہروں کی پڑھی لکھی کلاس کو سامنے لانا ہوگا۔ یہ احساس بھی ابھرا کہ پاکستان کی تاجر اور بزنس کلاس ہی اس ملک کی ترقی کی ضامن ہے۔ ٹائی کوٹ پہنے اور کراچی‘ لاہور کے اچھے کالجوں سے پڑھے لکھے یہ نوجوان ہی اس قوم کا مستقبل ہیں۔ تاجروں کو اہمیت دی گئی کہ جو بڑے بڑے کاروبار سیٹ کرسکتے ہیں وہ ملک کو بھی چلا سکتے ہیں۔اس خیال کے پیچھے بھی جنرل ضیاکا دماغ تھا کیونکہ وہ بھٹو کی جماعت اور ووٹ بینک کو ہرٹ کرنا چاہتے تھے‘ جو انہیں اپنے لیے خطرہ محسوس ہوتا تھا۔ بھٹو کے ساتھی زیادہ تر زمیندار اور فیوڈل بیک گراونڈ کے لوگ تھے لہٰذا ان کے مقابلے میں شہروں سے تاجر کلاس کو سامنے لانا جنرل ضیاکی ایک سوچی سمجھی ترکیب تھی۔ یوں پنجاب اور لاہور سے نواز شریف کو آگے لایا گیا اور کراچی میں ایم کیو ایم سامنے آئی۔ نواز شریف کا امیج پنجاب کے میڈیا کی مدد سے یوں بنایا گیا کہ وہ پنجاب کی ایک پڑھی لکھی اور کامیاب بزنس فیملی سے ہیں۔ فیوڈلز کی طرح ظالم نہیں‘مزارعوں پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی سکولوں اور سڑکوں کے خلاف ہے۔ یوں پنجاب میں لوگوں کو نواز شریف کی طرف متوجہ کیا گیا۔ نواز شریف سے لاہور چیمبر آف کامرس کے عہدیدار اورارکان بھی ملتے گئے۔ اسحاق ڈار اور شریفوں کا تعلق بھی لاہور چیمبر سے شروع ہوا تھا جو بڑھتے بڑھتے رشتہ داری میں بدل گیا۔ یوں پنجاب کے تاجر اور بزنس مین اکٹھے ہوئے‘ جنرل ضیاکی اسٹیبلشمنٹ ان کی پشت پر تھی اور جو سفر ان تاجروں نے بیس‘ تیس سال میں سیاسی طور پر طے کرنا تھا وہ دو تین برسوں میں مکمل ہوگیا۔ نواز شریف پہلے وزیرخزانہ بنے‘ پھر وزیراعلیٰ اور پھر وزیراعظم۔ ادھر کراچی میں ایم کیو ایم بھی سندھ کے وڈیروں کے خلاف ایک طاقت بن کر ابھری جس نے بڑے بڑے برج الٹ دیے۔ یوں اس ماڈل نے پرانے جاگیرداروں اور زمینداروں کو سیاسی طور پر پیچھے دھکیل دیا۔ رہی سہی کسر MRD کی طرف سے 1985ء کے الیکشن کے بائیکاٹ نے پوری کر دی اور ایک بالکل نئی سیاسی کلاس ان غیرجماعتی الیکشن کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں پہنچ گئی جس کا سیاست سے زیادہ لالچ‘ پیسے اور ترقیاتی فنڈز میں ماردھاڑ سے تعلق تھا۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے وفاقی حکومت میں ان ایم این ایز کے منہ کو ترقیاتی فنڈ کا لہو لگایا تھا‘ جو وقت کے ساتھ زیادہ سرخ ہوتا گیا۔ نواز شریف نے وزیراعلیٰ بننے کیلئے صوبے میں ASI اور نائب تحصیلدار کی سیٹیں بطور رشوت ایم پی ایز کو پیش کر کے فاروق لغاری کو 1988ء کے وزارتِ اعلیٰ کے الیکشن میں ہرایا۔ وہی بات کہ فاروق لغاری کو جاگیرداروں کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا جبکہ نواز شریف کو ایک پڑھی لکھی بزنس کلاس کا ۔
دھیرے دھیرے پارلیمنٹ میں جاگیردار اور وڈیرے کم ہونا شروع ہو گئے۔ نواز شریف تاجروں اور بڑے صنعتکاروں کا نمائندہ بن کر ابھرا۔ ان کے مقابلے پر بینظیر بھٹو کو جاگیرداروں‘ زمینداروں اور دیہات کی پارٹی سمجھا گیا۔ شہروں کا اکثریتی ووٹ نواز شریف کو ملنے لگا اور دیہات کا ووٹ پیپلز پارٹی لینے گی۔ پیپلز پارٹی کو پھر احساس ہوا کہ کسانوں کا نمائندہ بن کر وہ ساری عمر الیکشن نہیں جیت سکتی لہٰذا انہیں بھی بڑے صنعتکاروں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ خودزرداری صاحب نے بھی بزنس مین کا روپ دھارا ور ان کا وہ قول بڑا مشہور ہوا‘ جو انہوں نے بینظیر بھٹو کو مشورہ دیا کہ اگر نواز شریف کو الیکشن ہرانا ہے تو نواز شریف جتنا پیسہ کمانا ہوگا۔
ایک بات جو پاکستانی بھول گئے وہ یہ کہ اگر وہ حکومت تاجروں کے حوالے کریں گے تو وہ حکومت کو ویلفیئر ریاست کے بجائے نفع نقصان کی بنیاد پر ہی چلائیں گے۔ وہ روزانہ یہ دیکھیں گے اس کاروبارِ سیاست میں انہیں آج کے دن کتنا فائدہ ہوا۔ وہ سیاست میں جاگیرداروں یا زمینداروں کی طرح چودھراہٹ کے نام پر جیب سے پیسہ خرچ کرنے کو تیار نہ تھے کہ ڈیرہ چلانا ہے اور نئی گاڑی لینی ہے چاہے زمین کیوں نہ بیچنی پڑے۔ کاروباریوں نے حکومت سنبھالی تو اسے کاروبار کی طرح چلایا۔ ایک سے دس فیکٹریاں لگیں‘ دس سے چالیس ہوگئیں‘ پھر دودھ کے پلانٹ لگا لیے‘ بینکوں میں حصہ ڈال لیا‘ہاؤسنگ سوسائٹیز میں فرنٹ مین رکھ لیے‘ مطلب وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہو کر وہ اپنی ہی حکومت کے ساتھ پرافٹ پر کاروبار کررہے تھے۔ پھر انہیں لگا اب کب تک پیسوں میں مال بنائیں‘ لمبا ہاتھ مارتے ہیں اور ڈالروں میں پرافٹ کماتے ہیں۔ یوں زرداری سے لے کر نواز شریف اور شہباز شریف تک آئی پی پیز کا کلچر متعارف کرایا گیا۔اب انکشاف کیا جارہا ہے کہ سو سے زائد آئی پی پیز میں پچاس کے قریب مالکان وہی پاکستانی تاجر‘ بزنس مین ہیں جو اس ملک کے حکمران بھی ہیں۔ وہ ڈالروں میں پیسہ اس حکومت سے لے رہے ہیں جسے وہ خود چلا رہے ہیں۔ ان کے پلانٹ چلیں یا نہ چلیں‘ بجلی پیدا کریں نہ کریں‘ انہیں پیسہ تو دینا پڑے گا۔ بجلی کے بلز نے بس کرا دی ہے لیکن ان تاجر حکمرانوں کو اس قوم پر ترس نہیں آرہا۔ یہ mercantile class عوام کو ریلیف دینے نہیں آئی تھی۔ یہ تو سب کاروباری تھے اور حکومت کے نام پر کاروبار کرنے آئے تھے اور کاروبار ہی کررہے ہیں۔ وہ یقینا حیران ہوتے ہوں گے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے‘ انہیں سمجھ کیوں نہیں آتی کہ وہ تو کاروبار کررہے ہیں۔ مجھے ایک کمینی خوشی ہورہی ہے کہ اس ملک کی اکثریت ان تاجروں اور صنعتکاروں کو اس ملک کا نجات دہندہ سمجھتی تھی اور ان تاجر حکمرانوں نے پاکستانی عوام کو آئی پی پیز کے عوام دشمن کنٹریکٹس میں ایسا پھنسایا ہے کہ اب آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہے۔ پوچھناتھا: ہن آرام اے ؟