من زبانِ فارسی قلیل می دانم

اے گُل تو از جمعیت گلزار چہ دیدی؟
جُز سرزنش و بدسری خارچہ دیدی؟
اے لعلِ دلِ افروز تو باایں ہمہ پرتو
جز مشتری سفلہ پرُ بازار چہ دیدی؟
رفتی بہ چمن لیک قفس گشت نصیب
غیر از قفس ای مُرغ گرفتار چہ دیدی؟
ترجمہ: اے پھول تونے گلزار کی انجمن سے کیا پایا؟ کانٹے۔ سزا اور بدخواہی کے سوا تجھے کیا ملا؟ اے لعلِ دل افرو ز تُونے چمک دمک کے باوجود بازار میں اپنے سے گھٹیا خریدار کے علاوہ کیا پایا؟ تو چمن میں گیا تو تیرا نصیب قفس بن گیا۔ اے گرفتار پرندے تونے قفس کے سوا کیا پایا؟
آج کا کالم فارسی کے جن تین اشعار سے شروع کیا گیا وہ ایرانِ جدید کی کمال کی شاعرہ پروین اعتمادی کی ایک نظم سے لیے گئے۔ میں نے 1950-51 ء میں گورنمنٹ ہائی سکول ڈیرہ غازی خان (جہاں میرے والد مرحوم کی سول ہسپتال کی سربراہی مجھے باقی اہلِ خانہ کے ساتھ لے گئی) مجھے ایک بہترین اُستاد سے فارسی پڑھنے کا زریں موقع ملا۔ 1974-75 ء میں برطانیہ سے پاکستان کا (بال بچوں کے ساتھ) زمینی سفر کرتے ہوئے جب ہم ایران سے آتے جاتے دوبار گزرے تو میری بے حد ٹوٹی پھوٹی اور زنگ آلود فارسی بہت کام آئی۔ ایران کو آج بھی خوبصورت کتابیں شائع کرنے میں کمال کا فن اور مہارت اور جمالیاتی ذوق حاصل ہے۔ میری لائبریری میں جن کتابوں کو میں روزانہ دیکھ کر اپنی بوڑھی آنکھوں کو ٹھنڈک (یہ موسمِ سرما والی ٹھنڈک نہیں) پہنچاتا ہوں اُن میں تہران میں چھپا ہوا شاہ نامہ (فردوسی کا لکھا ہوا) اور دیوانِ حافظ سرفہرست ہیں۔
کالم فارسی کے جن اشعار سے شروع ہوا وہ شاعرہ نے اپنی رنج و غم کی زندگی گزار کر اپنے آپ کو مخاطب کر کے لکھے تھے۔ میں نے یہ اشعاران 24 کروڑ کے لگ بھگ اہالیان ِوطن کو (ایک فیصد خوشحال اور حکمران طبقہ نکال دیں) کو مخاطب کر کے لکھے۔ دریا کے کنارے سیر کرتے ہوئے پاکستان کی طرف منہ کر کے اُنہیں کئی بار باآواز بلند دہرایا۔ جب سستانے ایک بینچ پر بیٹھا تو آنکھیں بند تھیں اور کان کھلے ہوئے تھے جن میں (یقین جانیے کہ ایسا ہی ہوا) چھ ہزار میل دور سے‘ اُونچے پہاڑوں اور گہرے سمندروں کے اُوپر سے ایک بڑی مدہم سی آواز آئی کہ اے کونج تو اپنے آبائی وطن سے دانہ دنکا چننے اتنی دور پرواز کر کے چلی گئی۔ حیرت اور خوشی کا مقام ہے کہ تجھے آج بھی ہماری یاد ستاتی ہے۔ یورپ میں 57 برس بڑی آرام دہ اور مزے کی زندگی گزارنے کے بعد تُو آج بھی ہمارے دکھ درد میں شریک ہے۔ تُونے ان 57 سالوں میں ہر روز ہمارے بارے میں دردمندی سے سوچا۔ تیرا دل خون کے آنسو روتا رہا۔ تونے ہمارے دن پھر جانے کی اَن گنت دعائیں مانگیں۔ بدقسمتی سے ایک بھی قبول نہیں ہوئی۔ تونے ہمیں ہمارے مسائل کا حل اور ہمارے دکھوں کا علاج بتایا مگر ماسوائے گنتی کے چند افراد کے کسی نے ان پر کان نہ دھرا۔ تو پردیس میں اُگے ہوئے شاہ بلوط کے عمر رسیدہ درخت کا وہ زرد رو پتہ ہے جو پاکستان میں بڑھتی ہوئی خزاں کے پائوں ایک عرصہ سے سُن رہا ہے۔ تو یہ بھی جانتا ہے کہ ہمارا آنے والا دن‘ مہینہ اور سال گزرے ہوئے دن مہینہ اور سال سے بدتر ہوگا۔ مہنگائی اور بے روزگاری اور بڑھے گی۔ انتشار‘ اضطراب‘ عدم استحکام‘ خلفشار اور باہمی تصادم کے عذاب زیادہ شدت سے نازل ہوں گے۔ ہم کریں تو کیا کریں؟ جائیں تو جائیں کہاں؟ بقول غالب: نہ بھاگ سکتے ہیں اور نہ ٹھہر سکتے ہیں۔
لکھتے لکھتے میں یہاں پہنچا تو میرا قلم رُک گیا۔ آج کے کالم کا عنوان وضاحت طلب ہے۔ یہ کام کر لیں تو آگے بڑھیں۔ فارسی کا ایک مصرِع (شاعر نا معلوم) ہے۔ غالباً آپ نے سنا ہوگا :
؎ زبان یارِ من تُرکی و من ترکی نمی داغ
ان 76 سالوں میں کون کون سے لوگ پاکستان میں تاج و تخت کی مالک بنے؟ ایرانی اساطیر اور روایات کے مطابق یہ کمال ہما نامی پرندے کا ہے کہ وہ جس کے سر پر بیٹھ جائے (یا بٹھا دیا جائے) وہ جلد یا بدیر (کئی سالوں کی جلاوطنی کے باوجود) اقتدارحاصل کر لیتا ہے۔ آخر کیوں؟ وہ حکمران طبقہ کے مفادات کا ترجمان اور محافظ ہے۔ طنبورہ سے وہی آواز نکلتی ہے جو اس کو بجانے والا چاہتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے 99 فیصد لوگوں کے مفادات اور حکمران طبقہ کے مفادات کا آپس میں تفاد کا رشتہ ہے۔ اُن میں بُعد المشرقین ہے۔ پھر پاکستان کس طرح خوشی اور خوشحالی کی طرف بڑھ سکتا ہے؟ عوام دوستی سے‘ قوت اُخوت عوام سے‘ قانون کی حکمرانی سے‘ عدل و انصاف سے۔ صرف یہ چاروں ہمیں اندھیرے اور گرداب سے نکال کر روشنی‘ تحفظ‘ سکون‘ استحکام اور ترقی‘ ہمہ گیر ترقی کی طرف لے جا سکتے ہیں مگر ساری برسر اقتدار جماعتیں تہی دامن ہیں۔ وہ اپنی ترکیب کے لحاظ سے اُن خوبیوں سے محروم ہیں جو ہمارے سیاسی اور معاشی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ خارجی محاذ پر ہماری دو بڑی مصیبتیں ہیں‘ امریکہ سے اربوں ڈالروں کی خیرات لینے کے بعد امریکہ کی بالادستی کو مجبوراً تسلیم کر لینا (خصوصاً جب ہم ہمارے دونوں مغربی پڑوسی‘ ایران اور افغانستان اس کے سب سے بڑے دشمن ہیں) اور دوسری ہے بھارت سے سرد جنگ جو ہمیں نہ صرف سالانہ اربوں ڈالروں کا نقصان پہنچانے بلکہ بڑھتی ہوئی دہشتگردی کا شکار بنانے کی ذمہ دار ہے۔ ترکی زبان تو مجھے نہیں آتی مگر خوش قسمتی سے وہ میرے دوستوں کو بھی نہیں آتی اس لیے فارسی زبان میں لکھے ہوئے مصرع کا میرے اُوپر اطلاق نہیں ہوتا۔ غالباً اقبال نے بانگ دِرا میں جن افراد (جن میں وہ خود بھی شامل تھے) کے بارے میں لکھا تھا:
تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی
مجھے مان لینا چاہیے کہ مندرجہ بالا ساری سطور تمہید کے زمرہ میں آتی ہیں اس لیے ان کی اہمیت ثانوی ہے۔ آیئے اب کالم نگار کے مؤقف اوربیانیہ کی طرف چلیں اور آپ اُسے وہ توجہ دیں جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔ مسلم لیگ (دراصل نواز لیگ) اور پیپلز پارٹی (دراصل زرداری پارٹی) کے اصل اور حقیقی نام میں نے دیانتداری سے لکھے۔ اگر اصل ناموں کو سامنے رکھ کر ان دونوں بڑی (اور پہلے کی طرح برسراقتدار)سیاسی جماعتوں کے حدود اربعہ کاجائزہ لیا جائے تو میرے ذہین قارئین کو بآسانی سمجھ آجائے گی کہ لاکھوں ہم وطنوں کی طرح میرے ان دونوں کے بارے میں شدید تحفظات کیوں ہیں؟ اقبال نے قوم رسول ہاشمی کے بارے میں جو کہا تھا‘ میں (روحِ اقبال سے معافی مانگتے ہوئے) مندرجہ بالا دونوں سیاسی جماعتوں کے بارے میں اس سے زیادہ کون سے وضاحتی الفاظ لکھوں کہ وہ بھی اپنی ترکیب میں خاص ہیں۔ وہ گزرے ہوئے 30‘40 سالوں میں بار بار اقتدار میں آئے۔ حکومتی عہدوں پر براجمان ہوئے۔عالی شان محلات میں رہے۔ جھنڈے والی مہنگی کاروں پر سفر کیا۔ ہٹو بچو کی آوازیں بلند ہوئیں کہ شاہی پروٹوکول کا یہی تقاضا ہے مگر عوام کو کیا ملا؟ اُن کے نقلی اور جعلی خدمت گزاروں نے اُن کے دکھوں میں اضافہ کیا۔ لمحۂ موجود کے بارے میں شیکسپیئر نے کہا تھا۔ There is a tide in the affairs of men ۔ آج تبدیلی ہماری دروازہ پر دستک دے رہی ہے۔ میری دعا ہے کہ تمام عوام دوست اس دستک کی صدا سُن لیں۔ ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجد کا شوق پورا کرتے رہیں مگر مل کر ایک جامع مسجد بھی بنائیں۔ سب سے بڑی ضرورت عوام د وستوں کے وسیع تر محاذ کی ہے۔ ہم مساجد کے امام صاحبان کو بھی اپنا ساتھی بنائیں۔ یہ تنگ نظری کا وقت نہیں۔ اگر کراچی کے محمد زبیرسے لے کر اسلام آباد میں شاہد خاقان عباسی اور مصطفی نواز کھوکھرایک centrist سیاسی جماعت بنائیں تو بائیں بازو کے عوام دوست اُن کے اتحادی بنیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں