دس کروڑ انسانو!

زندگی سے بیگانو!؍ صرف چند لوگوں نے؍ حق تمہارا چھینا ہے؍ خاک ایسے جینے پر؍ یہ بھی کوئی جینا ہے؍ بے شعور بھی تم کو؍ بے شعور کہتے ہیں؍ سوچتا ہوں یہ ناداں؍ کس ہوا میں رہتے ہیں؍ اور یہ قصیدہ گو؍ فکر ہے یہی جن کو؍ ہاتھ میں علم لے کر؍ تم نہ اُٹھ سکو لوگو؍ کب تلک یہ خاموشی؍ چلتے پھرتے زندانو؍ دس کروڑ انسانو!
حبیب جالب نے یہ نظم صدر ایوب خان کے دورِ آمریت میں لکھی تھی۔ 1960ء کی دہائی میں ہمارے ملک کی آبادی صرف دس کروڑ تھی جو اَب بڑھ کر 24کروڑ ہو گئی ہے‘ لیکن جو باتیں حبیب جالب نے دس کروڑ کو مخاطب کر کے کہی تھیں‘ وہ 24 کروڑ کے لیے بھی اتنی ہی برمحل‘ مناسب اور موزوں ہیں۔ دس کروڑ کی تعداد اس لیے آج خصوصی اہمیت رکھتی ہے کہ 24 کروڑ کی آبادی میں سے 40فیصد لوگ خطِ غربت کے نیچے رہتے ہیں۔ حساب کتاب چھوڑیں تو وہ دس کروڑ بنتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ہماری کسی بھی سیاسی پارٹی کو کوئی فکر‘ پروا یا تشویش نہیں۔ آپ سارا دن ٹی وی پر خبرنامے سنیں۔ تمام اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں۔ آپ کو ان دس کروڑ عوام کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملے گا۔ اخبار نویسوں کو‘ تبصرہ نگاروں کو‘ کالم لکھنے والوں کو‘ سیاست دانوں کو‘ دانشوروں کو‘ مبصرین کو‘ ان سب کو یہ دس کروڑ نظر نہیں آتے۔ وہ غالباً ایک نہ نظر آنے والی مخلوق ہیں۔
ہمیں فلسطین میں وہاں سوا سال سے ہونے والے قتل ِعام کی خبر ہے‘ ہم جانتے ہیں کہ سوڈان میں لاکھوں افراد قحط سے سسک سسک کر مرنے والے ہیں‘ ہم مقبوضہ کشمیر میں اور بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے ہر چھوٹے سے چھوٹے واقعہ کی بھر پور خبر رکھتے ہیں لیکن ہمیں ہمارے ملک میں‘ جی ہاں ہمارے اپنے ملک میں‘ ہمارے آس پاس‘ ہمارے اڑوس پڑوس میں‘ ہم سے چند میل کے فاصلے پر رہنے والے دس کروڑ لوگوں کی کوئی فکر نہیں۔ خطِ غربت سے نیچے رہنے کا مطلب ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں۔ وہ نیم فاقہ کشی کی حالت میں زندہ ہیں۔ نہ ان کے پاس مناسب روزگار ہے‘ نہ تعلیم ہے‘ نہ علاج کی سہولتیں ہیں۔ سہولتیں ہوں بھی تو وہ اُن کے لیے برائے نام ہیں کیونکہ وہ علاج کے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اگر وہ کسی (عام طور پر جھوٹے) مقدمہ میں پکڑے جائیں تو ان کی ضمانت نہیں ہوتی کیونکہ کوئی معزز شخص افتادگانِ خاک کا ضامن بننے کا خطرہ مول نہیں لیتا۔ عدالت اُنہیں قید کی سزا دینے کے ساتھ ان پر جرمانہ بھی عائد کر دے تو وہ جیل میں اپنی قید بھگتنے کے بعد سالہا سال قیدی بنے رہتے ہیں کیونکہ وہ جرمانہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ان کے بوڑھے والدین یا اس کی زوجہ (میں نے اس کا نام سکینہ بی بی رکھا ہوا ہے) بچوں کو بمشکل روکھی سوکھی روٹی کھلائے یا جرمانہ کی بھاری رقوم ادا کرے؟ اس کے بچے‘ اُن ڈھائی کروڑ بچوں میں شامل ہو جاتے ہیں جو کسی سکول میں داخل نہیں ہوتے۔ وہ سارا دن آوارہ گردی کرتے ہیں یا کسی حلوائی کی دکان پر یا موٹر میکینک کی ورکشاپ میں یا کسی شہری کے پاس (چند روپوں کے عوض) محنت مشقت کرتے ہیں۔ جہاں ان پر جسمانی تشدد ہوتا ہے۔ انہیں صبح سے شام تک گالیاں سننی اور برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ اگر بچے (اور ان کی ماں بھی) بھٹہ مزدور ہوں تو وہ بیگاری محنت کشوں کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں۔ افسوس کہ ہمارا نظامِ انصاف ان دس کروڑ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کے دکھوں کا کوئی مداوا نہیں کرتا۔ پاکستان کی ہر جیل غریب لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ کسی ایک جیل میں ایک بھی امیر آدمی قیدی نہیں۔
ہاں اگر وہ خوش قسمتی سے کسی فیکٹری کا ملازم ہو تو اسے صرف اتنی اُجرت ملتی ہے جتنی اس کے جسم و جاں کو اکٹھا رکھنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اسے انگریزی میں Bare Substance کہتے ہیں۔ اسے ٹھیکیداری نظام کے تحت مزدوری کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ وہ نہ یونین بنا سکتا ہے اور نہ اس میں شامل ہو سکتا ہے۔ اسے قانون کے تحت بڑھاپے کی پنشن کی سہولت بھی نہیں ملتی۔ اس پر (بین الاقوامی اداروں کے منظور شدہ) لیبر لاز کا اطلاق بھی نہیں ہوتا۔ اس بے انصافی کے خلاف بھی کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت آواز نہیں اٹھاتی۔ احتجاج نہیں کرتی۔ اگر وہ کوئلہ کی کان میں مزدور ہو تو جلد یا بدیر اس کان میں جل کر خود کوئلہ بن جاتا ہے اور اس کے ورثا کو کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ مگر میرے خیال میں یہ دس کروڑ لوگ یہ خبر سن کر ضرور خوش ہو گئے ہوں گے کہ ان کی اسمبلیوں میں ''نمائندوں‘‘ کی تنخواہوں میں400 سے 900 فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے‘ کیونکہ ان کے گزارے کے لیے دو لاکھ روپے کافی نہیں تھے۔ ہماری کسی بھی اسمبلی کا کوئی ایک رکن غریب نہیں۔ اسے اسمبلی سے ایک روپیہ بھی معاوضہ نہ ملے تو وہ بآسانی گزارہ کرسکتا ہے۔ اسمبلی کے اراکین کو سفر اور علاج کے لیے لاکھوں روپوں کی مراعات ملتی ہیں۔ یہ تنخواہ کے علاوہ ایک قسم کا بونس ہیں۔ بجلی اور گیس کے بل ادا کرنا ایک غریب آدمی کے لیے بڑا عذاب بن گیا ہے۔ اس بجلی اور گیس کے بحران سے ہزاروں صنعتی ادارے بند ہوئے تو وہاں کے مزدوروں کے روزگار کا وسیلہ جاتا رہا۔ تمام یورپی ممالک بے روزگاری الاؤنس دیتے ہیں۔ بیماری اور بڑھاپے کی صورت میں ضروری الاؤنس دیتے ہیں۔ یہ ایک فلاحی مملکت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس کالم نگار کو فخر ہے کہ اس نے تحریک پاکستان کے ایک ادنیٰ کارکن کے طور پر اس میں حصہ لیا۔ یقین جانیے کہ ہر شخص پُرامید تھا کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی مملکت بنے گا۔
اگر ایک غریب آدمی بے زمین کسان ہے اور اس کے ملک میں لاکھوں ایکڑ زمین بنجر پڑی ہے تو کیا اس کا یہ حق نہیں بنتا کہ حکومت یہ زمین بڑے بڑے کاروباری اداروں یا غیرملکی سرمایہ کاروں کو لیز پر دینے کے بجائے بے زمین کسانوں میں تقسیم کر دے؟ کیا اسلامی تعلیمات کے مطابق کارخانوں میں مزدوری کرنے والوں کا مل مالکان کے کروڑوں اربوں روپوں کے منافع میں ایک مناسب حصہ نہیں ہونا چاہیے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ ایک غریب آدمی چور ڈاکو سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا کہ وہ پولیس سے ڈرتا ہے؟ یہ وہ پولیس ہے جو اس کی خدمت گزار ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ سراسر جھوٹا دعویٰ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ دس کروڑ انسانوں کے پاس نہ مناسب روزگار ہے اور نہ انصاف تک رسائی ہے۔ ان کی فریاد اقتدار کی جنگ میں مصروف سیاستدانوں کے کانوں تک نہیں جاتی۔ اگر موجودہ 166اضلاع کو 166صوبوں میں تبدیل کر دیا جائے تو ممکن ہے کہ ان دس کروڑ لوگوں کے دکھوں میں تھوڑی سی کمی آجائے گی۔ آج کا کالم شروع بھی حبیب جالب کی ایک انقلابی نظم سے ہوا تھا اور ختم بھی اسی نظم پر ہوگا ؎
پاؤں میں غلامی کی؍ آج بھی ہیں زنجیریں؍ آج حرفِ آخر ہے؍ بات چند لوگوں کی؍ دن ہے چند لوگوں کا؍ رات چند لوگوں کی؍ اٹھ کے درد مندوں کے؍ صبح و شام بدلو بھی؍ جس میں تم نہیں شامل؍ وہ نظام بدلو بھی؍ دوستوں کو پہچانو؍ دشمنوں کو پہچانو؍ دس کروڑ انسانو!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں