پنجاب کے کسانوں کا محسن

نام تھا چھوٹو رام۔ متحدہ پنجاب کے وزیر بنے تو برطانیہ کے بادشاہ نے انہیں اپنا Knight بنا کر سر (Sir) کا خطاب دیا۔ اسم بامسمیٰ تھے۔ نام چھوٹو اور قد بھی چھوٹا مگر جو کارنامہ سرانجام دیا وہ پہاڑ سے اونچا تھا۔ وہ کارنامہ اتنا تاریخی ہے کہ اس نے انہیں پنجاب کے لاکھوں کاشتکاروں کا ایک بڑا محسن اور نجات دہندہ بنا دیا۔ انہوں نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا کہ گزشتہ صدی میں تیس کے عشرے میں متحدہ پنجاب کی اسمبلی سے دو عہد ساز قوانین منظور کرائے۔ 1934ء میں The Punjab Relief of Indebtedness Act 1934 اور 1936ء میں Punjab Debtors Protection Act۔ دونوں عالمی جنگوں کے درمیانی سالوں میں اشیائے خوردنی کی قیمت بہت کم تھی جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ کاشتکاروں کیلئے گزارہ کرنا اتنا مشکل ہو گیا کہ وہ بہ امر مجبوری ساہو کاروں (جو سارے کے سارے ہندو تھے) سے قرض لے کر اپنی ضروریات پوری کرتے تھے اور اگر کاشتکار قرض کی رقم (جمع سود یا سود در سود) ادا نہیں کر سکتا تھا تو ساہو کار کو یہ قانونی حق حاصل تھا کہ وہ نادہندہ مقروض کاشتکار کی زمین پر قابض ہو جائے اور اسے فروخت کر کے قرض کی رقم بازیاب کر سکے۔ مذکورہ بالا دونوں قو انین نے ساہو کاروں سے یہ حق چھین لیا۔ ان افراد‘ جو دیہات سے تعلق نہیں رکھتے کے لیے شاید یہ اندازہ کرنا مشکل ہوکہ ان دو قوانین نے لاکھوں کسانوں (جن کی اکثریت مسلمان تھی) پر کتنا بڑا احسان کیا تھا۔ انہیں کتنے بڑے عذاب سے بچایا تھا۔ صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی تاریخ میں ہمیں اس جیسی اور کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک شخص نے اپنی کوشش‘ محنت اور لگن سے دو قوانین منظور کروا کے اتنے زیادہ لوگوں کی قسمت بدل دی اور انہیں تباہی و بربادی سے بچا لیا۔
میں خوش نصیب ہوں کہ میں سر چھوٹو رام سے مل چکا ہوں۔ یہ 1942ء یا 1943ء کی بات ہے کہ ٹرین پر سفر کرتے ہوئے وہ سیالکوٹ کی تحصیل نارووال کے سٹیشن پر رکے۔ مجھے میرے ابا جی اپنے ساتھ سٹیشن لے گئے تاکہ میں سر چھوٹو رام کی ایک جھلک دیکھ سکوں۔ اس وقت میری عمر چھ یا سات برس ہوگی۔ سٹیشن پر ان کا استقبال نعرے لگاتے ایک ہجوم نے کیا۔ چھوٹو رام نے استقبالی ہجوم سے خطاب کیا۔ وہ مشرقی پنجاب کے (انبالہ ڈویژن میں) ایک ضلع روہتک کے ایک گاؤں کے رہنے والے تھے۔ آٹھ دہائیوں سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد مجھے یہ بالکل یاد نہیں کہ چھوٹو رام نے اپنی اُس تقریر میں کیا کہا تھا۔ مجھے ان کی شکل بھی یاد نہیں رہی۔ صرف ایک چیز بخوبی یاد ہے اور وہ ہے ان کے سر پر طرہّ والی بڑی سفید پگڑی۔ چھوٹو رام 24نومبر 1881ء کو روہتک کے جس چھوٹے گمنام گاؤں میں پیدا ہوئے اس کا نام ہے گڑھی سامپلا۔ صرف 64برس عمر پائی اور نو جنوری 1945ء کو لاہور میں وفات پائی۔ ان کے جسدِ خاکی کو ان کے آبائی شہر روہتک لے جایا گیا جہاں ایک سکول کی گراؤنڈ میں ان کی چِتا جلائی گئی اور رواج کے مطابق ان کی راکھ دریائے گنگا میں بہائی گئی۔ روہتک اپنے سب سے بڑے سپوت سے محروم ہو گیا مگر روہتک کے باشندوں نے کئی یادگار یں بنا کر اپنے ہیرو کو ہمیشہ یاد رکھنے کا پکا بندوبست کر لیا۔ چوہدری بریندر سنگھ (چھوٹو رام کے بھانجے) نے سر چھوٹو رام ٹرسٹ کے توسط سے ان کے آبائی گاؤں میں ان کا 64فٹ بلند مجسمہ ایستادہ کروایا‘ جس کی نقاب کشائی بھارتی وزیراعظم نے کی تھی۔ چھوٹو رام چوہدری سکھ رام سنگھ اور سرلا دیوی کی اولاد تھے اور دو لڑکیوں (بھگوانی دیوی اور رام پیاری) کے باپ تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم روہتک میں حاصل کی۔ وہ روہتک کے گنتی کے اُن چند نوجوانوں میں سے تھے جو اعلیٰ تعلیم کیلئے دہلی گئے۔ انہوں نے دہلی کے St. Stephen's College (جنرل پرویز مشرف بھی یہاں کے اولڈ بوائے تھے) اور پھر آگرہ کے آگرہ کالج سے قانون کے ڈگری حاصل کی۔ وہ ضلع روہتک کے پہلے وکیل تھے اور وہ بھی شہری نہیں بلکہ دیہاتی۔ انہوں نے مسلمانوں‘ سکھوں اور ہندوؤں کے مقامی راہنماؤں (خصوصاً زمینداروں) کے ساتھ پہلے زمیندارہ لیگ اور پھر 1923ء میں یونینسٹ پارٹی بنائی جس کے دو بڑے راہنما سر فضل حسین اور سر سکندر حیات تھے جو یکے بعد دیگرے وزیر اعلیٰ بنے اور یہ پارٹی 1947ء تک پنجاب میں برسر اقتدار رہی۔ ''سر‘‘ کا خطاب پانے سے پہلے انہیں برطانوی سرکار نے رائے بہادر (خان بہادر کے ہم پلّہ) کا خطاب دیا۔ عوام انہیں ''دین بندھو‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ 1995ء میں بھارتی حکومت نے ان کی تصویر کے ساتھ ایک خصوصی یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ صوبائی کابینہ میں وہ محصولات کے وزیر تھے۔ انہوں نے 1923ء میں بھاکڑہ ڈیم کا پہلے پہل خواب دیکھا۔ انہوں نے یہ قانون بھی منظور کرایا کہ اگر کسان کی فصل تباہ ہو جائے تو حکومت (کم از کم) اس کے نقصانات کے ایک حصے کی تلافی کرے۔ اقبال کا ایک شعر اُن کا اتنا پسندیدہ تھا کہ وہ اسے سارا دن گنگناتے رہتے:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ پانچ سال کی عمر تک ان کا نام رام رشیال تھا۔ سکول داخل ہوئے تو ان والد نے نام بدل کر چھوٹو رام رکھ دیا‘ کیونکہ وہ اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ جب ان کی عمر بارہ برس ہوئی تو اس وقت کے دیہاتی رواج کے مطابق ان کی شادی ان کی ایک ہم عمر لڑکی (گیانو دیوی) سے کر دی گئی۔ انہوں نے آٹھویں جماعت کا امتحان اپنے گاؤں سے 12 میل کے فاصلے پر جھمر (جہاں کا جاگیر دار مسلمان نواب تھا) کے سکول سے پاس کیا۔دسویں اور بارہویں جماعت کا امتحان دہلی کے کرسچن مشن سکول سے پاس کیا اور بی اے کی تعلیم حاصل کرنے دہلی کےSt Stephen's College میں داخل ہوئے۔ جہاں ان کے تعلیمی اخراجات جاٹ برادری کی فلاحی تنظیم (جو سیٹھ چھجو رام کے عطیات سے چلتی تھی) نے ادا کیے۔ وہ سیاسی میدان میں اترے تو ان کے اولین ساتھی عبدالقادر اور چوہدری اُدم پرکاش قادیان تھے۔ وہ وزیر بنے تو اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ غریب گھرانوں کے لائق بچوں کو تعلیمی وظائف پر صرف کرتے تھے۔ آپ روہتک جائیں تو آپ کو ہر طرف چھوٹو رام کی یاد میں بنائی گئی عمارتیں‘ سڑکیں اور ادارے نظر آئیں گے۔ ان کے گھر کا نام سپریم نورس رکھ کر اسے قومی ورثہ بنا دیا گیا ہے۔ اس گھر کے قریبی چوک کا نام ''چھوٹو رام چوک ‘‘ہے۔ اس کے پاس ان کی یاد میں دھرم شالہ تعمیر کیا گیا ہے۔ مقامی سکول کی جس گراؤنڈ میں ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں وہاں ان کی یاد میں سمادھی بنائی گئی ہے جہاں ہر سال ان کے جنم دن پر ہزاروں لوگ گیتا کے شبد سنسکرت میں پڑھتے ہیں۔ چھوٹو رام نے بی اے کا امتحان پاس کیا تو سنسکرت میں اوّل آئے۔ ان کے نام سے یونیورسٹی اور کالج بھی بنائے گئے ہیں۔ اہالیانِ روہتک نے اپنے اس عظیم سپوت کو اس طرح یاد رکھا ہے جو ان کے شایانِ شان تھا۔ چھوٹو رام ہندو دھرم کی ایک اصلاحی تحریک آریہ سماج کے پُرجوش حامی تھے۔ نام تھا چھوٹو رام مگر کام بہت بڑے کیے۔ کیا وہ اس شخص کے مقابلے میں لاکھوں گنا بہتر اور برتر نہ تھے جس کا نام تو ہو سر بلند خان اور اس کا سرجھکا رہے۔ یا جس کا نام ہو ضمیر اور اپنے ضمیر کا سودا کرتے وقت اپنے نام کا بھی خیال نہ کرے۔ نام ہو اخلاق اور اس کا اخلاق سب سے بُرا ہو۔ سب کو چاہیے کہ اگر نام اچھا رکھا ہو تو اس کی لاج رکھیں اور اگر نام چھوٹو رکھا جائے تو اپنے کام سے بڑے بن جائیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں