میں اپنی اس کوتاہی پر معافی کا طلبگار ہوں کہ میں طویل سوچ و بچار کے بعد بھی حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان کی 77سالہ تاریخ میں وہ کون سے واقعات ہیں جو ہمارا سر فخر سے بلند کرنے یا شرم سے جھکا دینے کا موجب بنے۔ پہلے اوّل الذکر دیکھ لیتے ہیں۔ میرے ذہن میں مندرجہ ذیل واقعات یادوں کی گرد میں بھی ستاروں کی طرح روشن اور درخشندہ ہیں۔
1: 14اگست 1947ء کو قائداعظم نے دو عہدوں کا حلف اُٹھانا تھا‘ ایک تھا پاکستان کے سربراہِ مملکت کا حلف اور دوسرا تھا دستور ساز اسمبلی کے صدر کا حلف۔ قائداعظم ایوان میں تشریف لائے اور اس کرسی پر بیٹھ گئے جو صرف ان کیلئے رکھی گئی تھی۔ پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر میاں عبدالرشید نے قائداعظم سے حلف لینا تھا۔ وہ قائداعظم کے پاس گئے اور ان کے کان میں سرگوشی کی کہ آپ اس کرسی پر اُس وقت بیٹھنے کے مجاز ہوں گے جب آپ کی حلف برادری کی کارروائی مکمل ہو چکی ہو گی۔ قائداعظم ایک لمحہ کے توقف کے بغیر فوراً اٹھے اور اراکینِ اسمبلی کے ساتھ بچھائی گئی ایک عام کرسی پر بیٹھ گئے۔ یہ تھی ہماری اصول پسندی کی وہ معراج جس کے بعد ہمارا پستی اور زوال کی طرف سفر شروع ہوا۔
2: 1961ء میں حکومتِ پاکستان کی وزارتِ قانون کا سب سے بڑا افسر (وفاقی سیکرٹری) ایک انگریز تھا۔ نام تھا Sir Edward Snelson۔ اس نے سول سروسز اکیڈمی میں اپنی تقریر میں کہا کہ ہائیکورٹ کے جج صاحبان جس طرح حکومت کے خلاف دائر کردہ رِٹ پٹیشنز کی سماعت کرکے اپنے اختیارات کو غیر ذمہ دارانہ طور پر استعمال کر رہے ہیں‘ اس سے حکومت کیلئے اپنی انتظامی مشینری کو چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ اگلے دن یہ تقریر اخباروں میں چھپی تو ہائیکورٹ نے صاحب بہادر کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیج دیا۔ ملزم کی بدقسمتی کہ مقدمہ کی کارروائی جس جج کو سونپی گئی وہ بھی ایک انگریز (Justice Orcheson) تھا۔ انہوں نے فیصلہ سنایا کہ ملزم واقعی توہینِ عدالت کا مرتکب ہوا اور اسے عدالت نے برخاست ہو جانے تک (بمشکل ایک منٹ کی) قید کی سزا دی۔ سزا یافتہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ سر ایڈورڈ کو مستعفی ہونا پڑا اور وہ اپنی پنشن سے بھی محروم ہو گئے۔ مارشل لاء کے زمانہ میں ہائیکورٹ نے اپنی برتری کا پرچم بلند کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ ملک کا قانون وہی ہوگا اور قانون میں لکھے ہوئے الفاظ کا وہی مطلب ہوگا جو عدالت عالیہ تشریح کرے گی۔
3: تمیز الدین کیس میں سندھ ہائیکورٹ کا درخواست دہندہ (دستور ساز اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین) کے حق میں فیصلہ۔ بدقسمتی سے اس فیصلے کو جسٹس منیر کی وفاقی عدالت نے مسترد کرکے گورنر جنرل کے (دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کرنے کے) اختیار کو قانونی جواز کے بجائے نظریۂ ضرورت کے تحت شرفِ قبولیت بخشا‘ مگر سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ جتنا قابلِ تعریف ہے وفاقی عدالت کا فیصلہ اتنا ہی قابلِ مذمت ہے۔ موخر الذکر میں ہمالیہ پہاڑ جتنی سنگین غلطیوں کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے ۔
بے شمار ایسے اقدامات ہیں جنہوں نے ملک و قوم کو شدید نقصانات پہنچائے۔ آئیے ان سب کا ایک مختصر جائزہ لیں۔ یقینا سب سے بڑا المیہ تو 1971ء میں مغربی پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی اور چار پانچ جرنیلوں کے ٹولے (جس میں سرفہرست آمر مطلق جنرل یحییٰ خان تھے) کا عوامی لیگ کے چھ نکات کو تسلیم کرکے پاکستان کی وحدت کو قائم رکھنے کے بجائے مشرقی پاکستان پر چڑھائی کی حکمت عملی اپنانا تھا جس سے ملک دو لخت ہو گیا۔ (2) جنرل ایوب خان کے بعد جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کے نفاذ کا تاریک دور ہماری تاریخ کے 30 برس لے گیا۔ (3) کشکولِ گدائی لے کر آئی ایم ایف کے پاس 24 بار جانا اور وطنِ عزیز کو سینکڑوں ارب ڈالر کا مقروض بنانا۔ (4) پاکستان سٹیل مل‘ قومی ایئر لائن اور ریلوے کو (افسروں کی اربوں روپوں کی کرپشن کی بدولت) نفع بخش سے خسارے میں چلنے والے ادارے بنا دینا۔ (5) امریکہ کے ساتھ یکطرفہ دفاعی معاہدے کرنا۔ (6) پاکستان کو فلاحی مملکت کے بجائے سکیورٹی سٹیٹ بنا دینا۔ (7) قوتِ اُخوتِ عوام‘ قانون کی حکمرانی‘ آئین اور انسانی حقوق کے احترام کے اصولوں کو بار بار پامال کرنا۔ (8) سپریم کورٹ کے ججوں پر شدید دباؤ ڈال کر بھٹو صاحب کو سزائے موت دینا۔ (9) امریکہ کے حکم پر افغانستان کی جنگ میں کود پڑنا۔ (10) 1997ء میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کے اشارے پر ایک جتھے کا سپریم کورٹ پر حملہ۔ تب چیف جسٹس سجاد علی شاہ تھے‘ انہوں نے اور ان کے ساتھی جج صاحبان نے کمرۂ عدالت سے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔
2010ء میں مَیں اور میری بیوی لاہور سے برطانیہ واپس آتے ہوئے کراچی رکے۔ کراچی کے سینئر وکیل سالم سلیم انصاری کا بھلا ہو کہ وہ ہمیں شاہ صاحب سے ملانے لے گئے۔ شاہ جی اور ان کی بیگم صاحبہ سندھ کی روایتی خوش اخلاقی سے ملے۔ جب اس انتہائی تکلیف دہ واقعے کا ذکر چھڑا تو شاہ جی نے بڑی دکھی آواز میں کہا کہ اگر اس مجلس میں دو خواتین نہ بیٹھی ہوتیں تو میں آپ کو وہ گالیاں بھی سناتا جو حملہ آور جتھہ مجھے نکال رہا تھا۔ یہ سن کر ہم کس قدر شرمندہ ہوئے‘ اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ قیام پاکستان سے آج تک (ماسوائے خوشی کے دو چار واقعات کے) اب تک ہم مستقل طور پر کربلائی کیفیت میں ہیں۔ میری آنکھیں تو 77 برس سے یہ خواب دیکھتے دیکھتے تھک ہار کر بوڑھی ہوگئی ہیں۔ آئیے آپ سے شاہ جی کا پورا تعارف کرائیں۔ وہ 17فروری 1933ء کو صوفیا کی سرزمین (سندھ) کے ایک قانون دان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین اتنے خوش تھے کہ انہوں نے شاہ جی کو بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے لندن بھیج دیا۔ قبل ازیں شاہ جی نے قانون کی پہلی ڈگری کراچی کے ایس ایم لاء کالج سے حاصل کی۔ 1959ء میں انہوں نے وکالت شروع کی اور جلد ہی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بن گئے۔ 1977ء میں وہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار اور 1978ء میں سندھ ہائیکورٹ کے جج بنے۔ 13دسمبر 1979ء کو جسٹس سجاد علی شاہ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ وہ اس عہدہ پر صرف ایک سال فائز رہے اور پھر سپریم کورٹ کے جج بن گئے۔ 1994ء میں ڈاکٹر نسیم حسن شاہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تو سپریم کورٹ کے ججوں میں سب سے سینئر جج سعد مسعود جان تھے مگر وزیراعظم (بینظیر بھٹو ) نے دو ججوں کو سپر سیڈ کرتے ہوئے سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنا دیا۔ وہ اس عہدہ پر فائز ہونے والے تیرہویں شخص تھے۔ پانچ جون 1994ء سے دو دسمبر 1997ء تک وہ چیف جسٹس آف پاکستان رہے۔ شاہ صاحب کا میاں نواز شریف سے تعارف 1997ء میں ہوا۔ وہ میاں نواز شریف کے خلاف دائر کردہ کرپشن اور توہینِ عدالت کا مقدمہ سن رہے تھے اور میاں صاحب کو محسوس ہوا کہ چیف جسٹس کا رویہ معاندانہ اور انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ نواز شریف نے فیصلہ کیا کہ چیف جسٹس کو اس گستاخی کی سزا دی جائے؛ چنانچہ سپریم کورٹ پر حملے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ جسٹس (ر) رفیق تارڑ کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں پر اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کر دیا۔
ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ 1992ء میں سپریم کورٹ کے جج بننے کے بعد (اور 1994ء میں چیف جسٹس بنائے جانے سے پہلے) ایک اہم آئینی مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے سجاد علی شاہ واحد جج تھے جنہوں نے صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں وزیراعظم بینظیر بھٹو کی برطرفی کے حکم کو غلط قرار دیا مگر جب 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت کو بدعنوانی اور نااہلی کی بنا پر برطرف کیا تو اُنہوں نے اس فیصلے کو جائز قرار دیا۔