نئے صوبوں کی ضرورت

کالم کا آغاز کنور دلشاد صاحب اور سہیل وڑائچ صاحب کا تہِ دل سے شکریہ ادا کرنے سے کرتے ہیں کہ بلدیاتی نظام کی اشد ضرورت کے بارے میں دونوں حضرات نے کمال کے کالم لکھے۔ میں نے 40 برس قبل لندن میں آوازِ خلق برائے انقلابی اصلاحات کی بنیاد رکھی۔ اس گروپ (جو مٹھی بھر افراد پر مشتمل ہے) کا مقصد چہرے نہیں بلکہ نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہے اور سب سے بنیادی اور اہم ترین تبدیلی کا تعلق بلدیاتی نظام کے قیام سے ہے‘ اور قیام بھی کل نہیں بلکہ آج اور ابھی‘ جلد از جلد۔ جنرل پرویز مشرف نے جنرل تنویر نقوی کو نئے بلدیاتی نظام کی تشکیل کی ذمہ داری سونپی تو انہوں نے بطریقِ احسن نبھائی اور ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ختم کرکے ضلعی ناظم کا عوامی عہدہ معرضِ وجود میں لائے۔ میرے دل سے ان کیلئے بے شمار دعائیں نکلتی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کی غیرقانونی اور صریحاً غیرآئینی صف لپیٹی گئی (افسوس کہ اس کارِ خیر میں نو برس لگ گئے) تو ان کے عہدِ اقتدار کی واحد خوبی اور واحد قابلِ تعریف کارنامے‘ نئے بلدیاتی نظام کو بھی لپیٹ دیا گیا۔ اس فیصلے کی بنیاد یقینا بدنیتی اور عوام دشمنی پر رکھی گئی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن‘ ہمارے آئین کے مطابق ریاست کا تیسرا ستون (بلدیاتی نظام) مسمار کر دیا گیا۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں جو فاش غلطیاں ہوئیں ان میں سب سے بڑی بلدیاتی نظام کا خاتمہ اور نئے انتخابات کے انعقاد سے انکار تھا۔ آج بارہ کروڑ آبادی کے صوبہ پنجاب میں بلدیاتی نظام کا کوئی نام و نشان نہیں۔ میں نے زندگی کے 88 برسوں میں سے 74 برس علم سیاسیات پڑھا اور پڑھایا ہے‘ یقین جانیے کہ ان 74 برسوں کی جہدِ مسلسل کا حاصلِ کلام یہ ہے کہ ہر مرکزی حکومت کو چلانے والے فرشتے بھی ہوں تو پھر بھی وہ عوام کیلئے آفت کا پرکالہ (Nuisance) ہوتی ہے۔ ہر مرکزی حکومت عوام سے اتنی دور ہوتی ہے کہ وہ نہ انہیں دیکھ سکتی ہے اور نہ ان کے شکوے شکایات سُن سکتی ہے۔ اس لحاظ سے اسے اندھی اور بہری کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ایسے میں نجات کا واحد طریقہ بلدیاتی اداروں کو فعال بنانا ہے‘ جو لوگوں کے مسائل ان کے گھروں کی دہلیز پر حل کرتے ہیں۔
اب آئیں نئے صوبوں کی تشکیل کی ضرورت کی طرف۔ یہ مطالبہ اب نوشتۂ دیوار بن چکا ہے۔ آج نہیں تو کل نئے صوبے بن کر رہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ بنائیں تو کیونکر؟ جواب بے حد آسان ہے۔ پاکستان میں کل 38 ڈویژن ہیں‘ ہر ڈویژن (آبادی اور رقبے کے لحاظ سے) مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے بیشتر ممالک سے بڑا ہے۔ ہم چشم زدن میں ان 38 ڈویژنوں کو صوبائی درجہ دے دیں تو ایک بہت بڑا مسئلہ بخوبی حل ہو سکتا ہے۔ ہر ڈویژن کی اپنی ہائیکورٹ‘ اپنا گورنر ہو جسے رائے دہندگان اپنے ووٹوں سے براہِ راست چنیں۔ اپنی صوبائی اسمبلی ‘ اپنی پولیس ہو۔ محصولات کی وصولی کا اپنا نظام ہو۔ اب ہر ڈویژن کے اضلاع کی باری آتی ہے۔ جنرل نقوی کے بنائے گئے فارمولے کے تحت ضلع کا نگرانِ اعلیٰ اور حاکم اعلیٰ وہاں کا ناظم ہو۔ ضلعی اسمبلیاں بھی ہوں۔ اسی طرح تحصیل کا ناظم اور تحصیل کونسل۔ چیئرمین یونین کونسل اور تمام فیصلے کرنے کی مجاز یونین کونسل ہو۔ سہیل وڑائچ صاحب جو بات کہتے ہیں وہ آدھے سچ کے زمرے میں آتی ہے۔ نئے صوبے بنائے بغیر بلدیاتی نظام کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ نئے صوبے اور ایک فعال اور عوام دوست بلدیاتی نظام لازم و ملزوم ہیں۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ موجودہ نظام کے تحت صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین کو ترقیاتی کاموں کیلئے کروڑوں روپے فی کس کے حساب سے دیے جاتے ہیں۔ اسمبلی کے اراکین کا کام صرف اور صرف قانون سازی ہے۔ گلیاں اور نالیاں پکی کرانا‘ درخت لگوانا‘ ڈینگی مچھروں کو مروانا اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سدباب کرنا ہر گز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کا ہر رکن ایک عوام دوست بلدیاتی نظام کے قیام کے خلاف ہے۔ قانون سازی ان کے بس کی بات نہیں۔ وہ بس ترقیاتی کاموں کا ڈھونگ رچا کر کروڑوں روپوں کی لوٹ مار کر سکتے ہیں۔ ہماری سپریم کورٹ کو سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے اسمبلی کے اراکین کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر ایک روپیہ بھی دیے جانے پر سخت پابندی لگا دینی چاہیے۔ ضروری ہے کہ اس امر کی ایک بار پھر کھل کر وضاحت کی جائے کہ بلدیاتی نظام ہمارے آئین کی دفعہ 16 کے تحت ریاستی ڈھانچے کا جزو لاینفک ہے۔ ایم کیو ایم کے بارے میں میرے کئی تحفظات ہیں مگر میرا اخلاقی فرض ہے کہ میں اس جماعت کی زیادہ سے زیادہ تعریف کروں کہ اس نے ایک برس پہلے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مقامی حکومتوں کے نظام کو بااختیار بنانے کی کمال کی تجویز پیش کی تھی۔ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت ایم کیو ایم کے ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے تھے۔ صد افسوس کہ اس کی قیادت کسی نامعلوم دباؤ کے تحت مذکورہ آئینی ترمیم کی منظوری کے مطالبہ سے دستبردار ہو گئی۔ اس وقت بلدیاتی نظام کا سارا ڈھانچہ شدید افراتفری اور بدنظمی کا شکار ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا سارے کا سارا سیاسی نظام ایک شدید بگاڑ کا شکار ہو گیا ہے۔
موجودہ صوبائی اور قومی حکومتیں چاہے کوئی بھی جتن کر لیں وہ عوامی مسائل کو حل کرنے کی استطاعت سے محروم رہیں گی۔ موسمِ برسات میں ایک بار پھر شدید بارشوں کی وجہ سے موجودہ نظام کاپیدا ہونے والی تباہ کاریوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے محرومی کا پول کھل جائے گا۔ ہمارے ڈویژن اگر صوبے ہوتے تو وہ ہزاروں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر بارشی پانی کو ضائع ہونے سے بچا سکتے تھے‘ ماہِ رمضان میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کی روک تھام کر سکتے تھے‘ سکول سے غیر حاضر رہنے والے کئی لاکھ بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر سکتے تھے‘ دیہات میں زچہ بچہ کے مراکز قائم کرکے ہزاروں خواتین کو زچگی کے دوران موت کے منہ میں جانے سے بچا سکتے تھے‘ سڑکوں پر ہونے والے حادثوں کی تعداد میں تشو یشناک اضافے کا سدباب کر سکتے تھے۔ غرضیکہ وہ تمام عوامی مسائل کو حل کر سکتے تھے۔ وہ انصاف کو سائلین کی دہلیز پر پہنچا سکتے تھے۔ ایک عوام دوست بلدیاتی نظام بدترین عدالتی نظام کو بھی فعال اور عوام دوست بنا سکتا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ وہاں عوام اور حکومت کے درمیان پایا جانے والا عدم اعتماد ہے۔ اگر بلوچستان کے ہر ڈویژن کو صوبائی درجہ دے دیا جائے اور ضلع‘ تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر ایک فعال اور عوام دوست بلدیاتی نظام نافذ کر دیا جائے تو بلوچستان کے مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔
میں جنوب مشرقی لندن کی Borough (ایک قسم کا ضلع) Greenwichمیں رہتا ہوں۔ روزانہ سیر کرنے نکلتا ہوں تو مجھے جا بجا یہ تین الفاظ جلی حروف میں لکھے نظر آتے ہیں Putting People First۔ آج برطانیہ‘ یورپ اور امریکہ اس وجہ سے ترقی یافتہ ہیں کہ وہاں کی حکومتوں (خصوصاً بلدیاتی اداروں ) کی اولین ترجیح عوام ہیں۔ پاکستان جیسے ملکوں میں عوام کو رعایا سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے بدترین مثال اسلام آباد کی ہے جس کا نوجہ ان صفحات پر اظہار الحق صاحب (اپنے کمال کے کالموں میں) بار بار پڑھتے ہیں۔ ہماری مرکزی حکومت تو اسلام آباد کا حلیہ بگڑنے کے عمل کو روکنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے‘ وہ باقی ملک کو کس طرح سنوارے گی؟ تحریک انصاف بھی صرف اسی صورت میں موجودہ دلدل سے نکل پائے گی جب وہ اپنے عہدِ اقتدار کی تمام چھوٹی بڑی غلطیوں کا صدقِ دل سے اعتراف کرے گی‘ جن میں سرفہرست بلدیاتی نظام کو برباد کرنا ہے۔ اگر وہ چاہتی ہے کہ اس کی رکی ہوئی گاڑی پھر چل پڑے تو اس کا فرض ہے کہ ایک عوام دوست بلدیاتی نظام کے قیام کی تحریک چلائے جس میں جے یو آئی (ایف)‘ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی اس کی بھرپور مدد کریں۔ اجازت دیں کہ میں آج کا کالم اقبال کے اس شعر پر ختم کروں:
آئین نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پر اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں(جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں