میرے قارئین اس امر سے بخوبی واقف ہوں گے کہ مقامی حکومتوں اور نئے صوبوں کی اشد ضرورت کے موضوع پر میرے یکے بعد دیگرے دو کالم چھپ چکے ہیں۔ تیسرا کالم لکھنے کے لیے قلم ہر گز تیار نہ ہوا۔ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حالیہ حملے اور چار سو مسافروں کو یرغمال بنا لینے کی خبر نے میرے ذہن کو اتنی بری طرح متاثر کیا کہ مجھے کوئی اور بات نہیں سوجھتی۔ اس سانحہ کی تفصیلات دہرانا بے سود ہو گا چونکہ آپ اس کے ہر ایک جزو کو اچھی طرح جان چکے ہوں گے۔ پاکستان کے تقریباً ہر کالم نگار نے سانحۂ بلوچستان پر خامہ فرسائی کی ہے۔ اس سانحہ کا تجزیہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل باتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ بلوچستان میں 78سالوں سے جو بداعتمادی اور بیگانگی کی فصل بوئی گئی وہ اب پک کر تیار ہو چکی ہے۔ کسی نے ایک لحظہ کے لیے نہیں سوچا کہ بلوچستان کے سینکڑوں نوجوان اچانک دہشت گرد کیوں اور کیسے بن گئے‘ انہوں نے ریاست کے خلاف بندوق کیوں اٹھائی؟ کیا یہ سچ نہیں کہ آج کئی دل گرفتہ مایوس اور بے حد ناراض نوجوان اپنے اپنے گمشدہ باپ یا بھائی کی راہ تکتے تکتے بچپن سے جوانی تک کے مراحل طے کر چکے ہیں مگر گمشدہ افراد بدستور گمشدہ ہیں۔ یہ ایک رستا ہوا ناسور اور ناقابلِ تردید سچائی ہے کہ گمشدہ افراد کی اکثریت کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ قیام پاکستان کے بعد نوروز خان کو دھوکے سے پہاڑوں سے اُترنے پر رضا مند کر کے پھانسی لگا دینے سے لے کر نواب عطا اللہ مینگل کے بیٹے اور نواب اکبر بگتی کے قتل تک کئی ایک دکھ بھری داستانیں ہیں جو ہر محبِ وطن پاکستانی کی پیشانی کو شرمندگی سے آنے والے پسینہ سے غرق آلود کر دیتی ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ آج تک بلوچستان میں ایک بار بھی ایسی حکومت نہیں بنی جو صحیح معنوں میں عوام کی نمائندہ اور اُن کی امنگوں کی ترجمان ہو؟ جب مرحوم بھٹو صاحب نے بلوچستان میں جناب غوث بخش بزنجو اور سردار عطا اللہ خان مینگل کی ہر دل عزیز حکومت کو محض شاہِ ایران کی خوشنودی کی خاطر غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر توڑ دیا تھا تو قومی اور باقی صوبائی اسمبلیاں بالکل خاموش رہیں۔ بلوچستان کے معدنی وسائل (بالخصوص گیس) سے حاصل شدہ آمدنی میں بلوچستان کا حصہ کتنا ہوتا ہے؟ بالکل برائے نام۔ اگر بلوچستان کے معدنی وسائل سے ملنے والی آمدنی کا بڑا حصہ بلوچستان میں رہنے والوں پر خرچ کیا جاتا تو اس وقت وہ لوگ اتنے خستہ حال نہ ہوتے۔ گوادر بندرگاہ ہو یا ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے اربوں ڈالروں کے ذخائر۔ اس کے مالک بلوچستان کے لوگ ہیں مگر بدقسمتی سے وہ اپنے ان وسائل سے بھرپور استفادہ کرنے سے قاصر ہیں۔ بلوچستان کے غریب عوام کے دکھوں پر مگر مچھ کے آنسو بہائے جانے کا ڈرامہ بار بار رچایا گیا ہے۔ کئی بار تحقیقاتی کمیشن بنے مگر ان کی رپورٹیں طاقِ نسیاں کی زینت بن گئیں۔ بلوچستان سے کیے گئے تمام وعدے چکنا چور ہوتے رہے۔ بلوچستان کے حکمران سیاستدانوں اور بڑے سرکاری افسروں میں ایک طرح کی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ ان میں زیادہ لوٹ کھسوٹ کا سہرا کس کے سر باندھا جائے گا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی قریب میں ایک صوبائی سیکرٹری کے گھر پر نیب نے چھاپہ مارا تو گھر کا کونہ کونہ کروڑوں روپوں اور غیر ملکی کرنسی سے اٹا پڑا تھا۔ یقینا وہ بدعنوان افسروں کی لمبی فہرست میں آخری شخص تو نہ ہوگا۔ ہمارے حکمران دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے‘ ان کو نیست و نابود کرنے اور ان کا نام و نشان مٹا دینے کے پختہ عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ عوام ان کھوکھلے وعدوں اور دعووں سے تنگ آگئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف اس نہ ختم ہونے والی جنگ میں ہمارے ہزاروں بہادر فوجی شہید ہو چکے ہیں‘ اور لگتا نہیں کہ یہ خون آشام سلسلہ مستقبل قریب میں تھم جائے گا۔ دہشت گردی کی وجوہات سو فیصدی سیاسی ہیں۔ جب تک اس مسئلہ کا سیاسی حل دریافت نہیں کیا جاتا‘ دیانتداری سے حل کی طرف پوری توجہ نہیں دی جاتی‘ بلوچوں کے احساسِ محرومی کو ختم نہیں کیا جاتا‘ گمشدہ افراد کا مسئلہ حل نہیں کیا جاتا‘ بلوچستان کا آتش فشاں پہاڑ سلگتا رہے گا۔ ہماری افواج کی بہادری ہماری سیاسی حکمت عملی کے فقدان کا مداوا نہیں کر سکتی۔ پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے مگر ہم نے وفاق کے تحت چلائے گئے آئینی بندوبست کو بری طرح پامال کیا ہے۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ بات اتنی بگڑ جائے کہ معاملہ موجودہ فیڈریشن کی ناکامی کی صورت میں Confederation تک جا پہنچے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہوگا۔ ہم نے 1971 ء کے سانحہ سے کوئی ایک سبق بھی نہیں سیکھا‘ خدارا پاکستان کو مزید نقصان سے بچا لیں۔ پاکستان کو قوتِ اخوت عوام سے مضبوط کیا اور دہشت گردوں سے بچایا جا سکتا ہے۔ یہ عالمگیر سچائی ہے۔ یہ نوشتہ دیوار ہے۔ یہ تقدیر کے قاضی کا ازل سے فتویٰ ہے۔یوں تو پاکستان کے ہر حصے کو مقامی حکومتوں کی ضرورت ہے مگر سب سے بڑی ضرورت سرزمین بلوچستان کو ہے تاکہ حکومت اور عوام کے درمیان ایک رشتہ قائم ہو سکے۔ اس وقت حکومت اور عوام کو ایک بہت بڑی خلیج نے ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔ کیا یہ ہمارے دانشوروں کے لیے لمحۂ فکریہ نہیں؟
میرے والد مرحوم پچاس کی دہائی کے آخر میں کوئٹہ اور لورالائی میں کئی برس سول سرجن رہے۔ میں یونیورسٹی میں ہونے والی گرمیوں کی تعطیلات ان کے پاس گزارتا تھا اور بلوچستان کے طول و عرض میں سفر کر کے وہاں کے محبت اور عزت کرنے والے لوگوں سے ملتا تھا۔ مجھے 65 سال گزر جانے کے بعد بھی ان کی دوستی پر فخر ہے ۔اوریامقبول جان‘ میرے ساتھ ایچیسن کالج میں پڑھانے والے اور میرے ساتھ برطرف کیے جانے والے سکندر جمال اور میرے ہم جماعت Savak Poonegar بلوچستان کے چیف سیکرٹری رہے ہیں۔ موخرا لذکر دونوں وفات پاچکے ہیں۔ اوریا صاحب بفضل تعالیٰ زندہ سلامت ہیں۔ آپ کو میرے مندرجہ بالا بیانیہ سے اتفاق کرنے میں تامل ہو تو ان سے رجوع کر کے بلوچستان میں سلگتی آگ کو بجھانے کی تدابیر پوچھ لیں۔ ٹرین کو ہائی جیک کرنے کے واقعے نے تو حد کر دی۔اب اس سے اگلا قدم دہشت گرد کیا اٹھائیں گے‘ میں اس کا تصور کر کے ہی کانپ جاتا ہوں۔ افسردگی کے اس عالم میں میرا ساتھ دیں اور بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے آواز اٹھائیں۔