زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز

آج کا کالم عاصمہ جہانگیر (جیلانی) کی ساتویں برسی (11 فروری) کے نام۔
1960ء میں دو سال کی تاخیر سے ایم اے سیاسیات کا امتحان پاس کرنے اور 1967ء میں پاکستان سے برطانیہ چلے آنے کے دوران جو سات سال گزرے‘ ان میں پہلے دو برس تقریباً ہر اتوار کے روز میں لائل پور سے سفر کر کے لاہور جاتا تھا جہاں زیادہ تر وقت پاک ٹی ہائوس میں گزرتا تھا۔ آخری پانچ برس (1962ء میں لاہور میں شادی کے بعد) تو رہائش ہی لاہور میں تھی۔ سال تو یاد نہیں اور یہ بھی یادداشت سے اب محو ہو چکا کہ تعارف کس نے کرایا تھا مگر یہ بات پکی ہے کہ ان سالوں میں ملک غلام جیلانی سے گلبرگ (لاہور) میں کئی بار اُن کے گھر میں ملاقات رہی۔ 1965ء میں گلبرگ ٹو میں میری رہائش ایسی جگہ تھی جہاں سے ملک صاحب کا گھر قریب ہی تھا اور میں پیدل جا سکتا تھا۔ یہ ایوب خان کے مارشل لاء کا دور تھا اور اس کے خلاف قانونی مزاحمت کا پرچم صرف ملک غلام جیلانی کے ہاتھوں میں تھا۔ غور فرمائیے بارہ کروڑ کا ملک اور حکمِ اذاں صرف ایک شخص کو ملا اور وہ تھے ملک غلام جیلانی۔ عاصمہ جیلانی اور حنا جیلانی تمام عمر اپنے بہادر باپ کے نقشِ قدم پر چلیں اور اپنے باپ کی طرح ملکی تاریخ میں اپنا نام لکھوایا۔
ملک صاحب کی زندگی کا بڑا حصہ سرکاری ملازمت میں گزرا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ محکمہ بحالیات (مہاجرین کی آباد کاری اور مشترکہ جائیدادوں کی الاٹمنٹ کا محکمہ) میں افسر تھے اور غالباً ساہیوال میں تعینات تھے۔ ممکن ہے کہ وہ رہنے والے بھی اسی ضلع کے ہوں‘ البتہ ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور منتقل ہو گئے اور گلبرگ میں رہائش اختیار کی۔ 60 کی دہائی میں ملک غلام جیلانی قومی اسمبلی کے رکن رہے اور شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے صدر تھے۔ ایوب خان کے اقتدار کے آخری سال جب شیخ مجیب الرحمن گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہورآئے تو ملک صاحب ہی کے گھر قیام کیا اور کانفرنس بھی اُن کے گھر پر ہی ہوئی کیونکہ کوئی ہوٹل یا ہال اسے منعقد کرنے پر تیار نہ تھا۔ عوامی لیگ کے مشہورِ زمانہ چھ نکات کا اُن کے گھر میں ہونی والی کانفرنس سے ہی اعلان ہوا تھا۔ اُن کا گھر اس وقت کی سیاست میں بہت نمایاں رہا۔ اسی گھر میں مغربی پاکستان کی اسمبلی کے شاعر رکن عبدالباقی بلوچ (جو ایوب آمریت پر کڑی تنقید کرتے تھے) پر جنوری 1965ء میں قاتلانہ حملہ ہوا (عمومی تاثر یہ تھا کہ یہ حملہ گورنر مغربی پاکستان نواب کالاباغ کے ایما پر ہوا)۔ عبدالباقی اس حملے میں شدید زخمی ہوئے مگر ایک صحافی (ضمیر قریشی) ناحق مارا گیا۔ سات اپریل 1971ء کو ملک غلام جیلانی نے نام نہاد صدر یحییٰ خان کو ایک خط لکھا جو تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ یحییٰ خان کے دورِ اقتدار کے آخری دنوں میں ملک غلام جیلانی گرفتار ہوئے اور پھر انہیں قید سنا دی گئی تو اُن کی بیٹی عاصمہ جیلانی نے سپریم کورٹ میں اُن کی رہائی کے لیے ایک مقدمہ دائر کیاجو ہماری تاریخ میں ''عاصمہ جیلانی بنام ریاست‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ مولوی تمیز الدین کیس کے بعد عاصمہ جیلانی کیس ہماری آئینی تاریخ کا دوسرا بڑا اور اہم مقدمہ ہے۔ زرینہ گوہر (الطاف گوہر کی اہلیہ) نے بھی اپنے خاوند کی رہائی کے لیے ایک مقدمہ دائر کر رکھا تھا اور دونوں خواتین کامیاب رہیں۔
ملک غلام جیلانی بے شمار خوبیوں کے مالک تھے‘ جن میں جرأت وبہادری اور بے خوفی سرفہرست ہیں۔ وہ اکثر لندن آتے رہتے تھے اور ایک بار میری اُن سے یہاں ملاقات بھی ہوئی اور اُنہوں نے مجھے خوب مزے مزے لے کر لندن میں اپنی کامیابیوں (تھوڑی رقم لگا کر زیادہ رقم جیتنے) کے قصے سنائے۔ جب مشرقی پاکستان میں عسکری آپریشن کی بدترین حکمت عملی اپنائی گئی تو ملک غلام جیلانی نے مغربی پاکستان میں اس کے خلاف بھرپور آواز بلند کی۔ میری معلومات کے مطابق گنتی کے چند افراد (پروفیسر وارث میر‘ ڈاکٹر مہدی حسن اور آئی اے رحمان) کے سوا پورے مغربی پاکستان سے کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔
ملک غلام جیلانی کا تفصیلی تعارف اس لیے بھی ضروری تھا کہ یہ تصور راسخ ہو سکے کہ عاصمہ جیلانی کس خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں۔ عاصمہ جیلانی نے شادی کے بعد اپنے نام میں یہ تبدیلی کی کہ عاصمہ جیلانی سے عاصمہ جہانگیر بن گئیں۔ البتہ حنا بدستور حنا جیلانی ہیں۔ عاصمہ 27 جنوری 1953ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں اور 11 فروری 2018ء کو برین ہیمرج سے آناً فاناً وفات پا گئیں۔ ان کی عمر صرف 66 برس تھی۔ اتفاق سے میں اُن دنوں پاکستان میں تھا۔ عاصمہ کی نمازِ جنازہ مولانا مودودی کے اُس بیٹے نے پڑھائی تھی جس نے ان کا نکاح بھی پڑھایا تھا۔ میں نے یہ نماز بڑی دل گرفتگی اور ذہنی پریشانی کے عالم میں پڑھی۔ عاصمہ مجھ سے عمر میں 14 برس چھوٹی تھیں مگر میرے لیے وہ میرے ایک عزیز دوست کی بیٹی تھیں اور اس حوالے سے مجھے ہمیشہ ایک چھوٹی بچی لگتی تھیں۔ کتنے فخر کی بات ہے کہ عاصمہ نے وکلا برادری میں وہی بلند مقام حاصل کیا جو ایک زمانہ میں میاں محمود علی قصوری کا تھا۔ عاصمہ نے ضیا الحق کے حدودآرڈیننس کی اُس تشریح کے خلاف زبردست احتجاج کیے جس کے مطابق عصمت دری کا شکار ہونے والی خواتین پر زنا کا مقدمہ چلایا جاتا تھا۔ 1983ء میں عاصمہ نے خواتین کے اُس مظاہرے کی قیادت بھی کی جو ایک نابینا خاتون کو عصمت دری کا نشانہ بن جانے کے بعد (زنا کے جرم میں) سزائے موت سنانے کے خلاف تھا۔ نہ صرف عاصمہ اور اُن کے ساتھیوں کی بہادرانہ جدوجہد سے یہ سزا منسوخ ہوئی بلکہ ان خاتون کو ایک محفوظ ملک جا کر رہنے کی اجازت بھی مل گئی۔ بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ نے عاصمہ کو دو بڑی اہم ذمہ داریاں سونپیں۔ 1998ء سے 2004ء تک وہ غیر عدالتی ذریعے سے موت کی سزا پانے والوں کی رپورٹ تیار کرنے کے لیے یو این کی Special Rapporteur رہیں۔ یہی ذمہ داری مذہبی آزادی کے حق کی خلاف ورزی کی سالانہ رپورٹ تیار کرنے کے لیے 2004ء تا 2010ء‘ چھ برسوں کے لیے انہیں سونپی گئی۔
1990ء میں عاصمہ نے بے نظیر بھٹو کی طرف قومی اسمبلی کے الیکشن کے لیے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لینے اور 1992ء میں ہائی کورٹ کا جج بن جانے سے انکار کیا تھا۔ انہوں نے اپنی مصروفیات کے باوجود تین اچھی کتابیں لکھیں اور وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر بھی منتخب ہوئیں۔ پرویز مشرف کے دور میں انہیں گھر میں نظربند کیا گیا۔ عاصمہ کو حکومت پاکستان (جس کے خلاف وہ عمر بھر برسرِ پیکار رہیں) نے دو اعزازات دیے۔ نشانِ امتیاز (بعد از مرگ) اور ستارۂ امتیاز۔ حکومت فرانس نے انہیں Legion of Honour کا اعزاز دیا جبکہ ایک معتبر امریکی یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ملک انوار الحق‘ جسٹس دراب پٹیل اور آئی اے رحمان کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کمیشن کی بنیاد رکھی‘ جو آج پاکستان میں انسانی حقوق کی سب سے معتبر اور زور دار آواز ہے۔ یہ ان کا وہ ورثہ ہے جو لازوال ہے۔ عاصمہ اور خواتین کے حقوق کی حفاظت (بلکہ تمام پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی حفاظت) ہم نام بن گئے۔ اپنی اسی جدوجہد سے انہیں عالمی شہرت ملی اور 1998ء میں Martin Ennals ایوارڈ بھی ملا۔ یہ تمام اعزازات اپنی جگہ مگر اُن کا اصل اعزاز وہ محبت اور احترام کا رشتہ ہے جو انہوں نے اپنے لاکھوں مداحوں کے دلوں میں قائم کیا اور آخری عمر تک قائم رکھا۔ اُن کے پس ماندگان میں ان کا غم زدہ شوہر‘ دو بچے‘ ایک بہن (حنا جیلانی) اور تین اچھی کتابیں ہیں۔ اور سوگواروں میں لاکھوں‘ کروڑوں افراد ہیں جن میں یہ کالم نگار سرفہرست ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں