نئے صوبوں کی ضرورت … (2)

انجمن میں میری تنہائی اور کم ہوئی۔ تین ''راز دان‘‘ اور مل گئے اور وہ ہیں ڈاکٹر حسین احمد پراچہ صاحب‘ جویریہ صدیق صاحبہ اور محسن سلیم اللہ صاحب‘ جن کا بہت اچھا کالم ایک انگریزی معاصر میں پچھلے ہفتہ شائع ہوا۔ دو ریٹائرڈ آئی جی صاحبان (خادم حسین بھٹی اور اختر حسین گورچانی) کی طرف سے بھرپور حمایت کے پیغامات ملے تو میرا حوصلہ بلند ہو گیا۔ میری خامیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ میں پرانے اخبارات کے تراشے اکٹھے کرتا ہوں۔ ان کا انبار اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ گھر کا ایک کمرہ میرے مذکورہ کاٹھ کباڑ سے بھر گیا ہے۔ آپ میری حیرت اور خوشی کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ کل میں پرانے تراشوں کی ایک فائل دیکھ رہا تھا کہ مجھے 30جولائی 2013ء کا ایک تراشہ ملا جس میں یہ خوشخبری درج تھی کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ پنجاب میں اتفاقِ رائے سے عوام دوست بلدیاتی نظام کی تشکیل کی طرف فوری توجہ دیں۔ وفاقی حکومت مقامی سطح پر عوام کے مسائل کے حل کیلئے بلدیاتی اداروں کا موثر نظام چاہتی ہے تاکہ لوگوں کو معاشی‘ سیاسی‘ سماجی لحاظ سے بااختیار بنایا جائے۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر وزیراعظم کو بلدیاتی بل کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ منظوری سے قبل اس بل پر صوبائی ایوان میں تفصیلی بحث کی جائے گی۔ خصوصی کمیٹی کی تجاویز پر بحث کے علاوہ اپوزیشن کے ارکان کو خصوصی طور پر منایا جائے گا۔
بارہ سال بعد پنجاب کا وزیراعلیٰ اب پاکستان کا وزیراعظم ہے۔ ان کی حکومت کو ایک سال سے زائد گزر چکا ہے۔ ان کو قطعاً یاد نہ ہوگا کہ بارہ سال پہلے ان کے بڑے بھائی نے عوام دوست بلدیاتی نظام کی تشکیل کے بارے میں کونسا کام ان کے ذمہ لگایا تھا۔ 30جولائی 2013ء کا دن اور آج کا دن‘ بڑے بھائی کا مشورہ طاقِ نسیاں پر رکھا رکھا گرد آلود ہو چکا ہو گا۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ وہ اس مشورے پر جمے ہوئے گرد و غبار کو جھاڑ پھونک کر صاف کریں اور بارہ سال قبل دیے گئے اس مشورے پر عمل کر لیں۔ اس میں ہمارے ملک کی بھلائی ہے۔ یہ واحد راستہ ہے جو ہمیں اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ صرف اس طریقہ سے ہم قوتِ اُخوت عوام کو بروئے کار لا سکتے اور 24کروڑ لوگوں کو فلاحی مملکت کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ ایک ایسا برا وقت بھی آیا جب مشرف کے دور کے خاتمے (جو کہ بذاتِ خود بڑے خیر کا سبب بن سکتا تھا) کے بعد چاروں صوبوں کے بلدیاتی اداروں کو توڑ کر سرکاری افسروں کو ان کا ناظم لگا دیا گیا تھا‘ جس کے باعث یہ ادارے عوام کیلئے بے معنی ہو گئے۔ ستم بالائے ستم کہ چاروں صوبائی حکومتیں نئے بلدیاتی انتخابات کرانے سے قاصر رہیں بلکہ بدقسمتی سے ایک نہایت فضول قسم کی بحث چھڑ گئی کہ نئے بلدیاتی انتخابات مشرف دور کے وضع کردہ (کمال درجہ کے) نظام کے تحت کرائیں یا اس سے پہلے والا نظام ہی بحال کر دیا جائے۔ سندھ میں اس سنگین مسئلہ پر دونوں اتحادی جماعتوں (پیپلز پارٹی اور MQM) میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے۔ پیپلز پارٹی ضیا الحق دور کا بنیادی جمہوریتوں کا نظام لانا چاہتی تھی جبکہ ایم کیو ایم اس کے برعکس مشرف نظام کے حق میں تھی۔ پنجاب نے بعض ضروری اصلاحات کے بعد ضیا الحق دور کے بلدیاتی نظام کو اپنانے کی راہ اختیار کی پھر یہ معاملہ سپریم کورٹ کے پاس گیا تو اس نے چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم جاری کیا۔ آ پ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ ہمارا وطیرہ یہی رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سابقہ بلدیاتی نظاموں کی خامیوں کو دور کرکے مستقلاً ایسانظام وضع کر لیا جائے جو ہماری ضرورتوں اور تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔ اگر بارہ برس پہلے چاروں صوبائی حکومتیں وزیراعظم کی (یقینا صدقِ دل سے) دی گئی راہنمائی کو پیش نظر رکھ کر اور وسیع تر مشاورت کو اختیار کر کے اس موضوع پر سنجیدگی سے کام کرتیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام بلدیاتی نظام سے جو توقعات وابستہ کیے ہوئے تھے‘ وہ پوری ہو سکتی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتیں مقامی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے بلدیاتی اداروںکا موثر نظام چاہتی ہیں یا نہیں؟ اگر موجودہ حکومتیں مقامی سطح پر عوام کو معاشی‘ سماجی اور سیاسی لحاظ سے بااختیار بنانا چاہتی ہیں (میری سادہ لوحی‘ خوش گمانی اور رجائیت قابلِ داد ہے اور قابل رحم بھی)تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ یقینا عوام دوست بلدیاتی نظام میں یہی خوبیاں ہونی چاہئیں۔ میری طرح کے ہزاروں ناقدین کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مجوزہ نظام کے تحت صوبائی حکومت اور ضلعی سطح پر اختیارات (انگریز کے بنائے ہوئے سامراجی نظام کے اہم کل پرزہ) ڈپٹی کمشنر کے پاس ہوں گے اور عوامی نمائندوں کی حیثیت کٹھ پتلی کی ہو گی۔ ہر صوبائی حکومت کا فرض ہے کہ وہ بلدیاتی اداروں کو صحیح معنوں میں بااختیار بنائے اور انہیں ہر گز سرکاری حکام کے ماتحت نہ کرے۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں میں بلدیاتی یا مقامی حکومتیں وسیع اختیارات کی مالک ہوتی ہیں۔ بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں نو بلدیاتی ادارے فلاحی ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عام آدمی کے روزمرہ مسائل کا حل اس کی دہلیز پر موجود ہوتا ہے۔ اس طرح عوام کو عدالتوں کے چکر لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ انہیں پولیس اور تھانے کی احتیاج سے بھی نجات مل جاتی ہے بلکہ جن ممالک میں حقیقی بلدیاتی نظام رائج ہے وہاں تھانہ کچہری کلچر نام کی کسی چیز کا وجود نہیں۔ مقامی حکومتوں کے بااختیار اور باوسائل نظام کی صرف یہی افادیت نہیں کہ وہ عوامی مسائل کے حل کیلئے مقامی سطح پر بہترین پلیٹ فارم یا فورم مہیا کرتا ہے بلکہ قومی سطح کی قیادت فراہم کرنے کی نرسری بھی بن جاتی ہے۔ ہماری (یہ لفظ لکھنے کیلئے مجھے دل پر جبر کرنا پڑا) صوبائی حکومتیں اگر واقعی وسیع تر مشاورت اور عوامی آرا کی مدد سے بہترین بلدیاتی نظام کی تلاش میں ہیں تو اس سلسلہ میں پہلے سے موجود کئی ایسے ماڈل ہیں جنہیں جدید تقاضوں اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں مناسب تراش خراش کے بعد باآسانی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً مشرف کے بلدیاتی نظام پر لگی آمریت کی منحوس چھاپ کو دور کر لیا جائے تو ہم اس کمال کے نظام سے بخوبی استفادہ کر سکتے ہیں۔ اس نظام کی بدولت عام آدمی کو روزمرہ کے مسائل کے حل میں بڑی مدد ملتی تھی۔ ایوب خان بھی مشرف کی طرح آمر مطلق تھا لیکن اس کے بلدیاتی نظام کی بعض اچھی باتیں اب تک قائم اور بلدیاتی نظام کا حصہ ہیں۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ پاکستان میں جو تین مارشل لا کے 30سالوں پر پھیلے ہوئے ادوار آئے ان میں وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کا وجود نمائشی یا برائے نام تھا مگر ایمان داری سے دیکھا جائے تو یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ آمریت کے ہر دور میں بلدیاتی ادارے بنائے گئے۔ ان کو پروان چڑھایا گیا۔ ان کی پرورش سرکاری سرپرستی میں کی گئی اور جب جمہوری دور آیا (بے نظیر بھٹو کا‘ نواز شریف کا اور عمران خان کا) تو بلدیاتی اداروں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ ہمارے آئین (جس کی دھجیاں اُڑانے کے فن میں ہم یدطولیٰ رکھتے ہیں) کا آرٹیکل 32اور آرٹیکل 40اے ہر صوبائی حکومت کو اس امر کا پابند کرتا ہے کہ وہ لوکل گورنمنٹ سسٹم بنائے گی اور مقامی حکومتوں کو سیاسی‘ انتظامی اور مالیاتی اختیارات منتقل کرے گی۔ آرٹیکل 32کے تحت ریاست کا فرض ہے کہ وہ مقامی حکومتی اداروں کی حوصلہ افزائی (نشوونما) کرے گی جن میں اپنے علاقے کے منتخب نمائندے ہوں گے اور ان میں کسانوں‘ مزدوروں اور عورتوں کو خصوصی نمائندگی دی جائے گی۔ میرے خیال میں یہ اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ ہم عوام دوست‘ فعال‘ بااختیار اور باوسائل مقامی حکومتوں کے حق میں قومی مہم چلائیں۔ وکلا اس تحریک کا ہر اوّل دستہ ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں