عالمی ضمیر کی آواز

میں برطانیہ میں اپنے 58 برسوں پر پھیلے قیام کو مڑ کر دیکھوں اور سوچوں کہ کیا کھویا اور کیا پایا تو مجھے بلا توقف اس ملک میں ملنے والے تین بڑے فائدے نظر آتے ہیں۔ اوّل: اپنے چھ کے چھ بچوں (پانچ بیٹوں‘ ایک بیٹی) کو برطانیہ میں نہ صرف گریجویٹ بلکہ پوسٹ گریجویٹ تک بہترین تعلیم حاصل کرنے کی سہولت۔ دوم: Lord Eric Avebury جیسے انسان دوست شخص سے گہری‘ لازوال اور ہر قسم کے مفاد اور مصلحت سے بے نیاز دوستی۔ اُن کی بے حد شاندار زندگی پر یہ مضمون ان کی نویں برسی (14 جنوری) پر لکھا جا رہا۔ سوم: برطانیہ میں قیام سے فائدہ اُٹھا کر خود قانون کی تعلیم (جو زندگی کے سات برس لے گئی) اور میری اہلیہ یاسمین کا تاریخ کے مضمون میں ایم اے کی دوسری ڈگری کا حصول۔ برطانیہ میں لنکاشائر میں رہتے ہوئے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہم نے لندن کے قریب سلاؤ (Slough) میں رہنے کا فیصلہ تین وجوہات کی بنا پر کیا۔ (1) یہاں ہمارے ایک دوست جمیل اختر کاہلوں نے (جو ہمارے بچوں سے عمر میں صرف دس سال بڑا تھا)ہماری آمد سے دو ماہ پہلے ہی ہمارے لیے مناسب رہائش کا انتظام کر رکھا تھا۔ (2) یہاں تین بہترین گرائمر ہائی سکول تھے جن کا تعلیمی معیار عام سکولوں سے بدرجہا بہتر ہوتا ہے اور یہاں بچوں کو داخلہ کیلئے گیارہ سال کی عمر میں ایک سخت امتحان پاس کرنا پڑتا ہے۔ (3) سلاؤ لندن‘ ونڈسر اور ہیتھرو ایئر پورٹ کا مضافاتی شہر تھا۔ خوش قسمتی سے ہمیں اس شہر میں آئے ہوئے ایک ہی دن گزرا تھا کہ مجھے وہاں ایک کالج میں ٹیچنگ کی ملازمت مل گئی۔
اگرچہ کالج کی ملازمت میں تنخواہ زیادہ نہ تھی (بمشکل گزارہ ہوتا تھا‘ خصوصاً جب آپ چھ بچوں کے کفیل ہوں) مگر اس میں آرام ہی آرام تھا۔ کتابیں پڑھنے اور کرکٹ کھیلنے کیلئے فرصت اور سال میں پانچ ماہ کی تعطیلات۔ کالج میں صرف تین گھنٹے روزانہ پڑھانا ہوتا تھا۔ اللہ نے فرصت اتنی فراوانی سے دی تو ہم دونوں نے لندن کے عجائب گھروں اور آرٹ گیلریوں کو اچھی طرح دیکھا اور بچوں کو جنوبی انگلستان اور ویلز کی خوب سیر کرائی۔ سلاؤ کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ وہ برطانیہ کے سب سے بڑے ایئر پورٹ سے قربت کے علاوہ یورپ کا سب سے بڑا صنعتی مرکز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ایشیائی تارکین کی بڑی تعداد (تقریباً 25 ہزار) رہتی تھی ‘ جواب کئی گنا ہو چکی ہے۔ پاکستانیوں کی سماجی فلاح و بہبود کیلئے اپنی انجمن ہے جو ان کے حقوق اور سہولتوں کے لیے آواز بلند کرتی ہے۔ میں اس کا دوبار صدر چنا گیا‘ البتہ دوسرے سال میں انتخاب میں کامیابی کے ایک ماہ بعد ہی خرابیٔ صحت کی وجہ سے مستعفی ہو گیا۔
اپنی پہلی ٹرم میں ابھی چند دن ہی گزرے ہوں گے کہ ایک چھوٹے سے بھونچال نے پہلے 25 ہزار پاکستانیوں کی کمیونٹی اور آگے چل کر سارے نیک دل برطانوی باشندوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ میر پور (آزاد کشمیر) سے تعلق رکھنے والا ایک شخص‘ جو مقامی ریلوے سٹیشن پر ٹکٹ چیکر تھا‘ کا بارہ سالہ بیٹا پاکستان سے اپنے برٹش پاسپورٹ پر واپس برطانیہ آرہا تھا کہ اسے ایئر پورٹ پر امیگریشن حکام نے اس شبہ میں روک لیا کہ اس کا پاسپورٹ جعلی ہے۔ ان کے ریکارڈ کے مطابق چند ماہ قبل اس نام کا ایک لڑکا (جس کی تاریخ پیدائش وہی تھی جو روکے جانے والے لڑکے کی تھی) پاکستان سے برطانیہ آچکا تھا۔ نو وارد بچے کو ایئر پورٹ سے باہر جانے کی اجازت نہ ملی اور امیگریشن حکام نے اس کے والد کو (جو ایئر پورٹ پر اپنے بیٹے کا استقبال کرنے اور اسے گھر لانے کیلئے موجود تھا) بتا دیا کہ کیا ماجرا ہے۔ آپ اس کی پریشانی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ وہ بھاگم بھاگ سلاؤ واپس آیا اور اپنے درجنوں رشتہ داروں کو تین چار کاروں میں سوار کرکے سیدھا میرے گھر آیا اور فوری کا مطالبہ کیا۔ میں نے کپڑے بھی نہ بدلے اور ان لوگوں کے ساتھ (قمیص شلوار اور چپل پہنے) ایئر پورٹ چلا گیا اور امیگریشن والوں کو فون کرکے اپنی آمد کی اطلاع دی۔ وہ فوراً باہر آئے اور مجھے اور بچے کے باپ کو لے کر اندر اپنے دفتر چلے گئے۔ ایک گھنٹہ تفتیشی سوالات کیے جاتے رہے۔ زیر عتاب باپ اپنی معصومیت کی تکرار کرتا رہا مگر بے سود۔ آخر مجھے مداخلت کرنا پڑی اور میں نے یہ تجویز پیش کی کہ آپ بچے کا مشتبہ پاسپورٹ اپنے پاس رکھ لیں۔ دو‘ تین ماہ پوری تفتیش کریں۔ اگر نووارد کا پاسپورٹ اور شناخت جعلی ثابت ہو تو اُسے برطانیہ سے نکال دیں اور اگر وہ بے گناہ ثابت ہو تو پاسپورٹ واپس کر دیں اور اس فیملی کو شدید پریشان کرنے پر ان سے معافی مانگیں۔ چیف امیگریشن افسر نے دو وجوہات پر میری بات مان لی۔ ایک تو میری تجویز معقول تھی اور اتنے کم عمر بچے کو قیدی بنا کر رکھنے میں کئی قانونی پیچیدگیاں حائل تھیں۔ دوسری (اور غالباً زیادہ وزنی) وجہ یہ تھی کہ اُس افسر کی 18 سالہ بیٹی میری طالبہ تھی۔ اگر قانون کی خلاف ورزی کا خیال نہ ہو تو انگریز بہت لحاظ کرتے ہیں۔
اس بات کو دو ماہ گزر گئے تو میں نے امیگریشن حکام کو فون کرکے پوچھا کہ تفتیش کہاں تک پہنچی ہے؟ جواب ہر گز حوصلہ افزا نہ تھا۔ تفتیش کرنے والے اندھیرے میں بھٹک رہے تھے مگر اپنے ابتدائی شک و شبہ کو یقین کا درجہ دے چکے تھے۔ جب یہ خطرہ ہمارے سروں پر منڈلانے لگا کہ امیگریشن حکام پولیس کو ساتھ لے کر سلاؤ میں اس بچے کے گھر پر چھاپہ ماریں گے اور اسے پاکستان جانے والی پہلی پرواز پر بٹھا کر ملک بدر کر دیں گے اور ہم (بچے کو قیدی بنانے کے مرحلہ سے گزرے بغیر) ہاتھ ملتے رہ جائیں گے تو میں نے سلاؤ کی رکن پارلیمنٹ Joan Lestor سے رابطہ کیا۔ انہوں نے ہر ممکن مدد کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے یہ قیمتی مشورہ دیا کہ میں برطانوی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے انسانی حقوق کی کمیٹی کے چیئرمین لارڈ ایوبری (Avebury) سے رابطہ کروں اور ان سے مدد مانگوں اور انہیں ساتھ لے کر وزیر داخلہ (جسے برطانیہ میں ہوم سیکرٹری کہتے ہیں) سے ملوں۔ جون لیسٹر نے دوسری مہربانی یہ کی کہ مجھے لارڈ ایوبری کا ذاتی فون نمبر بھی دے دیا۔ میں نے انہیں فون کرنے میں دیر نہ کی۔ انہوں نے فون اٹھایا تو میں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے ان کو سارے مسئلے کا خلاصہ سنایا۔ اب مہربانی کرنے کی باری ان کی تھی۔ انہوں نے مجھے اگلے ہی دن اپنے گھر پر بلا لیا۔
میں مقررہ وقت پر ان کے گھر پہنچا تو وہ غیرمعمولی خندہ پیشانی اور گرم جوشی سے ملے۔ میں اپنا مقدمہ تیار کرکے لایا تھا جو میں نے مختصر الفاظ میں (تاکہ معزز میزبان کے صبر کا امتحان نہ لوں) بیان کر دیا۔ انہوں نے بڑی توجہ سے میری بات سنی اور پھر میرے سامنے قائم مقام ہوم سیکرٹری کو فون کیا۔ اس بھلے آدمی نے ایک ہفتے کا وقت دے دیا اور ملاقات طے پا گئی۔ لارڈ ایوبری نے ڈائری اٹھائی اور اس میں یہ ملاقات لکھ لی اور مجھے کہا کہ مجھے اور میرے ساتھ جانے والے وفد کو ہوم سیکرٹری کے استقبالی کمرہ میں ملاقات سے دس منٹ پہلے ملیں گے۔
وہ اس وقت اپنے گھر میں اکیلے تھے‘ ان کی بیوی اور بچے باہر گئے ہوئے تھے۔ میزبان نے مجھے کہا کہ میرے پاس نہ کوئی ملازم ہے اور نہ ملازمہ‘ اس لیے میں خود چائے بنا کر آپ کو پلاتا ہوں۔ اس بہانے ہماری ملاقات آدھ گھنٹہ مزید لمبی ہو گئی۔ وہ میرے بچوں کے بارے میں فرداً فرداً پوچھتے رہے اور خوش ہوتے رہے۔ 45 منٹ پہلے پارلیمنٹ کے قریب دریا کے کنارے لارڈ ایوبری کے گھر آنے والا شخص اجنبی اور سائل تھا مگر جب وہ جانے لگا تو میزبان اپنے مہمان کو باہر تک چھوڑنے آیا اور بغلگیر ہو کر الوداع کیا اور کہا کہ چند دنوں بعد پھر ملیں گے۔ جب اجنبی سائل وہاں سے رخصت ہوا تو وہ اور میزبان قریبی دوست (اور آگے چل کر بڑے بھائی) بن چکے تھے۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں