فروری 1976ء سے فروری 2016ء‘ گنتی میں یہ صرف 40 برس لگتے ہیں مگر محسوس ہوتا ہے کہ Lord Eric Avebury شروع زندگی سے میرے بہت قریبی دوست تھے۔ بات ہو رہی تھی ایک بچے کے برطانیہ میں داخلے پر اعتراض اور اس سلسلے میں ہوم سیکرٹری سے ملاقات کی۔ یہی اصل میں لارڈ ایوبری سے تعلق کا سبب بنی۔ میرے شہر (سلائو) کی رکن پارلیمنٹ Joan Lestor بھی میرے وفد میں شامل ہوئیں۔ حسن اتفاق سے ہوم سیکرٹری (وزیر داخلہ) ایک ہفتہ کی تعطیل پر تھے۔ اُن کا نائب (وزیر مملکت) ہائوس آف لارڈز کا رُکن تھا اور لارڈ ایوبری کا دوست۔ آدھ گھنٹے کی ملاقات توقع سے کہیں زیادہ اچھی رہی۔ بنیادی نکتہ یہ تھا کہ دو ماہ گزر چکے ہیں مگر ابھی تک ہوم آفس کے حکام اور پولیس کو وہ بچہ نہیں ملا جو مبینہ طور پر نووارد بچے کا پاسپورٹ استعمال کر کے برطانیہ داخل ہوا۔ اب خطرہ یہ تھا کہ ہوم آفس اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے کسی روز رات گئے مشتبہ بچے کے گھر پر Raid کرے گا اور صبح سویرے عدالتیں کھلنے سے پہلے بچے کو ملک بدر کر دے گا۔ ہوم آفس کے افسر کا جواب آئیں بائیں شائیں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ وزیر مملکت نے اُس پر کڑی جرح کی اور اُسے لاجواب کر دیا۔ آخر پہ انہوں نے کہا کہ میں ان افسران کو حکم دیتا ہوں کہ وہ سلائو کے بچے کا پاسپورٹ واپس کریں اور اس تفتیش کو داخلِ دفتر کریں۔ لارڈ ایوبری نے ہمارے وفد کی طرف سے وزیر مملکت کا شکریہ ادا کیا۔ بچے کے والدین اور اُن کے رشتہ دار ساتھ والے کمرے میں ہمارے منتظر تھے کہ کیا فیصلہ ہوتا ہے! میں نے اُنہیں خوش خبری سنائی تو وہ رونے لگے۔ لارڈ ایوبری نے یہ منظر دیکھ کر مجھے پوچھا کہ آپ نے انہیں غلط خبر تو نہیں سنا دی؟ میں نے کہا کہ ہرگز نہیں‘ یہ خوشی کے آنسو ہیں۔ فیصلہ ہمارے خلاف آتا تو یہ لوگ پھر بھی روتے مگر وجہ مختلف ہوتی۔ ہوم آفس کے دفاتر سے باہر نکلے تو اخباری نمائندوں اور کیمرہ بردار ٹیلی ویژن رپورٹروں سے ٹاکرا ہمارا منتظر تھا۔ میری درخواست پر لارڈ ایوبری نے جچے تلے الفاظ میں ہماری جدوجہد کا خلاصہ بتایا اور ہوم سیکرٹری کا شکریہ ادا کیا۔ دو ہفتوں بعد ہم نے اس کامیابی کا جشن منایا اور رکن پارلیمنٹ نے لارڈ ایوبری کو جو گلدستہ پیش کیا‘ بکمال مہربانی اُنہوں نے وہ مجھے دے دیا۔
لارڈایوبری کے دادا مسلم‘ باپ مسیحی اور وہ خود بدھ مت کے پیروکار تھے۔ اُن کے دادا تاعمر ہائوس آف لارڈز کے رکن رہے اور صرف ایک موضوع پر پُرجوش تقاریر کرتے رہے اور وہ تھا: انڈونیشیا کے مسلمانوں کی ہالینڈ کے نوآبادیاتی قبضے سے آزادی۔ وہ ہر دوسرے تیسرے سال برطانیہ سے دخانی بحری جہاز سے آٹھ ہزار میل دور انڈونیشیا کا کٹھن سفر کرکے وہاں مسلمانوں کو ملنے‘ اُن کا حوصلہ بڑھانے اور اُنہیں اپنی حمایت کا یقین دلانے پہنچ جاتے تھے۔ ایرک 29 ستمبر 1928ء کو پیدا ہوئے۔ ہائوس آف لارڈز کی رکنیت انہیں وراثت میں ملی۔ دوسری عالمی جنگ چھڑی تو ہزاروں انگریز بچوں کی طرح اُنہیں حفاظتی تدابیر کے تحت کینیڈا بھیج دیا گیا‘ جہاں وہ ٹورنٹو کے ایک کالج میں پڑھے۔ برطانیہ واپس آئے تو مشہور پرائیویٹ سکول Harrow میں داخل ہوئے (پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی اسی سکول سے تعلیم حاصل کی) اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی کے Balliol College سے انجینئرنگ کی ڈگری لی۔ وہ جرمنی میں متعین رائل گارڈز میں کمیشن لے کر افسر بنے۔ لارڈ ایوبری جنوب مشرقی لندن میں Kent کائونٹی میں اپنی ایکڑوں پر پھیلی اور درختوں میں گھری قدیم حویلی میں رہتے تھے۔ مشہور سائنسدان چارلس ڈارون اُن کے دادا کا پڑوسی تھا۔ اُنہیں لبرل پارٹی کا رکن بنے دو سال اور ڈسٹرکٹ کونسل میں کونسلر بنے صرف ایک سال گزرا تھا کہ Orpington میں لبرل پارٹی کی مقامی شاخ کے کارکنوں نے پارلیمانی انتخابات میں انہیں اپنا اُمیدوار چن لیا۔ (امریکہ اور یورپ کے ہر جمہوری ملک میں مرکزی قیادت کی مداخلت کے بغیر‘ مقامی شاخ اپنا اُمیدوار خود نامزد کرتی ہے)۔ اس حلقۂ انتخاب میں کنزرویٹو (ٹوری) پارٹی کا امیدوار ہر الیکشن میں پندرہ ہزار کے قریب ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوتا آ رہا تھا لہٰذا ایرک ایوبری کی کامیابی کے امکانات کو صفر سمجھا جا رہا تھا مگر ایرک نے انتخابی مہم میں جان لڑا دی اور ایک ایک گھر کے دروازے پر دستک دے کر اپنی پارٹی کیلئے ووٹ مانگا۔ جب الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوا تو برطانیہ میں سیاسی زلزلہ آگیا۔ ایرک 7800 ووٹوں کی اکثریت سے جیت گئے تھے۔ اُن کی کامیابی سے 650اراکین کے دارالعوام میں اُن کی پارٹی کے اراکین کی تعداد چھ ہوگئی‘ جو اگلے عام انتخابات میں 12 پہ جا پہنچی۔ 1970ء میں وہ اپنی نشست پر شکست کھا گئے تاہم اگلے برس اُنہیں ہائوس آف لارڈز میں (موروثی بنیادوں پر) نشست ملی جو اُن کی وفات تک اُن کے پاس رہی۔ پارلیمان کا رکن بن جانے کے بعد وہ دونوں ایوانوں کی انسانی حقوق کی مشترکہ کمیٹی کے صدر چن لیے گئے اور یہ ذمہ داری بھی اُنہوں نے تقریباً پچاس برس بخوبی نبھائی۔ ہر پانچ سال بعد مذکورہ کمیٹی کی صدارت میں لارڈ ایرک ایوبری اپنی سیاسی وابستگی سے قطع نظر متفقہ طور پر نامزد کیے جاتے رہے۔
اسّی کی دہائی کے اوائل میں کالم نگار نے پاکستان کے حق میں برطانوی حکومت پر اثر انداز ہونے کیلئے لارڈ ایوبری اور دوسرے دوستوں سے مشورہ کیا تو فیصلہ ہوا کہ پارلیمان کے اندر فرینڈز آف پاکستان کے نام سے ایک گروپ بنایا جائے‘ جس کے پارلیمان کے اندر کمیٹی روم میں اجلاس ہوں۔ پاکستان سے آئے سیاستدانوں (چاہے وہ کسی بھی جماعت سے ہوں) اور صحافیوں کو اس اجلاس میں شرکت اور اراکینِ پارلیمنٹ سے ملاقات کا موقع فراہم کیا جائے اور ہر دو‘ تین سال بعد پارلیمان کے ایک رکن کو پاکستان کا دورہ کرایا جائے۔ لارڈ ایوبری اس گروپ کے صدر اور میں سیکرٹری بنا۔ 1983ء میں Stoke on Trent کے ایک لیبر رکنِ پارلیمنٹ ہمارے پہلے مہمان بنے۔ وہ اسلام آباد میں اعلیٰ سرکاری حکام سے ملے اور لاہور میں جلسۂ عام سے خطاب کیا۔ 1985ء میں لارڈ ایوبری میرے ساتھ پہلی بار اسلام آباد‘ لاہور‘ کراچی اور مظفر آباد گئے۔ 1985ء سے 2005ء تک وہ پانچ مرتبہ پاکستان اور آزاد کشمیر گئے۔ لارڈ ایوبری کشمیر کی سرزمین پر کھڑے ہو کر آزادیٔ کشمیر کا نعرہ بلند کرتے اور غیر ملکی پریس کے سامنے یہ مؤقف اس جاندار انداز سے دہراتے کہ کم از کم چھ مرتبہ بھارتی حکومت نے اُن کی ویزا درخواست مسترد کی۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار ابراہیم اور اُن کے بیٹے سردار خالد ابراہیم اُن کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔ لارڈ ایوبری نہ صرف برطانوی پارلیمنٹ بلکہ یورپی ممالک کی پارلیمانی کمیٹیوں اور انسانی حقوق کانفرنسوں میں بھی کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے تھے۔ وہ مشرقِ وسطیٰ میں کردوں سے لے کر افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ہر ملک میں انسانی حقو ق کے احترام اور حفاظت کیلئے چلائی جانے والی ہر تحریک کی پُرجوش حمایت کرتے تھے۔ فرانس کے سابق صدر François Mitterrand اور اُن کی اہلیہ جب بھی لندن آتے‘ لارڈ ایوبری کے گھر ٹھہرتے۔ ایک بار اتفاقاً میں ان کے گھر گیا تو 'ممتاز فرانسیسی‘ مہمانوں سے بھی ملاقات ہو گئی۔برطانوی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں تارکین وطن (خصوصاً پاکستانیوں کا) اُن سے زیادہ ہمدرد اور ہمنوا کوئی اور نہ تھا۔ لارڈ ایوبری اعلیٰ انسانی اقدار کا مرقع تھے۔ وہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک ادارہ تھے‘ انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے دنیا بھر میں جدوجہد کرنے والوں کے ہراول دستے میں نمایاں۔ اگر امریکی اور برطانوی سامراجی قوتوں کے وہ اتنے سخت مخالف نہ ہوتے تو یقینا امن کا نوبیل انعام حاصل کرتے۔ فروری 2016ء میں عالمی اُفق پر روشن یہ ستارہ بجھا تو مجھے پتا چلا کہ بڑے بھائی کی وفات چھوٹے بھائی کو ایک طرح سے دوبارہ یتیم‘ بے آسرا اور تنہا کر جاتی ہے۔