آج کے کالم کا عنوان علامہ اقبال کے ایک کمال کے شعر کے دوسرے مصرع کے آخری چار الفاظ پر مبنی ہے۔ پہلے مصرع میں علامہ اقبال نے متاعِ کارواں کے چلے جانے کا ماتم کیا ہے مگر رونے کا اصل مقام ہمیں دوسرے مصرع میں ملتا ہے‘ جہاں علامہ اقبال کے نوحے کا تعلق متاعِ کارواں کے کھو جانے سے نہیں بلکہ اس سے بڑے غم‘ دکھ‘ افسوس اور پریشانی کا باعث یہ ہے کہ اہلِ کارواں کا احساسِ زیاں بھی جاتا رہا۔ بادی النظر میں دیکھیں تو یہ لگتا ہے کہ علامہ اقبال نے یہ شعر آج کے پاکستان (بلکہ اہلِ پاکستان) کے بارے میں لکھا۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے مگر میں پوری ذمہ داری کے ساتھ درج ذیل اعداد و شمار لکھ رہا ہوں کہ وہ قوم جو چند ارب ڈالرز کی خاطر کشکولِ گدائی لے کر دربدر ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے وہ خود اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے کے ضیاع کے جرم کا بے دردی سے ارتکاب کرتی ہے‘ مگر مجال ہے کہ اس کی پیشانی پر فکر کی ایک لکیر بھی اُبھری ہو۔ جون ایلیا کے ایک شعر کا یہی مفہوم ہے جس میں شاعر نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کرنے کے بعد اس کا ذرہ بھر ملال نہ ہونے کی ہمیں حیرت انگیز خبر سنائی تھی۔ ذہین قارئین سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ذرا دل تھام کر مندرجہ ذیل پہاڑوں جتنے بڑے نقصانات کی یہ فہرست پڑھ لیں۔ حکومت پاکستان نے بجلی کی خرید و فروخت میں اس وقت تک 2400ارب روپے سے زائد کا نقصان برداشت کیا ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے۔ گندم کی خرید و فروخت میں ایک سرکاری ادارے پاکستان ایگریکلچر سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (PASSCO) نے اس وقت تک 900 ارب روپے کا خسارہ برداشت کیا ہے۔ قومی ایئر لائن نے گزشتہ 25 برسوں میں قومی خزانے کو 850 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان سٹیل مل (جو پچھلے دس برس سے بند پڑی ہے) سے حکومت کو 600 ارب روپے کا گھاٹا پڑا۔ گیس کی دو کمپنیوں نے ہمارے قومی خزانے کو 600 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔ اس طرح بندرگاہوں سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ 50 ارب روپے‘ پاکستان پوسٹ 50 ارب روپے‘ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کی طرف سے کپاس کی خرید و فروخت کی مد میں 200 ارب روپے اور ملک کے سرکاری ریڈیو اور ٹی وی سٹیشن سے پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ 80 ارب روپے ہے۔
آئیے اب آمدنی پر ایک نظر ڈالیں۔ 2008ء میں حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں 1783ارب روپے موصول ہوئے جبکہ رواں مالی سال کے لیے مجموعی محصولات کا تخمینہ 17815ارب روپے لگایا گیا ہے۔ یعنی سترہ برس میں محصولات میں اضافے کا تناسب 899 فیصد بنتا ہے۔ مگر یہ جان کر آپ کی ساری خوشی دھری کی دھری رہ جائے گی کہ 2008ء میں سرکاری اخراجات صرف 200 ارب روپے تھے جو ہر سال بڑھتے بڑھتے اب 1900 ارب روپے ہو چکے ہیں۔ سرکاری اخراجات کے گزرے ہوئے 17 برس میں نو گنا سے بھی زیادہ اضافے کے بارے میں نہ اخبارات میں خبر شائع ہوئی اور نہ پارلیمان میں کسی معزز رکن نے اس بارے میں حکومت سے جواب مانگا۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ پارلیمان کی فعال اور جاندار پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے حکومت سے اس بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں کی۔ یہ تو ممکن نہیں کہ مذکورہ کمیٹی ان اعداد و شمار سے ناواقف ہو۔ یہ تو ایک کھلا راز ہے جو وطنِ عزیز سے چھ ہزار میل دور رہنے والا ایک کالم نگار بھی جانتا ہے۔ آپ غالباً جانتے ہوں گے کہ پارلیمان کا روزانہ خرچ لاکھوں نہیں کروڑوں روپے ہوتا ہے۔ ایوان سے وزرا کی غیرحاضری اتنے معمول کی بات ہے کہ اس پر کسی حلقے کی طرف سے اظہارِ حیرت (یا افسوس) نہیں کیا جاتا۔
تمام جمہوری ممالک میں رائج اصولوں کے برعکس ہمارے آئین میں صدرِ مملکت کو آرڈیننس جاری کرکے قانون سازی کا جو اختیار حاصل ہے‘ وہ سراسر بلا جواز اور جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ہمارے ہاں جو جمہوری نظام رائج ہے وہ لاچار و بے کس ہونے کے ساتھ ساتھ لولا لنگڑا بھی ہے۔ ہمارے ملک کی وفاقی کابینہ جتنی بڑی ہے اس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ پچھلے دنوں نہ صرف وزرا کی فوج ظفر موج بھرتی کی گئی بلکہ ان کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ بھی کیا گیا۔ اس وقت ہمارے قومی خزانے کو جو جونکیں چمٹی ہوئی ہیں‘ ان میں سرفہرست پارلیمان کے دونوں ایوان ہیں۔ اگر ہم اپنی پارلیمان کو محاورے کے مطابق سفید ہاتھی قرار دیں تو یہ بالکل بجا ہو گا۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ ہماری نام نہاد جمہوری (عوام کے ووٹوں سے چنی ہوئی) پارلیمان کا رکن بننے کے لیے کروڑ پتی ہونا ضروری ہے۔ کروڑ یا ارب پتی اراکینِ اسمبلی کو ایک روپیہ تنخواہ دینا بھی قومی خزانہ پر بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ سفر اور علاج کی سہولتوں پر خرچ ہونے والی رقم پوچھی جائے تو یہ بھی کروڑوں روپے بنتی ہے۔ ستم بالائے ستم کہ ہر حکومت قانون کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اراکینِ پارلیمنٹ کو کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز دیتی ہے جبکہ انہیں ان فنڈز میں سے ایک روپیہ دینا بھی آئین اور قانون کے منافی ہے۔ ترقیاتی فنڈز صرف اور صرف مقامی حکومتوں اور بلدیاتی اداروں کو دیے جانے چاہئیں مگر اس کے لیے ملک میں بلدیاتی نظام کا قیام ضروری ہے اور بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مقامی حکومتوں کے نظام کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔
ہمہ وقت کاسۂ گدائی لے کر ملکوں ملکوں گھومنے والے وزرا اور بڑے سرکاری افسروں کو سادگی اور کفایت شعاری کا نمونہ ہونا چاہیے مگر صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ برطانوی وزیراعظم صرف ایک کنال کے گھر میں رہتا ہے۔ شاہی خاندان کے افراد عام لوگوں کے ساتھ ٹرین میں سفر کرتے ہیں۔ چند برس ہوئے کہ ایک یورپی ملک (غالباً نیدرلینڈز) کے ایک وزیر کومحض اس جرم میں برطرف کر دیا گیا کہ وہ جب پیرس میں ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے گیا تو اس نے ہوائی جہاز میں اکانومی کے بجائے فرسٹ کلاس کے درجے میں سفر کیا اور اپنی سیکرٹری کو بھی ساتھ لے گیا جبکہ پیرس میں اس ملک کا سفارتخانہ اس کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔ ہمارے ملک میں قومی دولت کو جس بے دردی سے ضائع کیا جاتا ہے اس کا امیر ممالک میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پچاس کی دہائی میں Quintin Hogg (جو Lord Hailsham کے نام سے بھی جانے جاتے تھے) جب تک برطانوی محکمہ انصاف کے لارڈ چانسلر رہے‘ وہ روزانہ سائیکل چلا کر دفتر آتے تھے۔ برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے ایک معزز رکن Lord Avebury (پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی کمیٹی کے عمر بھر صدر رہے) بھی قریباً 25برس تک سائیکل پر ایوان آتے رہے۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ برطانوی پارلیمان کے کسی بھی رکن کو سفری اخراجات کے لیے رقم دینے میں اتنی کنجوسی سے کام لیا جاتا ہے کہ اراکین لندن میں انڈر گراؤنڈ ٹرین پر بخوشی سفر کرتے پائے جاتے ہیں۔ لارڈ ایوبری اس کالم نگار کی ذاتی دعوت پر چار بار پاکستان اور آزاد کشمیر آئے اور انہوں نے اپنے بڑھاپے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہمیشہ اکانومی کلاس میں سفر کیا۔ ہمارے ملک میں نوکر شاہی حکومت کا اہم ستون ہے۔ وہ اپنے آپ کو سول سرونٹ تو کہتی ہے مگرپبلک سرونٹ نہیں سمجھتی۔ مالِ مفت دلِ بے رحم کا محاورہ بڑے سرکاری افسروں پر صادق آتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں ایک ایسا بااختیار کمیشن بنایا جائے جس کے اراکین ریٹائرڈ جج صاحبان یا بڑے سرکاری افسر ہوں اور وہ اپنی خدمات تنخواہ لیے بغیر رضاکارانہ طور پر سرانجام دیں۔ یہ کمیشن سرکاری خزانے کے ہر ضیاع (چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا ہو) کے ذمہ دار سے باز پرسی کرے اور ہر قسم کی فضول خرچی پر قدغن لگائے۔ یقین جانیے کہ یہ کمیشن سارا سال مصروف رہے گا اور قوم کے اربوں روپے بچائے گا۔