نئے صوبوں کی ضرورت … (3)

مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے امنِ عامہ‘ پولیس‘ شہری دفاع و ہنگامی طبی امداد‘ بنیادی ضروریاتِ زندگی‘ مقامی عدالتوں‘ پبلک ٹرانسپورٹ اور صحت و صفائی سے متعلقہ معاملات میں ہمہ وقت متحرک اور مربوط بلدیاتی نظام سے آراستہ ہوتے ہیں۔ جس ملک میں بلدیاتی نظام عوامی ضروریات کے عین مطابق ہو اور عوام اور حکومت کے درمیان ایک پُل کا کردار ادا کرتا ہو‘ وہاں حکومت کو قومی پروگراموں اور منصوبوں پر زیادہ سے زیادہ کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 60فیصد سے زیادہ حصہ دیہی آبادی پر مشتمل ہے‘ جہاں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور بلدیاتی نظام کا وجود دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ناگزیر سمجھا جاتا ہے مگر یہاں اسکا نام و نشان نہیں ملتا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ حکومت کا تیسرا ستون میرے ملک سے غائب ہے۔ یہ ہمارے آئین کے آرٹیکل 32 اور 140-Aکی صریح خلاف ورزی ہے۔ موخر الذکر آرٹیکل ہر صوبہ کو پابند کرتا ہے کہ وہ قانون کے مطابق ایک لوکل گورنمنٹ سسٹم قائم کرے گا۔ آرٹیکل 32 نے ریاست پر یہ بڑی ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کی تشکیل کی حوصلہ افزائی اور نشوونما کرے گی جن میں کسانوں‘ مزدوروں اور خواتین کو خصوصی نمائندگی دی جائے گی۔
قیام پاکستان کے پہلے 13 برسوں میں ملک میں لوکل گورنمنٹ کے صرف وہی ادارے موجود تھے جو برطانوی راج میں بنائے گئے تھے اور ان کے اختیارات بڑے محدود تھے مگر بہرحال یہ مقامی ادارے سرے سے نہ ہونے سے بہتر تھے۔ 78 برسوں میں مقامی حکومتوں کے متعدد تجربات کیے جا چکے مگر ماسوائے جنرل پرویز مشرف کے بنائے ہوئے مقامی حکومتوں کے نظام کے (جس میں ضلعی ناظم نے ڈپٹی کمشنر کی جگہ لے لی) آج تک مقامی حکومتوں کا کوئی بھی ایسا فعال اور عوام دوست نظام نہیں بنایا جا سکا جو عوامی توقعات اور اجتماعی فلاح کے تقاضوں پر پورا اترتا ہو۔ بحیثیت مجموعی ہمارا المیہ یہ رہا کہ قومی بجٹ کے ثمرات نچلی سطح تک (جہاں عوام رہتے ہیں) نہیں پہنچ پائے۔ متعدد بار بلدیاتی نظام معطل رہنے سے ملک کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی براہِ راست متاثر ہوئی جو آج بھی پینے کے صاف پانی‘ صحت و صفائی‘ پرائمری تعلیم‘ منڈیوں کے مربوط نظام‘ مثالی پولیس نظام اور تعمیر و ترقی سے محروم ہے۔ سندھ کے عوام بدستور پاگل کتوں اور زہریلے سانپوں کے عذاب سے دوچار ہیں۔ پنجاب میں ہر سال ڈینگی مچھر سینکڑوں افراد کی ہلاکت کا باعث بنتا ہے۔ تین ماہ بعد ہمارے ہاں برسات آئے گی تو اپنے ساتھ وسیع تباہ کاری لے کر آئے گی۔ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر اربوں روپوں مالیت کے قیمتی پانی کو صرف مقامی حکومتیں محفوظ بنا سکتی ہیں۔ کروڑوں لوگوں کو طرح طرح کی مصیبتوں سے نہ وفاقی حکومت بچا سکتی ہے اور نہ صوبائی حکومتیں۔ یہ کام صرف تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کر سکتی ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے چنا ہوا ضلع ناظم عوام سے زیادہ قریب ہو گا۔ وفاقی حکومت تو وفاق کو اچھے طریقے سے نہیں چلا پا رہی‘ حالت یہ ہے کہ عوام سے اکٹھے کیے جانے والے محاصل کا بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہو رہا ہے۔ سرکاری خزانے میں (دکانداروں‘ بڑے زمینداروں‘ جائیدادوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والوں اور سٹاک ایکسچینج میں روزانہ کروڑوں روپے کمانے والوں کے ٹیکس نہ دینے سے) مطلوبہ اہداف کے مطابق محصولات جمع نہ ہونے اور ترقیاتی کاموں کے فقدان سے عوام کی اکثریت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آئے دن طرح طرح کے وبائی امراض انہیں گھیرے رکھتے ہیں۔
عمران خان جب وزیراعظم بنے تو انہوں نے اپنی حکومت کے ابتدائی 100 دنوں میں بلدیاتی نظام کی اصلاحات کا بیڑا اٹھایا تھا مگر انہوں نے موجودہ نظام کو بہتر اور فعال اور عوام دوست بنانے کے بجائے پنجاب میں ہر سطح پر منتخب کونسلروں کو برخاست کر دیا اور اپنی حکومت کے خاتمہ تک مقامی حکومتوں کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ میرے پاس وہ اخباری تراشہ موجود ہے جس میں ان کے وزیر اطلاعات فواد چودھری اور ایک وفاقی مشیر (شہزاد اکبر) نے مشترکہ پریس بریفنگ میں اپنی نئی حکومت کے 100روزہ پلان کی خوش خبری سنائی تھی‘ جس کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مقامی حکومتوں کے قیام کا مسودہ تیار کیا گیا تھا۔ دونوں صوبوں میں مقامی حکومتوں کے نئے نظام کے تین اہم ترین امور پر اتفاق ہوا تھا۔ ان میں میئر کا براہِ راست انتخاب‘ یونین کونسل کی جگہ ویلیج (گاؤں) کونسلوں کے قیام اور سروسز اور انتظامی محکموں کو میئر کے ماتحت کرنا شامل تھا۔ پاکستان کے آئین میں وفاق‘ صوبوں اور مقامی سطحوں پر بالترتیب وفاقی‘ صوبائی اور مقامی حکومتوں کے قیام کی ضمانت دی گئی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 32 اور 140-A کے تحت ہر صوبہ میں ضلعی کونسلیں اور میٹروپولٹین ادارے دیہی اور شہری علاقوں میں مقتدر حیثیت کے حامل ہوں گے۔ اس سارے نظام کے تحت ملک بھر میں 129 ضلعی کونسلیں‘ چار میٹروپولٹین کاروپوریشنیں‘ 13 میونسپل کارپوریشنیں‘ 96میونسپل کمیٹیاں‘ 148ٹاؤن کونسلیں‘ 360دیہی یونین کمیٹیاں اور 1925دیہی کونسلیں اس مجوزہ بلدیاتی نظام کے تحت معرض وجود میں آئیں گی لیکن فعال مقامی حکومتوں کا خواب ایک سراب بن گیا۔ عمران خان کی حکومت جاتی رہی اور اُن کے دل میں مقامی حکومتوں کے نظام کی خواہش ایک حسرت میں تبدیل ہو گئی۔ آج مقامی حکومتوں کے فقدان سے ہمارے ریاستی بندوبست میں اتنا بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے کہ یہ بلوچستان میں حکومت اور عوام کے درمیان کسی قسم کا فعال رشتہ نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ بن گیا ہے۔ جناب زاہد اسلام قابلِ صد تعریف ہیں کہ وہ ہمہ وقت مقامی حکومتوں کے نظام کے قیام کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ انہی صفحات پر اظہار خیال کرنے والے کنور دلشاد اور ڈاکٹر حسین احمد پراچہ‘ ان کے علاوہ سلمان عابد اور سہیل وڑائچ اور انگریزی اخباروں کے چند روشن دماغ کالم نگاروں کا میں بے حد احسان مند ہوں کہ انہیں قدرت کی طرف سے جو حکم اذاں ملا ہے وہ اس کو سنتے اور اس کی مسلسل پاسداری کرتے ہیں۔ میں بصد احترام سپریم کورٹ کی توجہ اس ضروری مسئلہ کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ ملک بھر کے وکلا ہمارے قانون اور آئین کے محافظ ہیں مگر وہ بھی خاموش ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور عوام کے دکھ درد کا مداوا کرنے والوں کی بڑی تعداد میدانِ عمل میں سرگرم ہے مگر ان سب کوبھی یہ مسئلہ نظر نہیں آتا۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں کہیں مسلمان آباد ہیں وہاں عید الفطر منائی جا چکی۔ رمضان کے آغاز پر برطانیہ میں تمام بڑے گروسری سٹور اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں بڑی نمایاں کمی کر دیتے ہیں۔ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے ملک اس ماہِ مبارک میں معاملہ بالکل الٹ رہا۔ یہاں پھلوں سے لے کر دالوں تک کی قیمت بڑھا دی گئی۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ نمازِ جمعہ کے وقت مسجد میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے ہزاروں افراد گلیوں‘ بازاروں میں چادریں بچھا کر نماز پڑھتے ہیں‘ کروڑوں افراد نماز روزے کے پابند ہیں‘ کوئی مسجد ایسی نہیں جہاں لوگ اعتکاف میں نہ بیٹھتے ہوں‘ ہر سال دو لاکھ کے قریب افراد حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں‘ جب عبادات کا عالم یہ ہو تو یہ توقع بجا طور پر کی جا سکتی ہے کہ ایک مسلم ملک میں دکاندار اس ضابطۂ اخلاق کی پابندی کریں گے جو یورپ اور امریکہ میں کفار نے اپنایا ہوا ہے۔ مقامی حکومتوں کا نظام ہو تو وہ دکانداروں کی طرف سے پیدا کردہ خود ساختہ قلت کو جواز بنا کر ضروری اشیا کی قیمت بڑھانے کا کچھ تدارک تو کر سکتی ہیں۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں ایک بری خبر یہ ملی کہ حکومت نے 1700 کے قریب یوٹیلیٹی سٹور بند کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ ایسے سٹور چلانا بھی مقامی حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ میں اپنے پہلے ایک کالم میں یہ بات لکھ چکا ہوں‘ اجازت دیجئے کہ اُسے پھر دہرائوں۔ پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی اتحاد کی حکومت ہو‘ اگر وہ مقامی حکو متوں کے بغیر کام چلانے کی کوشش کرے گی تو بری طرح ناکام ہوگی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں